امریکی زوال اور مسلم ممالک

ممتاز میر

  قریب دس سال قبل ہم اپنے ایک بزرگ صحافی دوست کے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ باتیں چل رہی تھی۔ ہمارے دوست کہنے لگے کہ اب یہودی امریکہ کو برباد کر دینا چاہتے ہیں۔ نہ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ کام دو چار ہفتوں یا مہینوں میں ہو جائے گا نہ ہم نے ایسا سمجھا۔ اس کے بعد سے ہمارے بزرگ صحافی دوست نے اور خود ہم نے بھی کئی بار اپنے مضامین میں امریکہ کی متوقع بربادی یامنصب سپر پاور سے زوال کا ذکر کیا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جس سے امریکہ کے زوال کا پتہ چلتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ آئندہ ایک دہائی میں امریکہ کا زوال مکمل ہو جائے گا۔

   صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ امریکہ پر یہودی گرفت کا کیا عالم ہے۔ یہ انتخاب صاحب بصیرت نہیں عام بصارت رکھنے والوں کو بھی یہ بتاتا ہے کہ اب صیہونی مقتدرہ نے امریکی سورج کو غروب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے دنیا کے سارے میڈیا، الکٹرونک یا پرنٹ میڈیا، سارے سروے یہ بتارہے تھے کہ محترمہ ہلیری کلنٹن جیت رہی ہیں مگر جیتے ڈونالڈ ٹرمپ۔

اور اس کے باوجود جیتے کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم سرکس کے جوکروں کی طرح چلائی تھی۔ دوران انتخا ب ان کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لی جائیں کہیں بھی سنجیدگی کا نام و نشان نہ ملے گا۔ غالباً وہ پہلے صدر ہیں جن پر انتخابی مہم کے دوران ہی درجنوں عورتوں نے جنسی زیادتی کے الزامات عائد کئے تھے۔ ایک سال پہلے ہر چند کے ان کو کامیاب قرار دیا گیا مگر رائے دہندگان کی اکثیریت نے ان کو صدر تسلیم نہ کیا۔ واشنگٹن میں جب تقریب حلف بردار ی برپا تھی اسی وقت تھوڑے ہی فاصلے پر ان کے خلاف مظاہرہ بھی ہو رہا تھا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا۔

ایسے شخص کی انتخابی کامیابی سے یہ ظاہر کرنامقصود ہے کہ اب امریکی قوم کی ذہنی سطح کتنی پست ہو چکی ہے۔ یا اب امریکی معاشرے میں ترجیحات کن چیزوں کو حاصل ہو چکی ہے۔ اب صدر کا بھی اخلاق و کردار ان کے یہاں ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ مسلمان جو اس سلسلے میں بڑے ’’تجربہ کار‘‘ ہیں جانتے ہیں کہ یہ قوموں کی تباہی کی نشانیاں ہیں ۔

   اب مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں ۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ مسلسل ایسے اقدامات کر رہے ہین یا ان سے کروائے جارہے ہیں جو امریکہ کے بھی اور دنیا کے طاقتور ترین فرد کی بھی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں ۔ تازہ ترین قدم مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے یروشلم یابیت المقدس کو اسرائیلی راجدھانی قرار دے کر اٹھایا ہے۔ حالانکہ ۱۹۹۵ میں ہی امریکی کانگریس نے یروشلم کو اسرائیلی راجدھانی قرار دے دیا تھا مگر کسی امریکی صدر کی یہ ہمت نہ ہوئی کے وہ اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیتا۔ اور اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم بھی دیتا۔ اس کے لئے ڈونالڈ ٹرمپ جیسے کسی شخص کی ضرورت تھی۔ سو اسے امریکہ کا صدر بنا دیا گیا۔ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کے بہت سارے کمزور پہلو ہیں جس کی وجہ سے وہ صیہونی مقتدرہ کے کنٹرول میں رہیں گے۔ یہودیوں نے تو بل کلنٹن جیسے شخص کوبلیک میل کرنے کے لئے مونیکا لیونسکی ایجاد کرلی تھی۔ جناب۔ کلنٹن کا قصور بھی فلسطین سے محبت ہی تھا۔

  اب آئیے ڈونالڈ ٹرمپ کے تازہ اقدام کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔ انھوں نے ۶ دسمبر کو یہ اعلان کیا کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردے گا۔ یعنی امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا۔ اب اس پر مذمتوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ حتیٰ کہ انھوں نے بھی امریکہ کی مذمت کی جو ’’شہ کا مصاحب‘‘بنے پھرتے ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ دنیا کے تمام ہی عوام و حکمراں دل سے مذمت کررہے ہیں سوائے خلیج کے ان حکمرانوں کے جن کی کوئی عوامی بنیا دنہیں ہے۔ جو طاقت کے بل پر حکومت کر رہے ہیں ظاہر ہے وہ طاقت کے

سامنے سر بھی جھکائیں گے۔ ۶ دسمبر کا انتخاب بھی بڑا معنی خیز ہے۔ ہمارے یہاں کے قدرتی حلیفوں نے تو اس پر خوب بغلیں بجائی ہوں گی۔ جناب رجب طیب اردگان صدر ترکی جو آجکل بین الاقوامی ملی مسائل میں بہت فعال ہیں اور آرگنائزیشن آف مسلم کنٹریز کےOIC سر براہ بھی ہیں ۔ ٹھیک ایک ہفتے بعد یعنی ۱۳ دسمبر کو انھوں نے استنبول میں OIC کی میٹنگ طلب کرلی۔ اس میٹنگ مین کچھ غیر مسلم ملک بھی مدعو تھے۔ اس میں شرکت کے لئے بہت سارے ممالک کے سربراہ بہ نفس نفیس تشریف لائے تھے۔ کچھ حضرات نے اپنے نائبین کو بھیجا تھا۔ مگر خادم الحرمین شریفین اور ان کے حواریوں نے سب سے نچلی سطح کے اہلکاروں کو شرکت کے لئے روانہ کیا تھا۔ اس سے کم سے کم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں قبلہ اول یا تیسرے حرم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان کی دوکان تو ان کے ملک میں موجود دونوں حرموں سے چل رہی ہے۔ او آئی سی کی اس میٹنگ میں متفقہ طور پر یہ قرار داد پاس کی گئی کہ صدر امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے۔ یروشلم کو فلسطین کی راجدھانی بنایا جائے۔ بلکہ رجب طیب اردگان نے تو یہ اعلان بھی کیا کہ وہ جلد ہی ترکی کا سفارت خانہ برائے فلسطین مشرقی یروشلم قائم کرنے کے اقدامات کریں گے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے بھی یہ اعلان کردیا کہ اب وہ اپنے معاملات میں امریکہ کی ثالثی قبول نہیں کریں گے۔

کیونکہ اب امریکہ خود ایک فریق بن چکا ہے اسلئے اب وہ قابل اعتبار نہیں رہا۔ اس میٹنگ پر امریکہ نے خوب ناک بھوں چڑھایا۔ دھمکیاں بھی دیں ۔ ۱۸ دسمبر کو یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں لے جایا گیا جہاں ایک کے مقابلے ۱۴ ممالک نے کہا کہ ٹرمپ کو اپنا یہ قدم واپس لینا چاہئے۔ مگر حسب عادت امریکہ نے اس رزولیوشن کو ویٹو کر دیا۔ اسی وقت یہ طے ہو گیا تھا کہ اب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھایا جائے گا۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر محترمہ نکی (نمرتا رندھاوا)ہیلی، جو کہ ہندوستانی نژاد ہیں نے ٹیلی فون سنبھال لیااور ان کے نزدیک جو ڈرنے والے ممالک تھے۔ انھیں فون کرکر کے دھمکیاں دینی شروع کردیں ۔ جو ان کے باجگزار ممالک ہیں انھیں معاشی اور فوجی امداد سے محروم کرنے کی دھمکی دی گئی۔ اور لوگوں کو برے انجام سے ڈرایا گیا، ہمیں نہیں معلوم کہ محترمہ نکی ہیلی نے اپنے آبائی ملک فون کیا تھا یا نہیں ۔ لگتا ہے وہ خوش فہمی میں رہ گئیں کیونکہ ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا ‘‘دوسرے ممالک کے معاشروں کا حال تو ہم نہیں جانتے مگر اپنے یہاں کے ماحول کو ذہن میں رکھ کر سوچئے،کیا ایسا نہیں لگتا کہ محلے کاتھرڈ ریٹ دادالوگوں کو دھمکا رہا ہے۔ امریکہ برا تو پہلے بھی تھا۔ مگر اتنا برا۔ ۔ ۔ کیا یہ زوال کی نشانی نہیں ہے۔

   چلئے،آگے بڑھتے ہیں ۔ ۲۱ دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی اور بہت بڑی اکثیریت سے یہ رزولیوشن پاس ہوا کہ امریکی صدر کو اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا قدم واپس لینا چاہئے۔ اس رزولیوشن کی حمایت میں ۱۲۸ ووٹ پڑے اور مخالفت میں ۹ بلکہ صرف ۷ کیونکہ دو ووٹ تو خود امریکہ و اسرائیل کے تھے۔ ۳۵ ممالک نے حاضر ہوتے ہوئے بھی ووٹنگ میں حصہ لینا پسند نہ کیا اور۲۱ ممالک اس جنرل میٹنگ مین شریک ہی نہ ہوئے۔ امریکی انتظامیہ کی کم ظرفی دیکھئے کہ وہ ان ۲۱+ ۳۵ ممالک کی شکر گزار ہے کہ انھوں نے امریکہ کے خلاف ووٹنگ میں حصہ لینا پسند نہ کیا۔  ممکن ہے کہ ان ممالک کو کچھ انعام بھی دیا جائے۔ کل ہم نے جب یہ خبر پڑھی تو بڑی ہنسی آئی۔

اب امریکہ وہاں پہونچ گیا ہے کہ حمایت میں ووٹنگ تو دورمخالفت مین ووٹ نہ پڑنے پر بھی جشن منایا جا رہا ہے۔ اب ان کے نام بھی سن لیجئے جنھوں نے مخالفت میں ووٹ دے کر ’’موگامبو‘‘ کو خوش کر دیا۔ نام لکھنا اس لئے ضروری ہے کہ بہت سارے قارئین نے ان میں سے بہت سے ممالک کے نام بھی شاید نہ سنے ہوں ۔ ٹوگوِ، مائکرونیشیا، مارشل آئی لینڈز،گوئٹے مالا،نورو،پالو،اور ہوندوراس۔ نورو اور پالو یہ دونوں نام خود ہم نے پہلی بار سنے ہیں ۔ افسوس کے ان مین کچھ مسلم مالک بھی ہیں جو آج بھی امریکہ سے ڈرتے ہیں۔ ٹوگو وہ ملک ہے جس نےOIC کی رزولیوشن پر بھی دستخط کئے ہین اور جنرل اسمبلی مین امریکہ کی حمایت بھی کی ہے یعنی باغباں اور صیاد دونوں کو راضی رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یوگنڈہ اور سیرالیون وہ ممالک ہیں جنھوں نے OIC کی قرار داد کی حمایت بھی کی ہے اور جنرل اسمبلی کی میٹنگ سے غیر حاضر بھی رہے ہیں ۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ ۔ ۔ سب عجیب غریب ووٹ وطن عزیز کا رہا ہے۔ جناب مودی تو آجکل ٹرمپ کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں پھر بھی ان کے خلاف ووٹ۔ ۔ اور دھونس نہ دھمکی، گالی نہ تھپڑ۔ ۔ ۔ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ ۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا۔ کسی کو اندر کی خبر ہے تو ضرور لکھے۔

   اب اور ایک خبر سنئے اور سر دھنئے۔ کل ۲۵ دسمبر کے ترکی روزنامے ’’صباح ‘‘ میں ہم نے پڑھی اور سر پیٹ کر رہ گئے۔ فلسطین کے صدر جناب محمود عباس آجکل سعودی عرب کے دورے پر ہیں ۔ اخبار میں ان کا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کاجو کہ آجکل عملاً خادم الحرمین شریفین بنے ہوئے ہیں ، فوٹو ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے کہ سعودی شہزادے کا محمود عباس سے مطالبہ ہے کہ وہ امریکی روڈ میپ کے مطابق کام کرے۔ ورنہ انھیں اپنے عہدے سے برطرف کر دیا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے۔

تبصرے بند ہیں۔