افطار پارٹی کے اہتمام میں غیر شرعی امور سے اجتناب ضروری

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

دین اسلام میں روزہ دار کو افطار کروانا اور غریب و نادار کو کھانا کھلانا افضل عبادات میں سے ہے چو نکہ اس میں اخوت و بھائی چارگی، ایک دوسرے کا اچھے کاموں میں تعاون، ایثار و سخاو ت اور انفاق جیسے پاکیزہ جذبات پائے جاتے ہیں جو تعلیمات اسلامی کا لب لباب ہے۔ افطار کروانے میں بے شمار اجر و ثواب ہے۔ زید بن خالد الجھنی ؓ سے مروی ہے خاتم پیغمبراں ﷺ ارشاد فرماتے ہیںجس شخص نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا تو اس شخص کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لیے ہوگا اور روزہ دار کے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی (ترمذی، ابن ماجہ) اور ایک روایت میں آیا ہے رحمت عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں جس شخص نے کسی روزہ دار کے لیے افطار کا نظم کردیا تو روزہ افطار کروانے والے کے گناہوں کی معافی اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا (کنزل العمال)۔

اس حدیث پاک پر بزرگان دین اس قدر سختی سے عمل کیا کرتے تھے کہ بغیر کسی یتیم و مسکین کی ہمنشینی کے افطار کرنے کو پسند ہی نہیں کرتے تھے اور رمضان المبارک کے برکتوں اور سعادتوں سے حتی المقدور مالامال ہونے کی سعی و کوشش کرتے۔ افطار کروانے کے فوائد و برکات اسی شخص کو حاصل ہوں گے جس کے پیش نظر صرف اور صرف خالق کونین اور تاجدار کائناتﷺ کی رضا و خوشنودی ہو۔ اگر ہم کسی مخصوص شخصیت کی خوشنودی اور خاص مقاصد کے حصول کے لیے افطار پارٹی کا اہتمام کریں تو سخاوت و فیاضی کا ہمارا یہ عمل کسی اجر و ثواب کے لائق نہیں رہ جاتا۔ لہٰذا ہمیں افطار پارٹی کا اہتمام کرتے ہوئے للہیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ بعض لوگ افطار پارٹی کا اہتمام سڑکوں پر کرتے ہیں جس کی وجہ سے آمد و رفت میں خلل واقع ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسلم بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم حضرات کو تکلیف دہ حالات سے گزرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ ان کے نظر میں اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ متاثر ہوجائے۔ ہمارا یہ عمل فرمان مصطفیﷺ کے بھی خلاف ہے آپﷺ نے فرمایا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کا ایک درجہ ہے۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے اور صدقہ رب کے غضب کو ٹھنڈا کرنے، بری موت سے بچانے اور بلائیات کو ٹالنے کا ذریعہ ہے۔ صحیحین کی ایک روایت کے مطابق راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا حصول جنت کا بھی ذریعہ ہے۔ لہٰذا ہمیں افطار پارٹی کا اہتمام کرتے ہوئے اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ لوگوں کی آمد و رفت میں کسی طرح بھی خلل واقع نہ ہو اور نہ کسی کو تکلیف پہنچے۔

جذبات سے مغلوب بعض نوجوانوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ دیگر اقوام اپنے تیہواروں کے وقت راستہ مسدود کرتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ ہم اپنی تقاریب کے انعقاد کے وقت راستہ مدود کردیں، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ان نوجوانوں سے بس اتنا کہنا ہے کہ ہم اوروں کی نقالی کرنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے بلکہ ہماری زندگی کا مقصد اسوۃ حسنہ کی پیروی کرنا ہے۔ لوگ کیا کرتے ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے ہمارے پیش نظر صرف اور صرف اسلامی تعلیمات ہونی چاہیے۔ افطار پارٹی کے منتظمین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ افطار پارٹی کے بعد جگہ کو صاف کریں۔ بعض افطار پارٹیوں میں سجاوٹ پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا جارہا ہے جو بسا اوقات اسراف کی تعریف میں آجاتا ہے۔ قرآن حکیم نہ صرف فضول خرچی کی مذمت فرمائی ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ شیطان اپنے رب کا نافرمان ہے گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تسریف رب کی نافرمانی کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہمیں افطار پارٹی کے اہتمام میں اسراف سے بچنا چاہیے۔

یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ بعض نوجوان افطار پارٹی کے اہتمام میں اس قدر منہمک اور مصروف ہوجاتے ہیں کہ ان کی نماز عصر چھوٹ جاتی ہے۔ افطار پارٹی کا اہتمام کرنا فرض یا واجب نہیں لہٰذا افطار پارٹی کی وجہ سے نماز عصر جو فرض ہے کسی طرح بھی چھوڑی نہیں جاسکتی ہمیں اس کا بھی بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔ اکثر افطار پارٹیوں میں غرباء و مساکین کو تقریباً نظر انداز کردیا جارہا ہے۔ اگرچہ مالدار اشخاص کو افطار کروانے پر بھی وہی اجر و ثواب ملتا ہے جو محولہ بالا حدیث شریف میں مذکور ہوا ہے لیکن افطار پارٹی کے مندوبین میں خوددار غربا و مساکین کی شمولیت اور انہیں مہان بنانا یقینا ایک عظیم نیکی اور ازدیاد حسنات کا باعث ہے۔ افطار پارٹی میں شرکت کرنے والے شرکاء کی بھی مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ افطار کرنے کے بعد افطار کی میزبانی کرنے والوں کے حق میں دعا کریں کہ تمہارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں اور تمہارے لیے دعائیں کریں۔ (سنن ابی دائود) لیکن اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ کھائے ہوئے رزق میں نقص نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا ذائقہ اچھا نہیں تھا یا یہ کہتے ہیں کہ معیاری دعوت نہیں تھی وغیرہ وغیرہ۔ اس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے چونکہ یہ مومنانہ کردار کے بالکل مغائر ہے۔اللہ تعالی بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں ان تمام غیر شرعی امور اور برائیوں سے اجتناب کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمن ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔