اس وادی پرخوں سے اٹھے گا دھواں کب تک

ڈاکٹر سلیم خان

پلوامہ حملے کے بعد وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ فوج کو انتقام لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس بیان سے ایسا لگا کہ گویا کوئی پابندی لگی ہوئی تھی جس کو اٹھا لیا گیا۔ اس کے بعد کے پلوامہ ضلع کے پنگلان علاقہ میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان ایک  مسلح تصادم ہوا جس میں  ایک میجر سمیت  ۴فوجی ہلاک  ہو گئے۔ ان  لوگوں  پلوامہ  حملے میں شامل جیش محمد کے تین کمانڈرس کو گھیر لیا تھا۔ اس بیچ یہ خبر بھی آئی کہ حفاظتی دستوں نے پلوامہ حملے کے ماسٹر مائنڈ اور جیش محمد کے کمانڈر کامران عرف غازی سمیت  ایک مقامی دہشت گرد ہلال احمد کو ہلاک کردیا  گیا۔ جیش کا کمانڈر غازی آئی ای ڈی ماہر اور مسعود اظہر کا بھتیجا تھا۔ اسی کے ساتھ یہ اعلان ہوگیا  کہ فوج نے پلوامہ کا انتقام لے لیا۔   چلیے علٰحیدگی پسندوں اور فوج نے ایک دوسرے کے ساتھ حساب کتاب برابر کردیا۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان پہنچنے کے کچھ گھنٹے پہلے  بلوچستان کے پاس پاکستانی فوج کے قافلے پر بھی  ایک  خودکش حملہ کی خبر ذرائع  ابلاغ کی زینت بنی  جس میں کم از کم نو فوجی اہلکاروں کی موت ہو گئی اور ۱۱زخمی ہو گئے۔ اس خبر کو پڑھ کر تولین سنگھ جیسے دانشور بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے اس ہفتہ اپنے کالم میں حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اب ہمیں رافیل کی ضرورت نہیں بلکہ وہ سب کرنا چاہیے جو مسعود اظہر پاکستان میں کررہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مسعود اظہر کی یہ حرکات کشمیر میں قابل  ہیں تو ہماراپاکستان میں وہی کرنا  کیسے درست ہوجائے گا؟  بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی  لیکن اس کے بعد نہ تو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ہائے توبہ مچی اورنہ ہندوستان کو اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرا یاگیا  حالانکہ  حفاظتی مشیراجیت دوول اور وزیراعظم مودی بلوچستان کے علٰحیدگی پسندوں کی حمایت کرچکے ہیں۔ وہاں پر نہ تو ہندوستانی سفیر کو بلا کر تنبیہ کی گئی اور نہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ہندوستان میں بھی  اگر قومی انتخاب قریب نہ ہوتے تو شاید اس معاملے کو اتنا زیادہ نہیں  اچھالا جاتا۔ سوشیل میڈیا میں بہت زیادہ گونجنے والاراحت اندوری کا شعر ان حالات پر بہت زیادہ منطبق ہورہا ہے؎

سرحدوں پر بہت تناو ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناو ہے کیا؟ 

خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں، تیسری سمت کا دباو ہے کیا؟

پلوامہ دھماکے کے بعدجموں  میں فساد پھوٹ پڑا اور وہ مسلسل دو دنوں تک آگ زنی اور پتھربازی ہوتی رہی۔ اس بیچ وہ  بدنام زمانہ چھروں والی بندوقیں  شاید سرحد پار نکل گئیں  جن کا استعمال وادی میں پچھلے دنوں خوب ہوا۔ اس لیے کسی کو یہ کہنے کی ضرورت پیش ہی نہیں آئی کہ پتھر کے جواب میں پھول نہیں آئیں گے بلکہ حملہ آوروں کی راہوں کو پھولوں سے سجایا گیا۔ نہ ہی کسی کویہ تحقیق کرنے کی ضرورت پڑی کے اتنے سارے پتھرکہاں سے لائے گئے تھے۔ کوئی ایسا ماہر معاشیات بھی سامنے نہیں آیا کہ جو بتاتا ایک پتھر مارنے کے اور ایک گھر یا دوکان جلانے کے کتنے پیسے ملتے ہیں ؟  ایک سوال یہ ہے کہ اگر ایک ہی صوبے کی وادی میں اور میدانی علاقہ میں ایسا تفریق و امتیاز برتا جائے گا تو کیا جموں  کشمیر  کا مسئلہ حل ہوپائے گا۔ اکھنڈ بھارت کے باشندوں کے ساتھ اگر ایسا ناروا سلوک کیا جائے تو اپنے آپ کو اس ملک کا باشندہ سمجھیں گے؟

یہ خوش آئند پہلو  ہے کہ ہندوستان بھر میں  سی آر پی ایف سے ہمدردی کا اظہار متحدہ طور پر  کیا گیالیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ جموں میں ہونے والے مظالم کی مذمت و احتجاج   صرف وادیٔ  کشمیری تک محدود رہی ؟ کیا ملک باقی لوگ انہیں اپنا ہم وطن نہیں سمجھتے ؟یا ڈرتے ہیں ؟  سوچنے والی بات یہ بھی  ہے کون زیادہ دہشت زدہ ہے؟  کشمیر کے اندر رہنے  والے یا باہر والے؟ تعلیم کی غرض سے بھارت میں مقیم کشمیری طلبا زعفرانی  انتہا پسند جماعتوں کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔  کئی ریاستوں کے جامعات میں کشمیری نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی کے ساتھ مختلف  ریاستوں میں برسوں سے مقیم کشمیریوں کو نقل مکانی  کی دھمکیاں دی گئیں۔ دھمکی دینے والوں  پر کارروائی کرنے کے بجائے  انتظامیہ کی توجہ صرف ذرائع ابلاغ میں  کشمیری طلباء کے پیغامات  پر مرکوز رہی اور انہیں ہراساں کیا  گیا۔ ملک بھر میں پلوامہ کی مذمت ہونے والے  مظاہروں کشمیری طلباء کی حمایت  کیوں نہیں کی گئی؟

چھتیس گڑھ  میں سب سے پہلے  چار کشمیری طلباء کو تشدد کا نشانہ بناکر زخمی کیا گیا۔ یہ لوگ  رائے پورکے دشاانسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم تھے۔ اس کے بعد  ہریانہ اوردہرہ دون  میں زیرتعلیم کشمیری طلبا کو بھی زدوکوب کیا گیا۔ اتراکھنڈ کی دیوبھومی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والےکشمیری طلباء کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل خالی کرکے گھر واپسی کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر اترپردیش کی وانرسینا جوش میں آئی اور اس نے بھی  دیوبند سے کشمیری طلبا کو  دو دن میں نکل جانے کی دھمکی دی۔ یہ دیش  نام نہاد دیش بھکت  کشمیر کا مسئلہ سلجھا رہے ہیں یا  الجھا رہے ہیں ؟ان قابل مذمت سانحات کی مذمت کرنے کے لیے وہ فرد آگے آیا  جس پر نزلہ اتارتے ہوئے مرکزی حکومت نے اسے تحفظ سے محروم کردیا اوراس نے جواب ہم سیکیورٹی کے محتاج نہیں ہیں۔

جی ہاں میر واعظ  فاروق  اس  تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’کرفیو‘‘ کے باوجود جموں اور ملک کے مختلف شہروں  میں مقیم کشمیری، طلباء، تاجر پیشہ افراد پر فرقہ پرست عناصر کی جانب سے جان لیوا حملےاوران کے مال و جائیداد کو نقصان پہنچانے کے واقعات انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت  ہیں۔ ان لوگوں کو کوئی گزند پہنچی تو مقامی حکومتیں ذمہ دار ہوں گی لیکن  سوال یہ ہے کہ ان کی سرزنش کون کرے گا؟ یہ واقعات انہیں صوبوں میں رونما ہورہے ہیں جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے  یا اس کا بہت اثر ہے۔ مرکز میں اسی کی حکومت ہے۔ ایسے میں سوچنا پڑتا  ہے کہ محب وطن لوگ کیا  انہیں ریاستوں  میں مقیم ہیں جہاں بی جے پی کا زور ہے؟  یا دیش بھکتی کے نام دنگا فساد کرنے ہمت ان غنڈوں کے اندر انہیں مقامات پر ہوتی ہے جہاں زعفرانی پرچم لہراتا ہےورنہ یہ دم دبا کر اپنے پنجرے میں بیٹھے رہتے ہیں۔  کشمیر کے تشدد کی گتھی  کا حل  ان  سوالات کے ایماندارنہ جوابات کے اندر پوشیدہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. عابد اطہر کہتے ہیں

    صحيح بات کہی آپ نے۔

تبصرے بند ہیں۔