امرت جیسا ماں کا دودھ اور نومولود

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بچے کی غذا،بقا اور صحت ماں کے دودھ میں ہے۔ یہ بات سائنس سے ثابت ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر بچے کی پیدائش کے پہلے گھنٹہ سے چھ ماہ تک صرف ماں کا دودھ پلانے کی صلاح دیتے ہیں۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ پانی بھی نہیں۔ ماں کا پہلا گاڑھا دودھ بچوں میں بیماریوں سے لڑنے کی قوت پیدا کرتا ہے اورانہیں بیمار ہونے سے بچاتا ہے۔ غلط روایتوں کے چلتے امرت جیسا پہلا گاڑھا دودھ ضائع ہوجاتا ہے۔ کئی لوگ بچے کا حق مارکریہ پہلا دودھ بھگوان کو چڑھا دیتے ہیں توکئی عورتیں اس کو زمین میں دبادیتی ہیں۔ اسی غلط تصور کے نتیجہ میں 20فیصد نومولود اور 13فیصد پانچ سال سے کم عمر کے بچے مرجاتے ہیں۔ اگر سبھی بچوں کو ضرورت بھر ماں کا دودھ ملے تو دنیا بھر میں آٹھ لاکھ 23ہزار بچوں کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ بھارت میں ہر سال ماں کے دودھ کے ذریعہ ایک لاکھ 56ہزار بچوں کی اموات کو روکا جاسکتا ہے۔ نومولودوں کی بچپن میں زیادہ تر اموات نمونیااور ڈائریا سے ہوتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نمونیا سے 34لاکھ اور ڈائریا سے 39لاکھ بچے ہر سال اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔
ملک کی موجودہ حکومت ماؤں وبچوں کی صحت کیلئے کتنی فکر مند ہے، اس کا اندازہ مدرس ایبسولوٹ افیکشن’’ماں‘‘ پروگرام سے ہوتا ہے۔ جس کی ابتدا 5؍اگست کو مرکزی وزیرصحت جے پی نڈا نے دہلی میں کی تھی۔ یہ پروگرام بچوں کو دودھ پلانے کیلئے ماؤں کی حوصلہ افزائی، اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے شروع کیاگیا ہے۔ وزیرصحت جے پی نڈا نے پروگرام کے آغاز پر کہا تھاکہ بھارت میں زچہ بچہ اموات کی شرح میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ کمی کی دردنیا میں سب سے تیز ہے۔ اس پروگرام سے تمام ریاستوں کو جوڑاگیا ہے۔ آشا ورکر اورآنگن واڑی کارکنان کے کندھوں پر’’ماں‘‘ پروگرام کی کامیابی کا وزن ڈالا گیا ہے۔ اس لئے ان کارول اہم ہوگیا ہے۔ سرکاری آنکڑوں کے مطابق 80فیصد بچے زچگی کی سہولت والی جگہوں پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے سرکاری ونجی اسپتالوں، کلینکوں اور ڈسپینسریوں کو اس پروگرام سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 29؍نومبر کو دہلی ریاست کے وزیرصحت ستیندر جین کے ذریعہ سکریٹریٹ میں بریسٹ فیڈنگ پروگرام کا آغاز کراس منصوبہ میں شامل ہوگئی ہے۔
ماں کا دودھ بچے کی ذہنی وجسمانی نشونما تو کرتا ہی ہے، وہ اس کوغذائیت کی کمی کا شکار ہونے سے بھی بچاتا ہے۔ کوپوشن ایسا مرض ہے جوبڑے ہوکر بھی دور نہیں ہوتا بلکہ نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ دوسری طرف مائیں دودھ پلانے سے پستان کے کینسر سے محفوظ رہتی ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اگر مائیں ایک سال سے زیادہ بچے کو دودھ پلائیں تو دنیا بھر میں پستان کینسر سے ہونے والی بیس ہزار موتوں کو ٹالا جاسکتا ہے۔ دودھ پلانے والی خواتین کو رحم کا کینسر ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ مسلم سوسائٹی میں لڑکوں کو پونے دوسال اور لڑکیوں کو سوادوسال دودھ پلانے کی روایت ہے۔ میڈیکل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لمبے وقت تک بچوں کو دودھ پلانے سے بچوں کے آئی کیوں میں 3-4 پوائنٹس کا اضافہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی بچے کا وزن معمول سے زیادہ ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ماہرنفسیات کا ماننا ہے کہ ماں کے ذریعہ بچے کودودھ پلانے سے دونوں کے درمیان جذباتی رشتہ قائم ہوتا ہے،جوبڑے ہوکر بھی قائم رہتا ہے۔اس رشتہ کی وجہ سے بچے اپنے ماں باپ کو عزت واہمیت دیتے ہیں۔
’’ماں‘‘ پروگرام کے تحت اے این ایم ،نرس، آشا اور آنگن واڑی کارکنان کو ٹرینڈ کیا جارہا ہے تاکہ وہ بچوں کو دودھ پلانے کے دوران آنے والی دشواریوں کو دورکرسکیں۔ مثلاً کئی مرتبہ بچے کو دودھ پینے میں دشواری ہوتی ہے۔ کئی ماؤں کے پستان کے نپل کٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دودھ نہیں پلاپاتیں۔ کئی مرتبہ دودھ کی زیادتی کی وجہ سے پستان میں گانٹھ بن جاتی ہے اور پستان سوج جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہیلتھ کارکنان آلہ سے ماں کا دودھ نکال کر پستان میں بننے والی گانٹھ کو تحلیل کر ماؤں کو راحت پہنچاتے ہیں۔ اسپتالوں میں دودھ پلانے کیلئے الگ کمرے کاانتظام کیاجارہا ہے۔ دہاڑی مزدوروں کو سائٹ پر بچوں کو دودھ پلانے کیلئے جگہ مہیا کرانے جیسے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ پہلی مرتبہ اس پروگرام کے تحت آشا ورکروں کو ماؤں کو دودھ پلانے کے لئے حوصلہ افزائی کی غرض سے اجرت دینے کاانتظام کیاگیا ہے۔ سرکار کو امید ہے کہ یہ مالی مدد’’ ماں‘‘ پروگرام کو کامیاب بنانے میں اہم ثابت ہوگی۔ شروعاتی طورپر اس کیلئے 30کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ماں کے دودھ کے ان فائدوں سے عوام کو واقف کرانے کی سرکاری قوائد بہت سالوں سے چل رہی ہے۔ اس کے باوجود مطلوب نتیجے سامنے کیوں نہیں آرہے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ سرکاریں جو کہتی ہیں اس کا زمینی سطح پر کیا پیغام جاتا ہے؟ یوجناؤں ، پروگراموں کو عمل میں لانے کیلئے کتنی بنیادی سہولیات مہیاکرائی جاتی ہیں اور نگرانی کرنے والے کتنے مستعد رہتے ہیں۔ 80فیصد بچے نرسنگ ہوم یااسپتالوں میں پیدا ہونے کے باوجود صرف 45فیصد بچوں کو ہی پیدائش کے ایک گھنٹہ کے اندر ماں کا دودھ مل پاتا ہے۔ اتنے بڑے فاصلے کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ ماں کے دودھ کو بڑھاوا دینے والی سرکاری پالیسیوں کی ناکامی تشویشناک ہے۔ سرکار کا زور بچوں کی ادارہ ذاتی پیدائش پر رہا ہے۔ اب سرکار کو احساس ہوا ہے کہ اس سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ اسی لئے گھروں میں پیدا ہونے والے بچوں پر دھیان دینے کیلئے آشا اورآنگن واڑی کارکنان کو’’ماں‘‘ پروگرام میں شامل کیاگیا ہے۔
بچوں کو دودھ پلانا صرف ماؤں کا ذمہ نہیں ہے بلکہ گھر، خاندان اورسماج کو ایسا ماحول تیاکرنا ہوگا جس میں مائیں آسانی سے یہ کام کرسکیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں دنیا کی دیکھادیکھی بھارت کی خواتین بھی بچے کی پیدائش کے بعداسے اپنا دودھ پلانے سے دور ہوئیں۔ اس کی دوبڑی وجہ ہیں ایک حمل کے دوران کمزور اور غیر صحت مند جسمانی حالت۔ اس حالت میں کوئی بھی زچہ اپنے بچے کودودھ پلانے لائق طاقت نہیں رکھتی۔ اسے مجبوراً بچے کیلئے ڈبہ بند دودھ پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ دوسری وجہ بڑی عجیب ہے، جس سے متاثر ہوکر زچہ عورتیں اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں ، وہ ہے عورتوں کا اپنے جسمانی نشیب وفراز سے انتہائی لگاؤ۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی جسمانی خوبصورتی پر کوئی اثر پڑے۔ پہلی صورت میں زچہ حقیقت میں اس لائق نہیں ہوتی کہ وہ نومولود کو اپنا دودھ پلا سکے۔ جسمانی کمزوری اور بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والی ناقابل برداشت تکلیف کی وجہ سے وہ قدرتی طورپر بغیر دودھ کے ہوجاتی ہے۔ یا اس کا دودھ سوکھ جاتا ہے۔ اس مجبوری میں نومولود کو ماں کا دودھ نہیں مل پاتا۔ لیکن دوسری وجہ ماں اوربچے دونوں کی صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔
عورتوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والی خواتین کی میٹرنیٹی لیو کو بڑھائے جانے کی مانگ کو سرکار نے ہری جھنڈی دے دی ہے۔ راجیہ سبھا میں منظور ترمیمی مسودہ قانون میں زچگی کی چھٹی12ہفتہ سے بڑھا کر 26ہفتہ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ نئے قانون کے دائرے میں سرکاری محکموں کے علاوہ ایسی پرائیویٹ کمپنیاں بھی شامل ہوں گی، جن میں 10سے زائد عورتیں کام کرتی ہیں۔ ملازم پیشہ عورتیں 12ہفتے کی چھٹی کو لے کر لمبے عرصہ سے پریشان تھیں۔ ان کاکہنا تھاکہ اتنی کم چھٹی میں کتنے دن وہ خود کو سنبھالیں اورکتنے دن چھاتی سے لگ کر دودھ پیتے بچے کو؟ یقیناًیہ اچھی خبر ہے لیکن اس سے عورتوں کی ملازمت کی شرح میں کمی آنے کا اندیشہ ہے۔ سرکار کو ملازمین میں عورتوں کی تعداد کم نہ ہو اس کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ عورتوں پر چھٹنی کا خطرہ منڈراتا رہے گا۔
سرکارنے ڈبہ بند دودھ پر پابندی لگاکر جس ہمت کا مظاہرہ کیا ہے، اسی جذبہ کے ساتھ ماں کے دودھ کو بڑھاوا دینے ونگرانی نظام کو درست
کرنے کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ سرکار کے اس قدم میں یونیسیف ایک تکنیکی پارٹنر کے طورپر اس کے ساتھ ہے۔ اس لئے ماں کے دودھ کے ساتھ بچوں میں تغذیہ کی کمی کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ دنیا میں کوپوشت بچوں کی سب سے زیادہ تعداد بھارت میں ہے۔ اعدادو شمار کے لحاظ سے ملک میں40فیصد بچے تغذیہ کی کمی کے شکار ہیں۔ ایسی صورت میں صحت مند بھارت کا خواب کیسے پورا ہوسکتا ہے؟ ضرورت ہے بچوں کو امرت جیسا ماں کا دودھ اور ممتا ملے اور س تغذیہ کی کمی دور ہو ۔ تا کہ بھارت کی ترقی میں یہ نوجوان نسل اپنی ذمہ داری ادا کرسکے۔(یو این این)

تبصرے بند ہیں۔