اشتراکی تحریکات کا فکری و عملی چیلنج 

ڈاکٹر سلیم خان

وطن عزیز کے اندر امت مسلمہ  بے شمار مسائل سے گھری ہوئی ہے لیکن اسی کے ساتھ  اس کا یہ امتیاز ہے کہ وہ ایک مکمل و  منفرد نظریۂ   حیات کی حامل  ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ   فلسفۂ زندگی مغرب سے مستعارشدہ  نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے عصرِ حاضر میں  دین اسلام زندگی کے  تمام ہی شعبوں میں مغربی افکار ونظریات  کا نہ صرف  متبادل پیش کرتا بلکہ ان کو  چیلنج کرتے ہوئے  آئینہ دکھاتا ہے۔ ملت کے علاوہ جو  دو نظریاتی گروہ ملک میں  پائے جاتے ہیں وہ دونوں مغرب کی فکری غلامی میں مبتلا ہیں۔  ان میں سے ایک تو برسرِ اقتدار ہندوتوا کا علمبردار سنگھ پریوار ہے۔ یہ بظاہر  اپنے آپ کو ہندوستان کی قدیم تہذیب سے جوڑتا ضرور ہے لیکن اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ  اس نے اپنے ابتدائی دنوں میں ڈاکٹر مونجے کو فسطائی نظریات سے استفادے کی خاطر مسولینی کے پاس اٹلی بھیجا تھا۔ فسطائیت کو درآمد کرنے کے بعد اس پر ہندوتوا کی ملمع کاری سنگھ پریوار کے لیے اس لیے آسان ہوگئی کہ دونوں کا مزاج ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھا۔  جرمنی کے اندر نازی ازم کے نام پر جب   نسلی تفاخر کی بنیاد پر ہٹلر نےیہودیوں کا قتل عام کیا تو ان لوگوں  نے اسے اپنے لیے نمونہ سمجھااور اس کی تعریف و توصیف میں رطب السان ہوگئے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ کل تک یہودیوں کی نسل کشی پر ہٹلر کے مظالم کی پذیرائی کرنے والا  سنگھ پریوارآج کل فلسطینیوں کے خلاف صہیونیت کو حق بجانب ٹھہرا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے سنگھ پریوار کا راج دھرم   بلاتفریق مذہب و ملت ظالم کی حمایت و اطاعت ہے۔

سنگھ پریوار کے زعفرانی پرچم کے خلاف ملک میں  سرخ جھنڈا لہراتا ہے۔ آزادی کے بعد اشتراکیت کے حامل نہ صرف بہت  طاقتور تھے بلکہ  وہی ایوانِ پارلیمان میں  سب سے بڑا حزب اختلاف بھی تھے۔ اس  وقت سنگھ پریوار ان کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا لیکن  گردشِ زمانہ نے حالات بدل دیئے۔  اب اشتراکیت کے وجود کو  سنگھ پریوار سے بہت بڑا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے مارکس اور لینن  کے ماننے والے یہ لوگ فی الحال  کئی گروہوں میں منقسم ہیں۔  حالات  کے دباو نے  ان میں سے بیشتر  کو بائیں محاذ میں جمع تو کردیا ہے لیکن یہ ان کی پسند نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ اندر ہی اندر ہر گروہ کا   اپنے منفرد جماعتی ڈھانچے پر اصرار ہے۔ وہ اپنے الگ الگ  تنظیمی ڈھانچوں کو تحلیل کرنے کےلیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ان میں  سیاسی سطح پر سب سے فعال  سی پی ایم کے اندر  فکری انتشار بھی پایا جاتا ہے۔موجودہ سربراہ  سیتارام یچوری اور ان کے پیش رو پرکاش کرات کے درمیان دیگر جماعتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کے مسئلہ پر  شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے منفی  اثرات پارٹی کے کارکنان اور ان کی کارکردگی پر   پڑ رہے ہیں۔  مغربی بنگال میں پرکاش کارت کے سبب کانگریس کے ساتھ اتحاد نہیں ہوسکا اور مایوسی کا شکار اشتراکی ووٹر سنگھ کے لیے نرم چارہ بن گیا۔  تمل ناڈو میں سیتارام یچوری کی رائے کا پلہ بھاری رہا اور اسٹالن کی  ڈی ایم کےکاساتھ مفید ثابت ہوا۔

 ابھی حال میں   بائیں بازو کےمعروف سیاسی مبصر رام چندر گہا نے امید ظاہر کی  بی جے پی کا دباو ان اشتراکی گروہوں کو  متحد ہونے پر مجبور کردے گا۔    اس صورت  میں انہیں ایک نئے نام کی ضرورت پڑے گی۔ ایسے میں گہا نے بائیں بازو کی جماعتوں کو اپنے نام سے لفظ کمیونسٹ ہٹا کر خود کو سوشلٹ ڈیموکریٹک کہلوانے کی مشورہ دیا  ہے۔  ان کو لفظ ‘کمیونسٹ’ سے آمریت کی بوُ آتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان جماعتوں کے اندر آمریت کے عناصر  موجود ہیں؟  اگر  نہیں ہیں تو پھر نام بدلنے کی کیا ضرورت ؟ اگر ہیں  تو کیا  محض نام کی اصلاح سے کام بن جائے گا؟  اس کے علاوہ دو اور سوالات ہیں۔ اول تو یہ کہ ہندوستان بھر میں وہ کون سی سیاسی جماعت ہے جس کے اندر اندر آمریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نہیں ہے؟  اس کے باوجود کیا ملک کے عوام اس کو ذرہ برابر اہمیت دی ہے؟ ایک ایسے وقت میں جبکہ وزیراعظم نریندر مودی اپنی پارٹی کےاندر اور باہر ایک آمریت پسند حکمراں کی حیثیت سے جانے اور پسند کیے  جاتے ہیں  کمیونسٹ پارٹی کو نام بدلنے کی تلقین کرنا ایک بچکانہ مشورہ ہے۔

ا س حقیقت کو جلد از جلد تسلیم کرلینا چاہیے  کہ ہندوستان کے لوگوں نے فی الحال آمریت سے آگے بڑھ کر فسطائیت کو گلے لگارکھا ہے۔  ایسے میں چند ظاہری تبدیلیوں پر اکتفاء کرنے کے بجائے گہرائی سے یہ جائزہ لینا ہوگا کہ عوام کا ذہن کیوں بدلا؟ اس سوال  کاحقیقت پسندانہ جائزہ اوراس کی بنیاد پر وضع کی جانے والی حکمت عملی ہی ٹھوس نتائج برآمد کرسکتی ہے۔   ملک کے  عوام کی بابت ایک بات اشتراکی تحریکات  کو پہلی فرصت میں مان لینی چاہیے  کہ یہ ایک مذہب پسند سماج ہے۔ اس حقیقت  کے احساس نے پنڈت جواہر لال نہرو کو ان کے اپنے ملحدانہ نظریات کو بالائے طاق رکھ کر لادینیت(سیکولرزم) کی ایک نئی تعریف وضع  کرنے پر مجبور کردیا۔ اس میں مذہب کا کامل  انکار کے بجائے  جزوی اعتراف کیا گیا تھا۔ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اشتراکی فکر کے حامل دانشوروں  نے اس احتیاط کا پاس و لحاظ نہیں رکھا اورمذہب پر بیجا لعن طعن کرتے رہے۔   اس رویہ کے سبب عام لوگوں  کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی رہی  لیکن جس توجہ دینے کی ضرورت   نہیں محسوس کی گئی۔

سنگھ  پریوار نے ہندوعوام  میں  اپنے مذہب کی  تضحیک و استہزاء کے خلاف پنپنے والے ردعمل  کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور آگے چل کر اس کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف غم غصہ میں بدل دیا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی سطح پر پاکستان کے حوالے سے عدم  تحفظ  کا احساس پیدا کیا گیا۔ اس پر ائیر اسٹرائیک کا پروپگنڈا کرکے اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط بنائی گئی۔  اس پورے معاملے کاادراک و احاطہ  کیے بغیررامچندر  گہا جیسے لوگوں کی سطحی تدابیر کارآمد نہیں ہوں گی۔  ایسے میں اہل اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کو ایک متبادل دین کی حیثیت سے عام لوگوں  کے سامنے پیش کریں۔  عوام الناس کو دلائل کے ساتھ سمجھائیں کہ جس حقیقی مذہب کی ان کو ضرورت ہے وہ سارے انسانوں  کے خالق کا عطا کردہ دین اسلام ہے۔ یہ آفاقی پیغام رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر ہونے کے سبب  ہرخطے  کے رہنے والوں کے لیے پیغامِ نجات ہے۔ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہونے کے سبب اس معنویت آج بھی اسی طرح ہے جیسے پہلے تھی اور مستقبل میں بھی رہے گی۔   اس پیغام حق کی قبولیت میں ملک و قوم کی کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔