اصلی اور نسلی مسلمان

حفیظ نعمانی

اسلام قبول کرنے والی ایک لڑکی جو اَب ہادیہ کے نام سے جانی جاتی ہے اس کی ڈائری کے چند اَوراق معاصر انقلاب نے شائع کئے ہیں۔ ان چند اَوراق کو پڑھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کو اگر سمجھ کر اپنا مذہب مانا جائے تو کتنے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ ہادیہ نے چار سال بہت گہرائی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد اس مذہب سے موازنہ کیا جس پر وہ اور اس کا خاندان عمل کرتا تھا۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ مذہب کیا ہوتا ہے۔ اس نے اپنے گھر میں اپنے دادا کی آخری رسوم میں بس اس طرح شرکت کی جیسے کوئی غیرلڑکی کرتی ہو اور اس کی اسی بے نیازی سے اس کے گھر والوں کو اندازہ ہوا کہ وہ بدل گئی ہے اور بعد میں اس نے سب کو بتا دیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر انسان صرف اپنے وجود کا جائزہ لے تو اسے اس کا جواب مل جائے گا کہ اسے کسی ایسی ہستی نے بنایا ہے جس کے قبضہ میں ہر وہ چیز ہے جو نظر آتی ہے اور ہر وہ چیز بھی ہے جو نظر نہیں آتی۔ اس بات کو سب مانتے ہیں کہ ایک قطرہ ’’منی‘‘ انسان کا بیج ہے لیکن کسی کے پاس اس کا جواب نہیں کہ اس ایک قطرہ میں کتنے کارخانے کتنی مشینیں اور کتنی فیکٹریاں بھری ہوئی ہیں۔ انسان کے سر کے اندر جو بھیجاہے وہ خود درجنوں مشینوں کا کارخانہ ہے یہ دماغ ہی ہے جو انسان کا ریموٹ ہے لیکن جب انسان یہ سوچتا ہے کہ یہ ریموٹ کس نے اور کب لگا دیا؟ تو وہ وہیں لاجواب ہوجاتا ہے۔ پھر چہرہ ہے جس میں دو آنکھیں دو کان زبان و 32 دانت، دانتوں میں کھانے کے اور دکھانے کے اور، اور حلق یہ سب کب لگائے اور کس نے لگائے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور مزاج میں ضد نہ ہو اور انسان اندھا نہ ہو اور وہ کسی بھی زبان میں قرآن عظیم کا مطالعہ کرلے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ سب کس نے کیا اور پھر اسے لاالہ الااللہ کہنے اور ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ ہادیہ نے چار سال بہت غور سے قرآن عظیم کا مطالعہ کیا ہے۔ اور اس مطالعہ کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ چٹان کی طرح اپنے خاندان، کیرالہ ہائی کورٹ، این آئی اے جیسی طاقتور ایجنسی اور سپریم کورٹ کے بااختیار ججوں کے سامنے کھڑی رہی اور جب اس سے بولنے کے لئے کہا گیا تو خود اس کے کہنے کے مطابق۔
’’میری زبان اچانک کھل گئی اور میں بولتی چلی گئی کہ مجھے آزادی چاہئے مجھے اپنے انداز میں زندگی گذارنے کی آزادی چاہئے۔ میں اس شادی سے تین سال قبل اسلام قبول کرچکی تھی اور یہ شادی ہماری اپنی مرضی سے ہوئی ہے۔

ہادیہ نے کہا کہ میں نے وہ سب کہہ دیا جو اب تک میں کسی سے نہ کہہ سکی تھی لیکن مجھے احساس ہوا کہ سب کے سب بہرے ہیں اور میری ایک بات بھی کسی نے نہیں سنی۔‘‘

ہادیہ نے آنسوؤں سے لکھا ہے کہ میرے پاپا گھر میں چہکتے پھرتے تھے اب وہ اتنے چڑچڑے ہوگئے ہیں کہ ہنسنا ہی بھول گئے وہ میری صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتے۔ اور میں ان کے کمرہ میں جاتی ہوں تو وہ گھر سے باہر چلے جاتے ہیں۔ یہ تو ہادیہ ہی بتا سکتی ہے کہ وہ پاک پروردگار سے رو روکر اپنے والدین کو دوزخ کی آگ سے بچانے کیلئے کس کس طرح فریاد کرتی ہے اس لئے کہ اس کی ہر بات سے یقین ہورہا ہے کہ اس نے اسلام کو بہت پڑھ کر اور سمجھ کر قبول کیا ہے ورنہ جب اس کی ماں اس کے پاس آکر صرف آنسو بہاتی تھی تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ آنسوؤں میں نہ بہہ جاتی؟ یہ ہندو ہونے کا اثر ہے کہ ہادیہ کی ماں نے کہا کہ ہماری آواز تو اسی دن ختم کردی گئی تھی جب ہم نے عورت کے روپ میں جنم لیا تھا۔ عورت تو ہادیہ بھی تھی اور اس نے بھی عورت کے روپ میں جنم لیا تھا لیکن اسلام نے اسے زبان دے دی اور وہ اپنے حق کے لئے ساری دنیا سے لڑرہی ہے۔

مرکزی وزارت میں ایک وزیر مختار عباس نقوی ہیں وہ مسلمان کہے جاتے ہیں ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ملک کے مسلمان مدد کیلئے ان کی طرف دیکھیں تو انہیں مسلمانوں کی مدد کرنا چاہئے۔ راجستھان ایک ریاست ہے راج گھرانے کی ایک خاتون ریاست کی وزیر اعلیٰ ہیں ان کی ریاست میں آئے دن انتہائی بیدردی سے کسی نہ کسی بہانے سے مسلمان قتل کئے جارہے ہیں۔ تازہ واقعہ محمد افراز کے قتل کا ہے جو بنگال کا رہنے والا تھا اور برسوں سے مزدوری اور ٹھیکیداری کررہا تھا اسے شمبھولال نام کے ایک سنگھی نے کلہاڑی سے مار مارکر پہلے قتل کیا اور پھر اس کے اوپر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔ مسلمان وزیر نقوی صاحب مسلمان کو اگر توقع ہو کہ وہ صوبائی حکومت سے کہیں گے کہ ایک مزدور کو جو اپنی محنت سے ترقی کرکے ٹھیکیدار بن گیا تھا اسے صرف ایک مزدور سے خوشحال بنتا ہوا دیکھ کر ایک جن سنگھ ذہنیت والے ہندو نے بیدردی سے قتل کردیا تو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ جو نسلی مسلمان وزیر ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ جرم کو فرقہ واریت کا جامہ نہیں پہنانا چاہئے یعنی مرنے والا مسلمان ہے تو اسے صرف مرنے والا کہو مسلمان نہ کہو اور مارنے والا ہندو ہے تو اسے صرف مارنے والا کہو ہندو نہ ہو۔ اور اسی ڈھیلے انداز کا نتیجہ ہے کہ گڑگڑی حلق والے وزیر داخلہ اور ان کی پولیس نے شمبھو لال کو سنکی اور کم عقل کہہ کر اس کے جرم کو ہلکا کرنا شروع کردیا اور کیوں نہ ہو جب اس سے پہلے جن مسلمانوں کو قتل کیا گیا ان کے مارنے والوں کو کلین چٹ دے دی گئی اور نامزد مجرموں کو بچانے کیلئے ان کی حاضری گؤ شالہ میں دکھادی۔

مسلمان تو دونوں ہیں وہ بھی جنہوں نے اسلام کو پڑھا ہے اور صحیح مان کر اس پر عمل کررہے ہیں اور وہ بھی جو اس لئے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا بھی مسلمان تھے اور انہوں نے صرف مسلمان ہونے کو ہی جنت کا حقدار سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ بہت بڑی بھول ہے نسلی اور اصلی مسلمانوں کے دو الگ الگ مذہب ہیں اصلی مسلمان لڑکی ہوتے ہوئے بھی ہر حملہ کا جواب دے رہی ہے اور نسلی مسلمان وزیر ہوتے ہوئے بھی ا سلام کے دشمن کو اور مسلمان کی شہادت کو عام قسم کا جرم ماننے پر اَڑے ہوئے ہیں۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہونے اور قرآن و سنت پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ ایک شخص اسلام قبول کرتا ہے یا نہیں، یہاں تک تو اس کو آزادی حاصل ہے، لیکن اسلام کو قبول کرنا ایک ذمہ داری ہے۔ ہر ذمہ داری کے کچھ بنیادی تقاضے ہوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کی یہ آزادی کچھ میدانوں میں محدود ہوجاتی ہے، اس لیے کہ اسلام نام ہی اس عہد کا ہے کہ انسان اللہ کو اپنا رب، خاتم الانبیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول، ہادی، آقا اور رہبر اور اسلام کو اپنا دین اور طریق زندگی تسلیم کرلے اور اس پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ ’جزوی مسلمان‘ یا ’نیم مسلمان‘ کا کوئی تصور دائرۂ اسلام میں نہیں اور عقل بھی اسے گوارا نہیں کرتی۔ قرآن کریم نے صاف صاف فرمایا ہے:
    یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ص وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط (البقرہ ۲:۲۰۸) اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاؤ پورے کے پورے، اور شیطان کے طریقے پر عمل پیرا نہ ہو –

    یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھناہے
    لوگ آسان سمجھتےہیں،مسلماں ہونا

تبصرے بند ہیں۔