الوداعی اجلاس: وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

ڈاکٹر سلیم خان

سولہویں ایوانِ پارلیمان کا اختتامی اجلاس اس معنیٰ میں یادگار تھا کہ وزیراعظم نے اس کے لیے کافی وقت نکالا  اور ایک کے بجائے دو عدد خطابات کیے۔ مودی جی کو  غالباًاحساس ہوگیا ہے کہ  جو عمر دراز  کے جوپانچ سال مانگ کے لائے تھے  ان میں دو  توغیر ملکی سفر میں کٹ گئے اور دو صوبائی انتخابات کی نذر ہوگئے۔ آخری سال ایسی تباہی وبربادی کا تھا  کہ پتہ ہی نہیں چلا کب آیا اور کہاں چلا گیا؟  ۲۰۱۸ ؁ میں  یکے بعد دیگرے ضمنی انتخابات کے بعد شمالی ہند کے تین بڑے صوبے بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ان ریاستوں میں کوئی علاقائی جماعت کامیاب ہوگئی ہوتی تو بی جے پی کے لیے بڑی مشکل نہیں تھی اس لیے کہ اول تو علاقائی جماعتیں قومی جماعت کا متبادل نہیں بن سکتیں۔ حکومت سازی کے لیے  انہیں  آپس میں اتحاد کرنا پڑتا ہے نیز انہیں  ڈرا دھمکا کر ساتھ کرلینا بھی سہل تر ہوتا ہے لیکن کانگریس کا کیا کیا جائے کہ یہ چاہ کر بھی  بی جے پی کے ساتھ نہیں  جاسکتی اور نہ بی جے پی ایسا کرسکتی ہے۔

عام طور پر پارلیمان کے  سرمائی سیشن میں بجٹ نہیں پیش کیا جاتا لیکن چونکہ اس سال  بجٹ کا اجلاس انتخابات کی بھینٹ چڑھ جائے گا اس لیے عبوری بجٹ پیش کرنے کی مجبوری آن پڑی۔ پہلے تو وزیرخزانہ  ارون جیٹلی اس کی تیاری کررہے ہیں لیکن وہ بروقت امریکہ سے لوٹ نہیں سکے اس لیے پیوش گوئل نے یہ کام  سرانجام دیا۔ گوئل کو مختصر عبوری بجٹ پیش کرنا تھا لیکن انہوں نے مکمل بجٹ پیش کرکے  اپنے اختیار عمل سے تجاوز کیا۔ موجودہ حکومت کے لیے یہ معمولی بات ہے کیونکہ اس کے  نزدیک بجٹ کی  ہی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ ایوان  میں پیش ہونے والی کیگ رپورٹ  اس بات ثبوت ہےنکشافات کافی ہیں۔ اس جائزے میں انکشاف کیا گیا  ہے کہ   وزارت خزانہ نے ۲۰۱۷ ؁ تا ۲۰۱۸ ؁ کے مالی سال میں مختلف مدعات  کے اندر مختص بجٹ سے ۱۱۵۷  کروڑ روپے زیادہ خرچ کردیئے۔ افسوس کہ  ان مصارف کے لیے پارلیمنٹ سے  پیشگی اجازت  لینے کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔

کیگ کی رپورٹ میں  اعتراف کیا گیا ہے کہ ضابطے کے مطابق گرانٹ ہیلپ، سبسیڈی اور اہم امور کی  نئی خدمات کے اہتمام میں اضافہ کی پیشگی  پارلیمانی توثیق لازمی ہے۔ یہ سنگین کوتاہی اس لیے سرزد ہوئی کہ متعلقہ وزارتوں، محکموں کے لیے گزشتہ بجٹ میں معقول رقم نہیں رکھی گئی۔ بجٹ میں  اندازے لگانے میں جو غلطی ہوئی تھی اس کی اصلاح کے لیے  اقتصادی اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ بھی نہیں کیا گیا اور من مانے طریقہ اخراجات کیے گئے۔  اس  رپورٹ میں وزارت خزانہ  کو تنبیہ کی گئی ہے کہ  وہ تمام  وزارتوں اورمحکموں  میں اقتصادی نظم و ضبط نافذ کرنے کا  مؤثر نظام وضع  کر کے  اس طرح کی سنگین خامیوں کو اعادہ نہ ہونے دے۔ویسے  جو لوگ پانچ سالوں میں ایک ماہر اقتصادیات کو تلاش کر کے وزیر خزانہ نہیں بناسکے۔ ان سے کیا توقع کی جائے؟ ریزرو بنک جیسے اہم ادارے نے اس دوران  دو قابل گورنرس کو گنوا دیا اور بالآخر ان لوگوں نے  ایک تاریخ داں کو  گورنر بنا دیا۔ جہاں افراد کا شدید قحط ہو  اور  ماہرین کی آراء  کا احترام نہ کیا جائے  وہاں  اس طرح کی بدنظمی نہ ہوگی تو کیا  ہوگا؟

مودی حکومت  کی بے اعتدالی  اخراجات تک محدود نہیں تھیں بلکہ ٹیکس وصولی کے  معاملے میں بھی اس نے عوام کوخوب لوٹا   ہے۔ اس کی ایک مثال سوچھتا سیس ہے۔ ۲ اکتوبر ۲۰۱۴ ؁ سے اس حکومت نے صفائی مہم کا ناٹک شروع کیا اور اس سے پہلے کہ عوام کو اس کا کوئی فائدہ ہوتا سال ۲۰۱۵ ؁ میں  سوچھ بھارت سیس نافذ کردیا۔  اس کے تحت تمام خدمات پر جن کا صاف صفائی سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۵ء۰  فیصد ٹیکس وصول ہونے لگا۔ دو سال بعد وزارت خزانہ نے ۷ جون ۲۰۱۷ ؁  کو ایک اعلامیہ میں  بتایا کہ جی ایس ٹی کو نافذ کرنے کے لئے ایک جولائی۲۰۱۷ ؁  سے سوچھ بھارت سیس سمیت کئی سارے ٹیکس ختم کئے جا رہے ہیں۔ وزارت خزانہ میں ریاستی وزیر شیو پرتاپ شکلا نے ۶ مارچ ۲۰۱۸ ؁  کو ایوان بالا میں تصدیق کی  کہ ایک جولائی۲۰۱۷ ؁  سے سوچھ بھارت   سیس  اور زرعی فلاح و بہبود سیس ختم کر دیا گیا ہےلیکن یہ باتیں  صرف جملہ ثابت ہوئیں ۔ آر ٹی آئی سے ملی معلومات  کے مطابق اس ٹیکس کی  منسوخی  کے بعد بھی عوام سے تقریباً ۲۱۰۰ کروڑ روپے وصول کیا گیا۔  یہ کھلے عام لوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟

بجٹ جیسی سنجیدہ  مشق کو مودی جی کے حواریوں نے کھیل تماشہ بنادیا۔ پیوش گوئل کی پیشکش کے دوران تالیوں اور  ’واہ واہ ‘ کی گونج اس طرح سنائی دے رہی تھی جیسے کوئی سڑک چھاپ مشاعرہ چل رہا ہے۔ مودی جی کی تقریر سے قبل اور دوران  ’زندہ باد ‘ کے نعرے اس طرح لگائے گئے جیسے یہاں  کوئی انتخابی جلسہ چل رہا  ہے۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی   کے  پہلے خطاب میں ہی الوداعیہ کا رنگ جھلک رہا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ  اپنی  آخری تقریر  کررہے ہیں اور انہوں نے ابھی سے اپنے آپ کو  خود  ساختہ ’وردھاشرم‘  یعنی مارگ درشک منڈل  کا فرد سمجھ لیا ہے۔ یہ بات ان کی مداح صحافیہ تولین سنگھ نے بھی محسوس کرلی۔ وہ  پچھلے پانچ سالوں سے مودی جی کی تعریف و توصیف پر اپنا زور قلم صرف کررہی ہیں۔ سعی ٔ لاحاصل میں پردھان سیوک کا تو کوئی خاص بھلا نہیں ہوا مگر تولین سنگھ کا غیر جانبدارانہ صحافتی قلم  جگہ جگہ سے   مجروح ہوگیا۔

تولین سنگھ نے بڑے درد کے ساتھ مودی جی کو یاددلایا کہ پچھلے  ۳۰ سال کے بعد پہلی بار  ان کی پارٹی    کوواضح اکثریت حاصل ہوئی اور انہیں بغیر کسی خارجی دباو کے حکومت  سازی  کا موقع  نصیب ہوا۔ آج کل ہر جائزے میں یہ بات ابھر کر  سامنےآرہی ہے کہ  اگلی سرکار  چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی  ہو مخلوط حکومت ہوگی۔ مہاگٹھ بندھن   کے لیے مودی جی  کی   تجویز کردہ  مہاملاوٹ  کی اصطلاح آئندہ حکومت پر چسپاں ہوجائے گی۔ اب سوال یہ ہے اس بی جے پی حکومت نے اس واضح اکثریت کے باوجود  ہندوستانی عوام کو کھوکھلے وعدوں اور خوشنما نعروں کے سوا کیا دیا؟ مودی جی نے چمتکار دکھانے کی خاطر   کانگریس کے ساٹھ سالوں کے مقابلہ ۶۰ مہینے مانگے تھے لیکن ۴۵ ماہ کے اندر انہوں نے بیروزگاری میں ۴۵ سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اب اگر مزید پانچ سال  یعنی جملہ ۱۲۰ ماہ کی مہلت انہیں مل جائے تو ملک کی حالت انگریزوں کی غلامی سے بھی  بدتر کردیں گے۔

  لکھنو جیسے بی جے پی کے گڑھ میں لاکھوں   نوجوانوں  کا مودی اور یوگی کو چھوڑ کر راہل اور پرینکا کا دامن تھام لینا اس بات کا کھلا  ثبوت  ہے کہ وہ مودی  کے سحر سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ملک میں پھیلی ہوئی   بیروزگاری کے لیے نوٹ بندی  کی کوکھ سے جنم لینے والا معاشی انتشار ذمہ دار ہے۔ اس بات کا احساس وزیراعظم کو بھی  ہوگیا ہے اس لیے وہ اب اپنے کارناموں میں نوٹ بندی ذکر تک نہیں کرتے۔ سچ تو یہ ہے کہ  بیروزگاری کا سنگین مسئلہ  ہی  مودی جی کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ جن   رائے دہندگان نے  پچھلی بار ’اچھے دن‘  کے جھانسے میں آ کر بی جے پی کو  پہلی بارووٹ دیا تھا  اگر وہ مایوس ہوکر کانگریس کے خیمہ میں داخل ہوجائیں  تو کمل  کا مرجھاجانا اور اس پر پنجہ کس  جانا لازم ہوجائے گا  ۔

مودی جی حمایت کرنے والے  سرمایہ دارانہ ذہنیت کے دانشوروں کو توقع تھی  کہ  وہ کانگریس کی دیہی فلاحی اسکیموں کو بند کرکے اس دولت سے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے تاکہ عوام خود کفیل ہوسکیں  اور اس میں سے ان کا بھی بھلا ہوسکے۔ اس حکومت نے  انتخابی ناکامی کے خوف سے اسے جاری رکھا نیز درمیان سے بچولیوں کو نکالنے کی خاطر اس رقم کوبنک کے ذریعہ مستحقین تک  براہ راست پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کرتے ہوئے مودی جی  بھول گئے کہ   آج بھی دیہی علاقوں میں عوام کو بنک تک پہنچنے کے لیے کئی میل کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح   نئی سرکار نےعوام  کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ ایسے میں اگر وہ ان مصائب  سے نجات حاصل کرنے کے لیے کمل سے پیچھا چھڑا لیں تو کون  قصور وار ہے؟   مودی جی اپنی مہلت عمل میں  جس چیز کے لیے یاد کیے جائیں گے وہ نہ ’میک ان انڈیا ‘ ہے اور نہ ’سٹارٹ اپ انڈیا‘ بلکہ ’  سوچھّ بھارت ابھیان‘  یعنی صاف صفائی کی مہم۔ یہ کام بڑی تندہی سے کیا گیا اور اس کے تحت ملک میں لاکھوں بیت الخلاء بنائے گئے۔ یہی اس  سرکارکا واحدقابلِ ذکر کارنامہ ہے۔

یہ حسن  اتفاق ہے  اس صفائی مہم  کا بی جے پی کے منشور یا مودی جی کی انتخابی تقاریر میں کہیں ذکر نہیں تھا۔ یعنی جس کا م کا وعدہ کیا  گیاتھا وہ تو نہیں  کیا لیکن  کچھ اور کردیا۔ ہندوستان کو پاک صاف کرتے وقت اگر حکومت ظاہری صفائی وستھرائی کے ساتھ باطن کی جانب بھی توجہ دیتی اور عوام کے قلب و ذہن کو نفرت و فرقہ واریت سے پراگندہ کرنے سے گریز کرتی تو اچھا ہوتا لیکن ایسا کرنا بی جے پی یا سنگھ کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ لوگ عام حالات میں  اوپر اوپر سے چکنی چپڑی  باتیں تو کرسکتے ہیں لیکن جب انتخابی دباو آتا ہے تو اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اندر بھرا ہوا زہر اگلنے لگتے ہیں۔  حقیقت کا مظاہرہ یوگی جی کے ذریعہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ اس بیچ  اچانک سنگھ پریوار کے اندر  رام للاّ کی محبت عود کرآئی اور پھر ایک بار نفرت انگیزی شروع ہوگئی لیکن جب  اس فائدے   کے بجائے  خسارہ نظر آیا تو  رام مندر کو ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ یہ طرز عمل  ابن الوقتی اور تلون مزاجی کا غماز ہے۔

بجٹ سیشن کے افتتاحی دن کے بعد وزیر اعظم یومِ اختتام پر بھی  ایوان میں تشریف لائے اور تقریر کرنے  کا ارمان نکالا۔ اس بار مودی جی نے ماضی کا ماتم کرنے  کے بجائے مستقبل  کے خطرات سے آنکھ ملانے کی کوشش کی۔  انہوں نے ایوان کے وقار کو مجروح کرتے ہوئے راہل  گاندھی کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ ہم نے پانچ سال مکمل کرلیے مگرجو زلزلہ آنے والا تھا وہ ابھی تک نہیں آیا۔ اپنی مدت کار کی تکمیل پرخود کی پیٹھ تھپتھپانا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ زلزلہ کی دھمکی سے ڈرتو گئے تھے اور اب اس کے ٹل جانے پر عافیت محسوس کررہے ہیں۔  مودی جی  نےعزارت عظمیٰ کے مقام و مرتبہ کو پامال کرتے ہوئے فقرہ بازی کی کہ اس دوران ان کو گلے ملنے اور گلے پڑنے کا فرق سمجھ  میں آگیا۔ رافیل پر تقریر کرتے ہوئے راہل نے مودی کے چھکے چھڑا دیئے تھے۔ اس کے بعد جب وہ مودی جی سے گلے ملنے کے لیے گئے تو مودی جی  پہلےنہیں ملے۔ راہل لوٹنے لگے تو واپس  بلا کر معانقہ کیا۔ راہل کی وہ حرکت  اگر گلے پڑنا تھا تو مودی جی نے انہیں واپس بلا کر اس میں شریک  کیوں  ہوئے؟ اپنے  پرانےموقف پر قائم رہتے لیکن نہ تو انہیں اس وقت سمجھ میں آیا کہ کیا کیا جائے اور نہ اب سمجھ میں آرہا ہے کہ کیا کہا جائے؟

راہل کا مذاق اڑانے کے بعد مودی جی نے ازخود اپنے آپ کو ۸۵ فیصد نمبر دے دیئے۔ وزیر اعظم اپنے آخری  پارلیمانی خطاب کے دوران  بھول گئے کہ وہ  رام لیلا میدان میں نہیں بلکہ ایوان میں  کھڑے ہیں ۔ انہوں نے آپ کے ۵۵ سال اور میرے ۵۵ مہینے کہہ کر اس طرح گفتگو شروع کی کہ گویا ان پانچ سالوں میں این ڈی اے کے کسی رہنما نے کچھ کیا ہی نہیں۔ جوکچھ بھی ہوا وہ انہیں کا کیا دھرا ہے۔مودی جی نے کہا ۲۰۱۴ ؁ کے پہلے ۵ سال(۵۵نہیں )  میں آپ کی سرکار نے ۲۵لاکھ گھر بنائے اور ہم نے ایک کروڈ ۳۰لاکھ گھر بناکر چابی دے دی۔ سچ یہ ہے کہ   وزارتی اعدادو شمار کے مطابق مذکورہ وقفہ  میں یوپی اے نے تقریباً ۹۰ لاکھ گھر بنائے تھے۔ مودی جی نے ۶۵ لاکھ گھروں کو غائب کردیا۔  انہوں  نے کہا کانگریس  ۲۰۰۴ ؁ کے بعد بار بار وعدہ کرکے تمام  لوگوں تک بجلی پہنچانے میں ناکام رہی لیکن آج گھر گھر بجلی پہنچانے کے لیے مجھے دن رات  محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ کام اگر مودی جی خود کررہے ہیں تو ان وزیر کیا بھاڑ جھونک رہے ہیں ؟ سچ تو یہ ہے ۹۷ فیصد گاوں تک  بجلی پہلے ہی پہنچ چکی تھی ۔ اس سرکارنے ڈھائی کروڈ بجلی کنکشن  لگا کر صرف ۲ تا ۳ فیصد بجلی پہنچانے کا  کام کیا ہے۔ گیس کنکشن کے بارے میں مودی جی نے کہا ۱۳ کروڈ میں سے ۶ کروڈ اجوالا کنکشن کے تحت  یعنی پہلا سلنڈر مفت میں دیا  گیا لیکن  جنہیں یہ سلنڈر بانٹے گئے ان بیچاروں کے پاس  اگلے کے لیے  پیسے ہی نہیں ہیں۔ مودی جی نے گاوں تک انٹر نیٹ کنکٹویٹی پہنچانے  کا سہرا تو اپنے سر باندھ لیا لیکن یہ نہیں کہا کہ وہ  کام ۲۰۱۲ ؁ میں شروع ہواتھا اب پورا ہوا ہے۔

وزیراعظم  نے اپنے آخری خطاب میں  کانگریس کے ۲۰۰۴ ؁ سے لے کر ۲۰۱۴ ؁ کے منشور کو بار بار یاد کیا مگر اپنے ۲۰۱۴ ؁ کے منشور کا ایک بھی حوالہ نہیں دیاتو کیا یہ سمجھ لیاجائے کہ بی جے پی کا منشور صرف جملہ بازی تھا۔   ان کو تو چاہیے تھا کہ یہ بتاتے کہ ہم نے یہ وعدے پورے کیے تھے اور ان میں سے یہ یہ پورے کردیئے اور جو نہیں پورے ہوسکے اس کی یہ وجوہات ہیں لیکن آئینے کے اندر اپنی صورت دیکھنے کی جرأت  جٹا نہیں سکے۔ وہ اگر اپنے منشور کی بات کرتے تو ناکامیوں اور نامرادیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اسی کے ساتھ ہی یہ بھی پوچھا جاتا کہ آپ  نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ نوٹ بندی کریں گے؟ پھر کیوں کیا ؟ اور اس کے بعد ۵۰ دنوں میں جوکچھ ہونے والاتھا وہ سب ۱۰۰۰ دن کے بعد بھی کیوں نہیں ہوسکا؟ دہشت گردی کے خاتمہ کا دعویٰ کیا گیا  تھا تو پارلیمانی اجلاس کے اگلے دن  پلوامہ میں اتنا بھیانک حملہ کیسے ہوگیا ؟

الوداعی اجلاس میں  مودی جی کی دوعددتقاریر سننے   کے بعد ایسا لگا کہ ان پر بھی سشما سوراج، اوما بھارتی اور ارون جیٹلی کی مانند سبکدوشی کا آسیب سوار توہو رہا   ہے   لیکن وہ عظیم تر مصالح کےپیش نظر اظہار سے گریز کررہے ہیں۔ ویسے اب ریٹائر منٹ  کےطلبگاروں  میں سونیا گاندھی، ملائم سنگھ، دیوے گوڑا  اور شردپوار  کا بھی اضافہ ہوجاناچاہیے۔ اس لیے کہ ان کے بال بچوں  نےوراثت  کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔  مودی جی بڑی چالاکی سے کانگریس مکت بھارت کے نعرے  کو مہاتما گاندھی سے جوڑتے ہوئے بولے گاندھی جی نے ’کانگریس کو بکھیر دو ‘کہا تھا جبکہ وہ  تو  صرف پارٹی کو انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرنے کی بات کی تھی ۔  جو رہنما ایوان پارلیمان میں اس قدر کذب گوئی کرسکتا ہے وہ سڑکوں پر اور عوامی جلسوں میں  کیا کرے گا ؟  بقول وسیم بریلوی؎

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے

 اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔