الیکشن 2019: چلو پتنگ اڑاتے ہیں

اسجد عقابی

2019 کے پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے، ہر امیدوار اپنی جیت کا دعوی پیش کررہا ہے، اور ایسے میں پارٹیاں پیچھے کیسے رہ سکتی ہے، پارٹیوں کی جانب سے بھی جیت کا دعوی کیا جارہا ہے، کئی جگہ سے تشدد اور معمولی جھڑپ کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں، اور بعض مقامات پر ای وی ایم میں کمل کھلانے پر شکایات بھی درج کی گئی ہیں، البتہ ان پر کسی قسم کی کارروائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مقامات سے ایسی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں، جہاں سرکاری افسران عورتوں اور گاؤں کے لوگوں کو ایک مخصوص پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے مجبور کررہے ہیں۔ تو پھر ایسے میں یہ توقع کیسے کی جائے کہ کسی قسم کی معقول شکایت پر کوئی کارروائی ہوگی۔  بقیہ ماندہ مراحل کیلئے تشہیر زوروں پر ہے، راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کرکے سیاسی لیڈران ووٹروں کے پیر دھونے میں مصروف ہیں۔ کوئی خود کو سنیاسی کہہ کر ووٹ مانگ رہا ہے، ورنہ بددعا کردیں گے۔ کوئی کھلے عام کہہ رہا ہے کہ اگر مسلمانوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا تو میں انہیں کام نہیں دوں گا۔ کہیں نوٹ کے بدلہ ووٹ کا سودا ہورہا ہے، کوئی جعلی ڈگری سے کام چلا رہا ہے، کوئی جھوٹ کے سہارے دلی فتح کرنے کے در پر ہے۔ غرضیکہ، بے ایمانی، چوری، جھوٹ، دھمکی، دغابازی، دھوکہ دہی ہر وہ کام جسے شرافت سے بعید سمجھا جاتا ہے اسے بحسن و خوبی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے۔ اور یہ سب کچھ کرنے والے ہمارے ملک کے وہ سفید پوش افراد ہیں، کل جن کے ہاتھوں میں ملک کا مقدر ہوگا۔ جو ایوان میں بیٹھ کر ملکی مسائل پر قانون سازی کا دعویٰ کریں گے۔ قسمت کسے سکندر بناتی ہے اور کون اپنی قسمت سے مات کھاتا ہے یہ تو 23 مئی کو معلوم ہوگا، اب تو سیاسی پنڈت اور میڈیا کا ایگزٹ پول بھی اپنی حیثیت کھوچکا ہے۔ فی الحال میڈیا عوامی رائے دکھانے کے بجائے پارٹیوں کیلئے میدان بنانے میں مصروف ہے۔ فی الحال ہم بات کرتے ہیں، بہار کے سیمانچل کے ضلع کشن گنج کی، جہاں سے تمام بڑے امیدوار مسلمان ہیں، چونکہ یہاں مسلم ووٹوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، اسلئے ہر پارٹی مسلم امیدوار کو ہی میدان میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ حتی کہ یہاں بی جے پی کا زعفرانی رنگ بھی سبز رنگ سے بدل جاتا ہے۔ گزشتہ دو بار اس حلقہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر مولانا اسرار الحق صاحب منتخب ہورہے تھے، لیکن آپ کے انتقال کے بعد اس سیٹ پر گہماگہمی پیدا ہوگئی۔ فی الحال، اگر زمینی سطح پر دیکھا جائے تو تمام امیدواروں میں سب سے بہتر اختر الایمان نظر آتے ہیں۔

مسلم مسائل کے تئیں اختر کی سنجیدگی مسلمانوں کو سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنے کیلئے آمادہ کرتی ہے کہ انہیں ایک بار ضرور موقع دیا جائے۔ کیونکہ کوئی بھی اگر جیت کر آئے گا تو وہ پارٹی کے متعین کردہ اصول و ضوابط سے رو گردانی نہیں کرسکتا ہے۔ اختر صاحب کی پارٹی کے متعلق یہ بات اب تک تو ظاہر ہے کہ وہ عوامی مسائل پر گلی کوچوں سے لیکر پارلیمنٹ تک کھل کر بات کرتی ہے۔ ہمارے پاس مصلحت کے تحت نہ بولنے والوں کی تعداد بہت ہے، ان میں مزید اضافہ کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تقاضوں کے پیش نظر عوامی مسائل پر گاؤں کے چائے کی دکان سے لیکر پارلیمنٹ کے ایوان تک دہاڑنے والا اور تسلی دینے والا ایک راہنما مل جائے۔ اگر اس سے درد کا مداوا نہیں ہوگا تو کم از کم نیا درد تو نہیں دے گا۔ یوں بھی درد سے اس قدر پرانا رشتہ ہوچلا ہے کہ اگر درد نہ ملے تو درد محسوس ہونے لگتا ہے۔

اسلئے اس بار ضرورت اس بات کی ہے کہ پارٹی کے بجائے، امیدوار کا انتخاب کیا جائے، اپنا انتخاب کیجئے، اپنے اعتماد کو بیدار کیجئے، تنہائی میں غور و فکر کیجئے، کشن گنج کے سیلاب متاثرین کو یاد کیجئے، خون میں لت پت اخلاق اور جنید کے بے جان جسموں کو یاد کیجئے، خون کی پیاسی بھیڑ اور ان کی گل پوشی کرتے سفید کپڑوں میں ملبوس کالے دل والوں کو یاد کیجئے۔ اور سوچئے کس نے آپ کیلئے کیا کیا ہے، کون آپ کی آواز بن کر ابھرا ہے، کس نے پارلیمنٹ میں آپ کی نمائندگی کی ہے، کس نے آپ کے بہتے آنسوؤں کو خشک کرنے کی کوشش کی ہے۔ کل آپ کو اس کی ضرورت تھی، تو وہ آپ کے ساتھ تھا، آپ کے شانہ بشانہ تھا، آپ کی آواز تھا، اور آج اسے آپ کی ضرورت ہے، آپ کی خودداری اور ضمیر کا سوال ہے، اس نے آپ کو مایوس نہیں کیا ہے، کیا آپ اسے مایوس کردیں گے۔ کیا وہ پھر تن تنہا میدان میں ہوگا، نہیں، اس بار تو نہیں، اب اسے کندھے اور سہارے کی ضرورت ہے، اور وہ سہارا آپ ہیں، اسے سہارا آپ دیں گے۔ اس کی پرواز کو بلند کیجئے، اپنے حوصلوں کو پروان چڑھائیں، اور اپنے مضبوط بازوؤں سے اس بار پتنگ اڑائیں۔ آپ نے پنجہ بھی لڑایا ہے، کمل کا پھول بھی کھلایا ہے لیکن اس بار آپ پتنگ اڑائیں تاکہ آپ کی اڑان بھی اونچی ہوجائے۔

ذہنی غلامی سے باہر نکلنے کا وقت ہے، دوسروں کو کب تک شکست دینے کے منصوبوں پر عمل پیرا رہیں گے، کب تک ایک کے خوف سے اپنوں کو دور کرتے رہیں گے۔ اب کسی کو ہرانا نہیں ہے، بلکہ خود جیتنا ہے، اس بار جیتنے کیلئے باہر نکلنا ہوگا، کسی کے خوف سے ڈر کر نہیں، بلکہ اپنے کو آگے بڑھانے کیلئے نکلنا ہے۔ ہم نے بہتوں کو راج گدی دی ہے، حکومت بخشی ہے، بدلہ میں ہمیں درد کے سوغات ملے ہیں۔ اس بار خود آئے ہیں، خود آئیں گے، جیتیں گے اور یہ پیغام بھی دیں گے کہ اب، بس، اب، اور نہیں، اب ہمیں خود آگے آنا ہے، اپنا راہبر چننا ہے، خود راہی بننا ہے۔ دوسروں کے چراغ جلانے کے بجائے اپنا دیا جلانا ہے۔ اپنی روشنی میں اپنا مستقبل دیکھنا ہے۔ اب مستعار نہیں بلکہ خریدار بننا ہے۔ ہم پہلے بھی کرسکتے تھے، لیکن ہم چوک گئے، مگر اب چونکانا ہے۔ کل ہم نے دوسروں کیلئے اسٹیج سجایا تھا، آج اپنا اسٹیج ہے۔ اپنا قائد ہے، اپنا راہبر ہے، اپنا راہنما ہے۔

ہمیں دوسروں سے بیر نہیں ہے، کسی سے شکایت نہیں ہے، کیوں کہ یہاں تو آدمی سے دھن بڑا ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ تو کرسی کے پجاری ہیں، کرسی ہی ان کا مقصد ہے، کرسی کا حصول مقصد زندگی ہے۔ ان میں احساس نہیں ہوتا ہے، یہ جذبات والے نہیں ہیں، یہ تو الفاظ والے ہیں۔ ہم تو اب احساس والے ہیں، حساس ہیں، جذبات والے ہیں، پرجوش ہیں، لیکن مدہوش نہیں۔ اسلئے اس بار ہمیں پتنگ اڑانا ہے۔ گھر سے اڑانا ہے، گلی گلی اور شہر شہر سے اڑانا ہے۔ اب ہمیں خود آگے آنا ہے، اپنا قائد چننا ہے، خود قائد بننا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔