امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

حفیظ نعمانی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی عاملہ کا دو روز اجلاس ختم ہونے کے بعد بھی صورت حال یہ ہے کہ جہاںکہیں چار باشعور یا بے شعور ہندو بھائی جمع ہیں وہاں تین طلاق پر گفتگو ہورہی ہے اور جہاں چار مسلمان ہیں وہاں بھی گفتگو کا موضوع تین طلاق ہی ہے۔ گذشتہ سال ایک بخار دہلی میں وبا کی شکل میں آیا تھا جس کا نام آج تک ہم صحیح نہ لے سکے کبھی چکن گنیا کہہ دیا کبھی کچھ اور۔ اس کا بھی یہی حال تھا کہ پہلے دہلی اور پھر دہلی کے ارد گرد اور بعد میں ملک کے اکثر حصوں میں اس نے اچھے ا چھوں کو توڑ کر رکھ دیا۔ اور وہ بھی تین طلاق کی طرح ہر زبان پر تھا۔

مرکزی اور صرف اترپردیش کی صوبائی حکومت سے بار بار کہا گیا ہے کہ مسئلہ طلاق کا نہیں، کیوں کہ وہ تو اب مسلمانوں سے سیکھ کر ہندو اور عیسائی سب دینے لگے ہیں۔ مسئلہ ایک وقت میں تین طلاق کا ہے جو فلموں کی دین ہے۔ یہ تحفہ فلم نے دیا ہے کہ شوہر نے دروازہ کا ایک پٹ کھولا اور ریوالور کی گولی کی طرح کہہ دیا طلاق طلاق طلاق!  اور طلاق ہوگئی اس کے بعد خوبصورت ہیروئن کے آنسوئوں میں سارا سماج بہنے لگا۔ یہ لعنت فلموں سے پہلے کہیں سننے میں نہیں آئی تھی۔ ایک وقت میں طلاق دینے والا بھی کہتا تھا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور پھر اسی کو دوسری اور تیسری بار کہہ دیتا تھا۔ اور اسی کو ا یک ہی وقت میں تین طلاق کہا جارہا ہے۔ اور سب اس کے بارے میں ہی بتارہے ہیں کہ سب نے اسے برا کہا ہے۔ لیکن یہ بھی مانا ہے کہ طلاق ہو جاتی ہے اور بورڈ یا دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ یہ صرف اور صرف مسلمانوں کا شرعی مسئلہ ہے جس کا فیصلہ مفتی کریںگے حکومت کے کسی ارادہ کو اس میں دخل نہ دینا چاہیے۔

ضرورت سے زیادہ بولنے کے شوقین اگر ا ن عورتوں کے آنسو نہیںدیکھ سکتے جن کے شوہروں نے فلمی طلاق دے دی ہے تو وہ ان سیکڑوں محلوں میں ہزاروں خاندانوں کی عورتوں کے آنسو کیسے برداشت کررہے ہیں جن کے شوہر کچے گوشت اور پکے گوشت کا کاروبار کرتے تھے اور سب کی سب صبح سے شام تک اس انتظار میں بیٹھی آنسو بہا رہی ہیں کہ وہ پھر خالی ہاتھ واپس آئیںگے۔ اور پھر سوال کے جواب میں اپنی قسمت کو گالیاں دے کر کہیںگے مرو اور بھوکی سو جائو۔صرف لکھنومیںلاکھوں مسلمان مرد اور لڑکے گوشت اورہوٹل کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ سب وہ ہیں جو روز کنواں کھودتے اور روز پانی پیتے ہیں۔حیرت ہے کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرہ پر حکومت بنانے والے جتنی باتیں تین طلاق کی کرتے ہیں وہ اس کا ذکر بھی نہیں کرتے کہ ان لاکھوں بے روزگاروں کے لیے کوئی دوسرا کام بتائیں یا کہیں کہ قانون کی پابندی والے مذبح اور پوری پابندی والی دوکانوں کے لیے اگر تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں تو حکومت آسان شرطوںپر قرض دے دی گی۔ کیا یہ بے نیازی اور چشم پوشی اس لیے ہے کہ گوشت کا کام کرنے والے سوفیصدی مسلمان ہیں۔یہ خیال اس وجہ سے آیا کہ پابندی توشراب کی دوکانوں پر بھی لگتی ہے۔ لیکن ہم نے نہ کہیں پڑھا اورنہ سنا کہ حکومت نے گوشت کی دکانوں جیسا رویہ تو کیا، معمولی سختی بھی کی ہو۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ نرمی اس لیے ہے کہ شراب کا کاروبار کرنے والا ایک بھی مسلمان نہیںہے سوفیصدی ہندو اور سکھ ہیں تو کیا جواب ہوگا؟

مسلم پرسنل لا بورڈ کو ا ندر اور باہر دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ اندر کا حال یہ ہے کہ ایک سنجیدہ ممبر کمال فاروقی صاحب نے ہر بڑے چھوٹے کے بولنے پر دکھ کا کا اظہار کیا ہے اورکہا ہے کہ بورڈ بہت جلد میڈیا کی تشکیل کرے گا اور ایک پینل ہوگا جو میڈیا سے بات کرے گا۔ اس پینل کے علاوہ کوئی دوسرا ممبر میڈیا سے بورڈ کے موقف پر بات نہیںکرے گا۔

ہم نہیں جانتے کہ اس کی اجازت میڈیا کو کیوں دی جاتی ہے کہ وہ صبح سے شام تک کیمرے لٹکائے ہوئے پوری میٹنگ کی فوٹوگرافی کرے؟ یہ بات بہت لوگ جانتے ہیں کہ بورڈ میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے گھروں میں حرام دولت کے پرنالے گرتے ہیں اور ان کے لیے دو چار لاکھ روپے فوٹو گرافروںکو دینا ایسا ہی ہوتا ہے جسے  کسی کو ایک سگریٹ کی ڈبی دے دی۔ اوروہ اس کا سودا کرتے ہیں کہ ہر اہم موقع پر ہماری تصویر سامنے اور سب سے نمایاں رہے۔ اور یہ تو تعارف کا حصہ ہوتا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر ممبر …… پھرفوٹو… نے فرمایا ۔ جب ٹی وی چینل میں مختلف طبقوںکی نمائندگی جمع کی جاتی ہے تو بورڈ کی طرف سے بلانے کے لیے ردّی کاغذ کی طرح نوٹ برسائے جاتے ہیں اور جو بورڈ کے فرش پر کرسیاں بچھانے کے اہل بھی نہیں ہوتے وہ ترجمان ہوتے ہیں اور کوئی نہیں ہے جو لگام لگائے۔ اور نہ اس کا اہتمام ہوتا ہے کہ کون کہاں بیٹھے؟ جنھیں اپنی حیثیت کی وجہ سے سب سے پچھلی صف میں بیٹھنا چاہیے وہ جہاں چاہتے ہیں گھس کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بورڈ پر کہیں سے دبائو پڑ رہا ہے۔ یا دبائو کی وجہ سے سب تنکے کا سہارا تلاش کررہے ہیں۔

عام حالات میں بورڈ کیا کررہا ہے اور کون بورڈ کو استعمال کررہا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ لیکن اس وقت جبکہ صوبائی حکومت مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ سب کے سب صرف تین طلاق کے مسئلہ میں مسلمانوں کو الجھانا چاہ رہے ہیں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ صرف صدر جنرل سکریٹری یا بورڈ کی طرف سے مقرر کردہ ترجمان بات کریں۔ ان کے علاوہ کسی کو اجازت نہ ہو کہ وہ ٹی وی چینل کے کسی مذاکرہ میں جا کر بیٹھے یا پیسے دے کر رپورٹر کو بلائے کہ وہ آکر ان کی رائے معلوم کرے اور آج کے حالات میں یہ ضروری ہے کہ خلاف ورزی جو بھی کرے اسے بورڈ سے باعزت رخصت کردیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ وہ بھی شائستہ عنبر کی طرح اپنا بورڈ بنالے گا۔

بورڈ نے جو فیصلہ کیا ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ اعتراض کرنے والوں نے کہا ہے کہ پروردگار کی طرف سے بتائے ہوئے راستہ پر عمل کرنے والے کا سماجی بائیکاٹ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یہ بات وضاحت سے کہی گئی ہے کہ ایک ہی وقت میں یا طلاق طلاق طلاق کہہ کر طلاق دینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ طلاق دینے والے اور ایک وقت میں تین طلاق دینے والوں میں بہت فرق ہے۔ طلاق کی کوئی عالم کیسے مخالفت کرسکتا ہے جبکہ قرنِ اول میں نہ جانے کتنے تھے جن کے گھر میںطلاق شدہ بیوی تھی۔ اور یہ تو تاریخ ہے کہ جب مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مسلمان مدینہ منور آئے اور آقا مولاصلی اللہ علیہ وسلم نے مواخات (بھائی چارہ کرایا تو انصار کی محبت کا یہ حال تھا کہ سب کچھ قربان کرنے والے نے یہ تک کہہ دیا کہ میری دو بیوی ہیں۔ ان میں سے جسے کہو میں طلاق دے دوں تم اس سے نکاح کرلو۔ اس فیصلہ سے نہ گھر میں بیویوں نے شور مچایا اور نہ رحمت عالمؐ نے کسی ناگواری کا اظہار کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل ہوا یا نہیں؟ یہ موضوع نہیں ہے۔

کمال فاروقی صاحب نے ٹیلی فون سے طلاق کے رواج پر روک لگانے اور حلالہ کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ یہ دونوں باتیں کیا بورڈ اپنے سر لے گا؟ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر کوئی ہر مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں اور یہ نہیں بتاتا کہ کیسے؟ سرکاری اسکول کم از کم اترپردیش میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جہاں تعلیم ہوتی ہو اور جن اسکولوں میں واقعی تعلیمی ہوتی ہے وہ ایسے ہیں کہ ان میںکمال فاروقی صاحب اور حفیظ نعمانی کے پوتے پوتیاں تو پڑھ سکتے ہیں کہ ان کے ڈرائیور یا خدمت گاروں کے بچے سوچ بھی نہیںسکتے کیوںکہ بات لاکھوںسے شروع ہوتی ہے اور جو بغیر کچھ سوچے تعلیم کا مشورہ دیتا ہے وہ ان غریبوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتا ہے۔ فاروقی صاحب آئیں اور میرے گھر میں ہی نمونہ دیکھ لیں۔ یا بتائیں کہ دینی مدرسوں کے علاوہ کم پیسوںمیںکہا اور کیسے پڑھائی ہوتی ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔