اماں کے بعد چِننا اماں (چھوٹی اماں)

 تامل ناڈ جس کا پرانا نام مدراس تھا، ملک کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں کانگریس جسے ملک کو آزاد کرانے کا سہراہے  پانچ دس سال سے زیادہ حکمرانی نہیں کرسکی۔ ریاست میں ہندی زبان کے خلاف تحریک چلی اور کامیاب ان معنوں میں  ہوئی کہ مرکزی حکومت کو کہنا پڑا کہ مدراس یعنی تاملناڈو میں ہندی زبان کو وہاں کے لوگوں پر مسلط نہیں کیا جائے گا۔ تحریک کے سربراہ کی اننا دورائی کی پارٹی ڈی ایم کے کی حکومت قائم ہوگئی۔ فلمی دنیا کے اسکرپٹ رائٹر کرونا نیدھی اننا دورائی ے بعد وزیر اعلیٰ ہوئے۔ ڈی ایم کے کے خزانچی رام چندرن کرونانیدھی کے طرز عمل کی مخالفت پر اتر آئے۔ انھوں نے اننا ڈی ایم کے نام کی پارٹی کی تشکیل کی۔ باری باری دونوں پارٹیوں کی حکومتیں ریاست میں قائم ہوتی رہیں۔ رام چندرن کے ساتھ جے للیتا فلم میں اداکارہ رول نبھاتے نبھاتے ان کی زندگی میں بھی عمل دخل دینے لگیں۔

رامچندرن کے انتقال کے بعد پارٹی کے لوگوں نے ان کی بیوی کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپا مگر چند مہینوں کے بعد جے للیتا جنھیں حکومت اور پارٹی سے باہر رکھا گیا پارٹی کے لوگوں نے اپنا سربراہ چن لیا اور وہ پارٹی اور عوام کی اماں کہلانے لگیں۔ ان کے ساتھ ششی کلا کی قربت ہوئی اور دونوںمیں گاڑھی چھننے لگی۔ ششی کلا کو جے للیتا نے اس قدر وقعت و حیثیت دی کہ انھیں نہ صرف اپنی بہن بنا لیا بلکہ اپنے خاندان کے سارے رشتوں کو ان کے مقابلے میں پیچھے چھوڑ دیا۔ دونوں میں کچھ دنوں کیلئے ان بن ہوئی پھر جے للیتا نے چند مہینوں کے اسے اپنا لیا۔ کروڑوں کی مالیت کی رشوت و خرد برد میں کئی لوگوں پر مقدمہ دائر ہوا جس میں جے للیتا اور ششی کلا بھی شامل تھیں، دونوں کو کئی ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔

  جے للیتا کو ایک بار عدالتی کارروائی کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنا پڑا، دوسری بار جیل جانے کی وجہ سے اپنے عہد سے دستبردار ہونا پڑا۔ ان دونوں موقعوں پر پنیر سیلوم (Panneerselvam)کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپا گیا۔ تیسری بار جب وہ اسپتال میں داخل ہوئیں اور بیماری نے طول پکڑا تو پھر پنیرسیلوم کارگزار وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ جے للیتا کی موت کے بعد پنیر سیلوم نے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھایا۔ ششی کلا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پنیر سیلوم کو ریاست کی باگ ڈور دلانے میں انہی کا ہاتھ تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ان کی ذات برادری (Cast) سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں سب سے آگے ہیں۔ جے للیتا جب اسپتال میں موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھیں تو ان کی دیکھ بھال کی پوری ذمہ داری بھی از خود ششی کلا نے سنبھالی اور ان کے کسی رشتہ دار کو جے للیتا کے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ آخری رسوم میں بھی وہ چھائی رہیں۔ جب ناگہانی حالت ختم ہوئی تو ششی کلا کو پارٹی کی سکریٹری جنرل بنانے کی بات ہونے لگی اور ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی ان کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا۔ اس عہدہ کا مطلب یہ بھی تھا کہ ریاست کی باگ ڈور بھی وہی دیر یا سویر سنبھالیں گی۔ آج کی سیاست میں ایک حد تک سنگدلی کے مظاہرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ششی کلا کے معاملے میں یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنی دوست کا جیسے انتظار کر رہی تھیں کہ وہ جتنی جلدی ہو رخصت ہوں اور محترمہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوں۔ انھوں نے جس حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اس سے انھیں یہ کامیابی ملی کہ گزشتہ اتوار کو پارٹی کے تمام ایم ایل اے اور عہدیداروں نے اتفاق رائے سے قانون ساز پارٹی (Legislativ party) کالیڈر منتخب کرلیا۔

کسی نے بھی چوں چرا نہیں کی لیکن اتنی لمبی چھلانگ مارنے کی وجہ سے جو لوگ تاک میں تھے،  مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ چننااماں کو یہ کام عجلت میں اس لئے کرنا پڑا کہ وہ پنیر سیلوم سے بھی خوش نہیں تھیں۔ پنیرسیلوم کی مقبولیت بڑھ رہی تھی، اسے وہ اپنے لئے چیلنج سمجھنے لگی تھیں۔ دوسری چیز جے للیتا کی بھتیجی کی طرف سے بھی شور و غوغا کی بات زور و شور سے آنی شروع ہوئی۔ جلی کٹو میں ریاست کی حالت ابتر ہوئی تو ششی کلا کو کرسی کو قریب کرنے کا موقع ہاتھ آیا اور دوسری بات یہ ہوئی کہ جس مقدمہ میں وہ پھنسی ہوئی ہیں اس کا بھی فیصلہ سپریم کورٹ سے جلد ہونے کی بات سامنے آنے لگی۔ یہ سارے عناصر (Factors) ایک ساتھ جمع ہوگئے جس کی وجہ سے ان کی تاج پوشی کی تاریخ طے ہی نہیں ہوئی بلکہ پنیر سیلوم سے استعفیٰ بھی دلوا دیا گیا تاکہ چننا اماں کیلئے راستہ بالکل صاف ہوجائے۔ لیکن تاملناڈو کی اپوزیشن پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوام اور پارٹی کا ایک قابل ذکر عنصر نے ششی کلا کے طرز عمل پر ناراضی کا زبردست مظاہرہ کرنے لگا۔ آج یعنی 7فروری کو گورنر ان کی حلف وفاداری کی رسم ادا کرنے والے تھے وہ بھی پیچھے ہٹ گئے اور ماہرین قانون سے مشورہ لینے لگے کہ آیا سپریم کورٹ میں جو ششی کلا کے مقدمہ کا فیصلہ ہونے والا ہے،  اس سے پہلے انھیں حلف وفاداری کی رسم ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ تادم تحریر جہاں حلف برداری کی رسم ہونے والی تھی گیارہ بجنے کے باوجود سناٹا سا چھایا ہوا ہے جبکہ سارے شہر میں چننا اماں بڑی بڑی تصویر یں عوام پر رعب و دبدبہ جمانے کیلئے لگائی گئی ہیں۔

 یوں تو ہر ریاست میں تقریباً خاندانی حکومت یا اقربا پروری کی حکومت کا شائبہ نظر آتا ہے مگر تاملناڈو میں دوستی اور اقربا پروری کے ساتھ فلمستان کا بھی نظارہ ہے، جمہوریت برائے نام ہے۔ جلی کٹو کی رسم کی ادائیگی میں وہاں وہ جنون اور جوش دیکھنے میں آیا کہ کسی نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کا ذرا بھی احترام نہیں کیا۔ اس سے تاملناڈو کی سیاسی قدریں اور قانون کی بالادستی دونوں پامال ہوتی نظر آتی ہیں۔ ا س کی قریبی ریاست میں بھی این ٹی راما راؤ نے فلمی کردار کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کیا تھا مگر بہت جلد ان کی کرشماتی شخصیت چکنا چور ہوگئی اور ان کے داماد نے پارٹی اور حکومت پر قبضہ کرلیا۔

تاملناڈو کی سیاست کی حالت دگرگوں ہے۔ پارٹی پہلے ایک کردار کے سامنے سجدہ ریز تھی۔ اب دوسرے کردار کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ ایک ایسی خاتون جو پردے کے پیچھے سے حکمرانی کرتی تھی جو نہ کبھی انتخابی میدان میں آئی اور نہ ہی پردے کے باہر آئی۔ اب اس نے ساری قدریں ملیامیٹ کرکے سارے سیاستدانوں کو پیچھے کر دیا جو تین تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکا ہے وہ بھی ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہتا ہے۔ اس طرح کی غلامانہ ذہنیت کے ساتھ کوئی فرد یا جماعت یا ملک جمہوریت کی بحالی نہیں کرسکتا۔ ایسی ریاست میں ایک اماں جائیں گی،  دوسری اماں آئیں گی اور سب اپنے مفاد کیلئے ان کے فرزند بننے میں عافیت محسوس کریں گے۔ امید کی ایک کرن ضرور نظر آرہی ہے کہ کچھ بااثر اور باہمت افراد ایسی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں جو پردے کے پیچھے روا رکھا گیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔