اس سلیقے سے ان سے گلہ کیجئے!

مکرمی!

 یہ حقیقت ہیکہ کانگریس کے دورِ اقتدار میں لا تعداد فرقہ وارانہ فساد ہوئے اور سارے فسادات میں مسلمان زد میں آئے ۔دوسری خاص بات یہ کہ اگر کانگریس مسلمانو ں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو کیاآج مسلمانوں کی دہلیز پر آج پسماندگی اور بربادی کا پہر ہ ہوتا؟آج ملک میں لاتعداد مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند اپنی زندگی کے قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں ۔اگرجائزہ لیا جائے تو زیادہ تر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کانگریس کے دورِ اقتدرا میں ہوئی ہیں ۔ہم غور کریں اقتدرا کے منصب پر کوئی بھی فائز ہو مسلمانوں کی راہوں میں ہمیشہ خدشات اور ڈر کا پہرہ رہتاہے ۔

افسوس کی بات ہیکہ انتخابات کے وقت میں مفاد پرست ضمیر فروش افراد مسلمانوں کو فرقہ پرستوں بالخصوص  بی جے پی کا خوف دلاکر ووٹ دلواتے ہیں ۔لیکن کیا سچائی ہیکہ ملک میں صرف فر قہ پرست بی جے پی ہے ۔ کون سا ایسا کام ہے جو بی جے پی نے کیا ہواور کانگریس، ایس پی نے نہیں کئے ہوں ۔ اگر بی جے پی نے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا برتائو کیا ہے تو کانگریس، ایس پی اور دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں نے بھی مسلمانوں کے جذبات کو پیروں تلے رونداہے ۔ آرٹیکل 341 پر مذہبی پابندی کس نے لگائی، مظفر نگر میں مسلمانوں کے آشیانے کس کی حکومت میں جاڑے گئے ؟

خاکسار کا ان سے ایک سوال جو آج کل کانگریس کے مدح سراء بنے پھرتے ہیں کہ کیا کانگریس سچ مچ مسلمانوں کے تئیں وفادار ہے، یا پھر کرسیوں اور چند سکوں کے لالچ میں اپنا ضمیر فروخت کر پوری قوم کا بیوقوف بنانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے  ۔کانگریس کاور نام نہاد سیکولر جماعتوں کے تعلق سے دن تلخ حقائق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر غور  کریں اور پھر سوچیں کہ کہیں ہمیں آزادی کے بعد سے مسلسل  بیوقوف تو نہیں بنایا جا رہاہے ؟

2008 میں جامعہ نگر کے بٹلہ ہائوس میں دہلی پولس دو مسلم طلباء کو دہشت گرد بتا کر انکائونٹر کرتی ہے اور جب ملک کے مسلمان اور حقوق علمبردار کی تنظیموں کی جانب سے اس پولس تصادم کی حکومت سے جو ڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا ہے تو کانگریس کی حکومت یہ کہہ کر بٹلہ ہائوس سانحہ کی جوڈیشیل انکوائری کا یہ عذر پیش کرکے انکار کر تی ہے کہ انکوائری سے پولس کا مورل ڈائون ہوگا ۔یہ کتنے افسوس کی بات ہیکہ کانگریس کو مٹھی بھر پولس کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اس لئے اس نے ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو پس ِ پشت ڈال دیا۔آئین ہند کے مطالعے سے پتہ چلتا ہیکہ ملک میں مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ (مجموعہ ضابطہ ء فوجداری )کی دفعہ 176 کے تحت کسی بھی طرح کے پولس تصادم کی جانچ مجسٹریٹ سے کروانا لازمی ہے ۔لیکن کانگریس کا اس سانحہ کی منصفانہ جانچ سے راہِ فرار اختیار کرنا جمہوری نظام کے ساتھ نا انصافی کرنے جیسا ہے ۔

راجیو گاندھی نے 1986ء میں بابری مسجد کا تالا کھلواکر ملک میں ہندتوا نظریات کی اشاعت کا کام کرنے والوں کی راہیں مزید ہموار کیں ۔کہا جاتا ہیکہ کانگریس میں ہندتوا کے تئیں نرم رویے کی ابتدا دگ وجے سنگھ، ارون نہرو، وسنت ساٹھے اور بوٹا سنگھ سے ہوئی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔