اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتہ، جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

ڈاکٹر سلیم خان

ایک بین المذاہب کانفرنس  میں شہر کے معروف سرجن   ڈاکٹر گیانیشور نے بڑے فخر سے فرمایا میں خداکو اس لیے نہیں مانتا کہ میں نےدیکھا نہیں ہے۔ ان کی یہ منطق مجھے ایک غیر آباد نخلستان میں رہنے والاصحرا نشین بدو کے پاس لے گئی جس کی سواری اونٹ  تھی اور گذر بسر دودھ  اور کھجورپر ہوتاتھا۔ اس نے سوال کیا تم کہاں سے آئے ہو؟

میں بولا ہندوستان سے۔

اس نے یہ نام پہلی بار سنا تھا اس لیے پوچھا کتنے فاصلے پر ہے۔

میرا جواب تھا ۵ہزار میل کی دوری پر۔

اگلا سوال تھا کتنا وقت لگا۔

میں بولا ۶  گھنٹے ۔

یہ سن کر وہ چونک پڑا، صرف ۶ گھنٹے !  اور ایک اونٹ کی جانب اشارہ کرکے بولا اتنا وقت تو مجھے اس  پر۵۰ میل کا سفر طے کرنے میں لگ جاتا ہے۔

لیکن میں نے تو ۴ گھنٹے ہوا میں اور دوگھنٹے خشکی میں اس گاڑی سے سفر کیا ہے۔ میں نے سامنے کھڑی لینڈ کروزر کی جانب اشارہ کرکے کہا۔

گاڑی سے تو ٹھیک ہے لیکن ہوا میں یہ کیسے ممکن ہے؟

جیسے خشکی میں گاڑی اور پانی میں جہاز اسی طرح ہوا میں ہوائی جہاز۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟

میرے اس تالاب میں تو اونٹ بھی نہیں چلتا اور تم جہاز چلانے کی بات کرتے ہو؟

میں  نے جہاز کو تالاب میں نہیں سمندر میں چلانے کی ہے۔

یہ سمندر کیا ہوتا ہے؟

بہت بڑا تالاب جس  کاپانی کھارا ہوتا ہے اوراس میں لہریں بھی  اٹھتی ہیں۔

چلو پانی میں چلنا بھی مان لیا لیکن ہوا میں کوئی چیز کیسے چل سکتی ہے؟

کیوں اگر خشکی اور پانی میں چل سکتے ہیں تو ہوا میں کیوں نہیں؟ میں نے سوال کیا۔

وہ معصومیت بولاہوا دکھائی جو نہیں دیتی۔

اس کے باوجود ہوتی تو ہے کیا تم اسے محسوس نہیں کرتے؟

کرتا  کیوں نہیں؟ میں تو ہوا کارخ، اس کی رفتار، اس کا درجہ حرارت اور اس کے آثار یعنی  طوفانی ہے یا برساتی یہ بھی  جان لیتا ہوں۔

بغیر دیکھے تم اتنا کچھ جانتے ہو تو اس پر چل کیوں نہیں سکتے۔ جو ہوابادلوں کوتو اٹھا کر لاسکتی ہے وہ  ہوائی جہاز کو اٹھا کرکیوں  نہیں لے جاسکتی ؟

جی ہاں یہ میں نے نہیں سوچا۔  شاید دیکھنے اور سوچنے میں فرق ہے؟

جی ہاں تم نےہوا کو نہیں دیکھا مگر جس طرح وہ  موجود ہے اسی طرح ان دیکھا  ہوائی جہاز بھی موجود ہوگا۔

  چشم تصور کےنخلستان میں کوئی  صحرا نشین بدو نہیں بلکہ   معروف سرجن  ڈاکٹر گیانیشورمجھ سے محو گفتگو تھا۔

تبصرے بند ہیں۔