افسوس! بھارت میں انسان بے قیمت

ابراہیم جمال بٹ

 وادی کشمیر جہاں آئے روز انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کر کے ان کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، بھارت جیسے کثیر التعداد مذاہب سے وابستہ لوگوں پر مشتمل ملک نے کتے اور گائے کی قدر کرنا تو اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن انسانی جان کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ بھی شائد ان کو آج تک نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ آئے روز انسانوں کی قتل وغارت گری تو برداشت کی جارہی ہے لیکن کتوں اور گائیوں کو مارنے کی سوچنا بھی برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ طریقہ نہ صرف بھارتی سرکار کی موجودہ پالیسی کا حصہ ہے بلکہ اس سے قبل کی سرکاریں جن میں خاص کر کانگریس سرکار تھی کا بھی اس معاملے میں یہی سوچ تھی۔ وہ بھی برابر جانوروں کے حقوق ادا کرنے میں پہل تو کرتے رہتے تھے لیکن انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں رکھتے تھے، البتہ وہ اعلاناً ایسا نہیں کرتے تھے لیکن آر ایس ایس سے منسلک پارٹیوں میں بی جے پی کا ایک خاص مقام حاصل ہے اس نے علی الاعلان اس بات کو دہرایا کہ مذکورہ جانوروں کو کسی بھی غرض کے لیے ذبح کرنا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جس کی تازہ مثالیں آج بھارت بھر میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

گائے کے پرستار گائے کھانے والوں پر قہر برپا کئے جا رہے ہیں ۔ رپورٹوں کے مطابق کئی لوگوں کی جانیں اسی لیے لی گئی کہ وہ اسی کاروبار کے ساتھ منسلک تھے۔ گائو پرستی نے گائے کو اس قدر مقدس بنادیا  ہے کہ اس کا ہر عضو قابل پرستش تصور کیا جاتا ہے،حتیٰ کہ اس کا پیشاب ’’پوِتر‘‘ سمجھ کر فخراً پی لیا جاتا ہے ۔ بھارت بھر میں ایک طرف گائو پوجا کرنے والے گائو ماتا کو بری نظر سے دیکھنا برداشت نہیں کرتے اسی طرح اپنے ایک پاس شدہ قانون کے مطابق تکلیف دہ جانور کتا بھی ان کے ہاں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انسانی جانوں کے زیاں کی ایک وجہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہے، اور اس تعداد میں جو آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، بجائے اس کے کہ اس کا تدارک کیا جاتا اس پر کوئی بات تک نہیں کی جاتی بلکہ قانوناً کتا ایک ایسا جانور بنایا جا چکا ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری قانون کے نام پر حکومت کوسونپی گئی ہے، انسانی جان جائے تو جائے لیکن ایک کتے کے حقوق چھین لینے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔

یہی وجہ ہے کہ پورے بھارت میں عموماً اور جموں وکشمیر میں خصوصاً ایسے ہی قوانین اور ’’مذہبی سوچ‘‘کی وجہ سے انسانیت کا خون بہایا جارہا ہے۔ وادی کشمیر میں اس صورت حال کا سامنا ہے، یہاں اگر کوئی اپنا حق وصول کرنے کے لیے اپنی آواز بلند کرے تو اسے کچل کر یا تو ابدی نیند سلا دیاجاتا ہے یا اس قدر ناکارہ بنا دیا جاتا ہے کہ وہ عمر بھر اپاہج بن کر گھر کے جیل کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے۔ وادی کشمیر میں بڑھتے ہوئے کتوں کی تعداد جو انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں ان کے حقوق کی پامالی کے بارے میں تو سوچا جا رہا ہے لیکن انسانی حقوق کی جو دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اس پر ایک آنسو کا قطرہ بھی نہیں بہایا جاتابلکہ اُلٹا ایسے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بھارت کی موجودہ سرکار کی نظر میں اہمیت کس کو ہے اور کس کو نہیں ۔ جانوروں کی قدر کرنے والے بے گناہ اور حق کے طلب گار انسانوں کا خون بہا رہے ہیں۔

ہر دو روز کے بعد کسی نہ کسی نام پر انسانی جان کے ساتھ کھیل کر اس کا خون بہایا جارہا ہے۔ جن میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جسے قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے یعنی نوجوان طبقہ۔ نوجوان طبقہ کو جیل کی کال کوٹھریوں میں پابند سلاسل تو کر دیاجاتا ہے لیکن ان کے حقوق ادا نہیں کئے جاتے، جانوروں کی پرواہ کرنے والے شاید یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہی ہیں جو دوسرے انسانوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ جموں وکشمیر کی موجودہ مخلوط اور کٹھ پتلی سرکار بھارت کے مرکزی حکم ناموں کی من وعن اس طرح عمل داری کرتی ہے کہ گویا اس کی آنکھوں پر پٹی لگی ہوئی ہو۔ صحیح اور غلط کی تمیز کئے بغیر صرف یہ دیکھا جارہا ہے کہ ’’کرسی‘‘ کس طرح سے محفوظ رہے۔ گویا اس کٹھ پتلی حکومت کے سامنے قدر اپنی کرسی کی حفاظت کی ہے انسانی جانیں چلی جائیں تو جائیں ، کسی نے کہا تھا کہ ’’جان جائے پر وچن نہ جائے‘‘ برابر اسی صورت حال کا سامنا جموں وکشمیر کے لوگوں کو ہے۔

اپنے بنیادی حق ’’آزادی‘‘ کی بات کرنے والے انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ یہاں کی نوجوان نسل کو ناکارہ بنا کر ان کے اندر ایسی سوچ پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ وہ ہمیشہ ناکارہ ہی رہنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں اور ان کا ناکارہ ہی رہنا ضروری ہے۔ جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ ایسا برتائو کیا جارہا ہے کہ صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں کے جانور، یہاں کی دھرتی اور یہاں کے پیڑ پودوں کے متعلق بڑی بڑی باتیں اور باشن دئے جاتے ہیں لیکن یہاں رہنے والی انسانیت کو دہشت گرد اور اسی طرح کے کئی اور ناموں سے ملقب کر کے ان کی جانوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ طالب علم جب شرارت کرے تو عام معمول ہے کہ اسے سمجھا بجھا کر اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کرے لیکن یہاں کی نوجوان نسل جن میں طلبہ وطالبات بھی شامل ہے جب اپنا بنیادی حق حاصل کرنے کی’’ غلطی‘‘ کرتا ہے تو انہیں سمجھانے کی تو دور کی بات ان پر بے تحاشہ ٹوٹ پڑا جا رہا ہے اور اس طرح انہیں کچلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ آئندہ وہ اپنے بنیادی حق کی بات تو دور اس کی سوچے بھی نہیں ، لیکن ’’ایں خیال است وومحال است‘‘کے مصداق طلبہ برادری میں مزید اپنی جدوجہد کے تئیں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔

یہاں کی بیٹیاں جنہیں نہ صرف اپنے حقوق نسواں ادا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کی عزت وعصمت اور ان کے محافظ بھائیوں اور ان کے بیٹوں کی حفاظت بھی ضروری ہے، جب وہ اپنے ان حقوق کی بات کرتی ہیں تو ان پر بھی قہر برپا کیا جارہا ہے، انہیں بھی ایک نام اور دوسرے نام سے دہشت گرد اور امن کو بدامنی میں تبدیلی کرنے کی وجہ بتا کر ان کے ساتھ بھی برابر مردوں جیسا سلوک اختیار کر دیا جاتا ہے، ان پر گولیاں برسائی جا تی ہیں ، ان کی آنکھوں پر پیلٹ کے چھروں کا استعمال کر کے ان سے آنکھوں کی بصارت چھینی جا رہی ہے، اس پر ہی بس نہیں بلکہ انہیں بھی اپنے لیے خطرہ سمجھ کر جیلوں کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کے بزرگوں پر  بھی پیپر اور دوسرے مہلک قسم کے ہتھیار استعمال کر کے ابدی نیند سلایا جارہا ہے۔

مختلف علاقوں میں پرامن احتجاجوں کے دوران جو شیلنگ وغیرہ کی جا رہی ہے اس سے بزرگوں کی حالت کس قدر خراب ہو جاتی ہے اس کا اندازہ کشمیر میں رہنے والا بچہ بچہ کر سکتا ہے۔ وادی ٔکشمیر کے لوگوں کاجینا دوبھر ہو چکا ہے، ان کا جانوروں کے مقابلے میں کم تر مقام گردانا جا رہا ہے، انسانوں کی موت اور علاقوں میں پلنے والے کتوں کی زندگیوں کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ جب یہ حالت حکمران طبقے کی ہو توکیا امن نصیب ہونے کا کوئی اور راستہ ممکن ہے۔ کیا ان کی سوچ کو انسانی سوچ کہا جاسکتا ہے؟ کیا انہیں انسانی خیرخواہ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ کیا عالمی تناظر میں اس قوم کو ترقی پزیر ممالک کی فہرست میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کا یہ کہنا درست مانا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بڑی جمہوریت کے علمبردار ممالک میں سے ایک ہے؟ کیا اسی کو سیکولرازم کا پرستار کہا جا سکتا ہے۔

جہاں انسانوں کا خون سستا ہو وہاں کے حکمران انسان ہی کب ہوئے۔ جہاں گائے کی پوجا ہو رہی ہو لیکن انسانوں کی تذلیل کی جا رہی ہو، وہاں کے اس نام نہاد انسانی طبقہ سے کسی خیر کی اُمید کا کیا معنی؟ جہاں کہ فوج کو خصوصی اختیارات دے کر کھلی چھوٹ دی جائے کہ جو چاہو کرو جس طرح چاہو مارو وہاں انسانی جانوں کی حفاظت کا کیا معنی؟ جہاں فوجی اپنی ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی انسان کو فرضی انکائونٹر کراکے میڈل حاصل کر کے ترقی کی منزلوں کو حاصل کرتا ہو وہاں کی فوج کو سرکھشابل کہنا کس قدر صحیح ہے؟ جہاں بچوں کو کچلنا فرض تصور کیا جاتا ہو، جہاں پرامن احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائی جا رہی ہوں ، وہاں انسانی حقوق کی پاسداری کا کیا مطلب…؟

اس لحاظ سے وادی کشمیر میں بسنے والوں کو اپنے حقوق کے تئیں اپنی ذمہ داری سمجھنے کے بعد ہمیشہ خبردار رہنا چاہیے، انہیں صحیح طور سے معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا مقام بھارت کی مرکزی سرکار کے سامنے کیا ہے۔ انہیں اس بات کا ہمیشہ خیال رہنا چاہیے کہ وہ تب تک قابل قبول نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ اپنے حق سے دست بردار نہ ہوں ، انہیں اگر بناوٹی ترقی چاہیے تو اپنا حق بھول کر بھارت کی مرکزی سرکار کی ہاں میں ہاں ملانا ہوگا، انہیں اگر نوکری چاہیے تو قابض طبقہ کا نوکر بن کر رہنا ہے۔ بہرحال یہ واضح اور مسلمہ حقیقت ہے کہ قوموں کی پہچان اور ان کے مہذب و غیر مہذب ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ انسانیت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں ۔ اگر انسان کا خیال رکھ کر انسانیت کی فلاح وبقا کا خیال رکھا جاتا ہو تو اس سے بڑھ کر مہذب ہونے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے لیکن اگر ہر چیز کو قبول کیا جاتا ہو مگر انسان کو گوارا نہ کیا جاتا ہو تو مہذیب کو غیر مہذب کہلانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

ترقیوں کی منزلوں کو چھونے کا خواب دیکھنے والا بھارت ضرور ترقی کی منزل کو پا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانیت کی بقا اور انسانی حقوق کا پاسدار بن کر انسانوں کو انسان سمجھے اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا رویہ اختیار کرے کہ جس کی جو طلب ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کرے۔ جس کا جو حق ہے اسے اپنے حق سے بے دخل نہ کرے، جس کا جو مقام ہے اسے اپنے مقام پر فائز رہنے دے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ بھارت برصغیر میں ایک طاقتور اور مضبوط ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے لیکن اگر موجودہ طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائی گئی تو دور سے دکھنے والے اسی ترقی پذیر ملک کو زوال سے دوچار ہونے میں دیر نہیں لگتی، بلکہ ایسے طریقے اختیار کرنے والے ممالک کو پوری دنیا کے لیے نشان عبرت بناکر رکھا جاتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اگر اس دنیا کی بات کی جائے تو انسان واحد ہستی ہے جو ذی شعور اور تہذیب و تمدن کی خالق واقع ہُوئی ہے. انسان نے ارتقائی منازل طے کر کے باقی جانداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اپنے ہوش و حَواس سے اپنے وجود اور کائنات کی کھوج میں نئے عُلوم اور نظریات کو جَنم دیا ہے. یہ عُلوم اور نظریات انسان کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جوابات کا عکس ہیں جو انسان کے وجود، اس کا دنیا و کائنات سے تعلق وغیرہ پر مَبنی ہیں. جتنے عُلوم، نظریات بشمول مذاہب ہیں وہ اپنی فطرت میں سماجی ہیں کیونکہ وہ انسانی وجود سے متعلق ہیں اور انسانی ذہن کی پیداوار ہیں. جیسے جیسے انسان نے ارتقائی منازل طے کیں وقت کے ساتھ وہ عُلوم اور نظریات بھی تغیر و تبدل کا شکار ہوتے گئے کیونکہ نظریات بنیادی طور پر دنیا و کائنات کو سمجھنے کے لئے ایک پیمانے کا کام دیتے ہیں اور جب تجربات و مشاہدات سے عُلوم میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ نظریات بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں. اگر نئے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے، نئے سوالات کے خاطر خواہ جوابات نہیں مہیا کرسکتے یا موجودہ مسائل کا تسلّی بخش حَل نہیں پیش کر سکتے تو وہ نظریات، اگر ان میں لَچک ہے، تو اپنے آپ کو بدلتے ہیں ورنہ پھر نیست و نابود ہو جاتے ہیں. نہ جانے کتنے نظریات اب تک آئے اور مِٹ گئے. اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر عِلم، ہر نظریے اور ہر فلسفے کا مطمحِ نظر اور فِکر کا مَحور انسان ہی ہے. جو فِکر اور نظریہ انسان کے موجودہ حالات میں مسائل کا حَل نہ دے سکا کوئی، رہنمائی نہ دے سکا وہ مِٹ گیا مگر انسان حالات کا مقابلہ کرتے آگے بڑھتا گیا اور نئے نظریات جَنم لیتے گئے. مگر ظُلم و استبداد تب شروع ہُوا جب ایک پیراڈائم شِفٹ ہوئی جس میں ترتیب ہی اُلٹ دی گئی. کچھ طاقتور گروہوں نے انسان کو نظریے کے تابع کردیا اور خود اس نظریے کے ٹھیکیدار بَن بیٹھے. اس ترتیب نے انسان کی حیثیت کو بُری طرح متاثر کیا اب انسان اپنے ہی بنائے گئے نظریات کا مطیع و فرمانبردار ٹھہرا جس سے اس کا استحصال کیا گیا. وہ مقدّس حیثیت جو کبھی انسان کی تھی اب وہ اسی کے بنائے ہوئے نظریات کی ہوگئی اور جب نظریات مقدّس بَن جائیں تو انسان کی ان پر قربانی جائز ٹھہرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ رَشیا میں کمیونزم کے نام پر لاکھوں انسانوں کا قتل کیا گیا اور آج بھی مذہب کے نام پر انسانی جانوں کا ذِیاں ہورہا ہے. جب تک اس ترتیب کو پھر صحیح نہیں کیا جائیگا، جب تک انسان کو اس کی کھوئی ہوئی حیثیت اور عَظمت دوبارہ واپس نہیں مِلے گی تب تک انسان اپنے ہی بنائے ہوئے بُتوں کو سَجدہ کرتا رہے گا اور فرسودہ نظریات پر اپنی جان قُربان کرتا رہے گا. یہ باوَر کرانا ہوگا کہ انسان نظریات کے لئے نہیں بَنا بلکہ نظریات انسان کے لئے بَنے ہیں اس لئے بَدلنا یا مِٹنا نظریات کو ہے انسان کو نہیں.

تبصرے بند ہیں۔