امیج کو نقصان یا امیج کو سہارا؟

تبسم فاطمہ

یہ سوال رہ رہ کر میرے ذہن میں گونجتا ہے کہ کیا ہٹلر نے کبھی اپنی نگیٹو امیج سے کوئی خطرہ محسوس کیا ؟ کیا دنیا کے کسی بھی تاناشاہ کو اپنی غلط امیج کے لئے کوئی صفائی دینی پڑی ؟یا کسی تاناشاہ کو کبھی اس بات پر افسوس ہوا کہ عوام کی نظر میں اس کی امیج ایک بیڈ مین یا برے آدمی کی ہے اور وقت کا تقاضہ یہ کہ اسے اس امیج کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کسی بھی تاناشاہ نے اپنی امیج کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹانی بلیر اور امریکہ کے سابق صدر جونیر بش کو آپ کہاں رکھیں گے؟ عراق کو تہس نہس کرنے اور عالمی سطح پر تشدد کی سیاست برپاکرنے میں یہ دونوں نام انتہا پسندی کی ہر حد سے گزرگئے۔ دنیا کے موجودہ نقشے پر زیادہ تر ممالک کے حکمراں کی امیج کسی ولین یا بیڈ مین کی بن چکی ہے اور ان حکمرانوں کو اس بات کا کوئی غم بھی نہیں ہے۔ میانمار میں ہونے والے تشدد اور مسلمانوں کی ہلاکت کا جائزہ لیجئے تو آنگ سان سوچی کی امیج روہنگیائی مسلمانوں کے قاتل کے طورپر ابھر تی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے لے کر شام کے صدر بشارالاسد، امریکی صدر ٹرمپ،  چین کے شی جن پنگ اور روسی صدر ولاد یمیر پوتن تک ایک لمبا سلسلہ ہے جن کے نام کے آگے اب ویلن یا بیڈمین کا نام ہنستے ہنستے جڑ گیا ہے اور ان تاشاہوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دنیا انہیں کن ناموں سے یاد کرتی ہے۔

موجودہ دنیا کی ریس میں ایک دوسرے پر قابض ہونے کے لئے حکمراں اپنی اسی تاناشاہی امیج کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ لندن میں مودی ناٹ ویلکم کی گونج نے مودی کو ناپسندیدہ حکمرانوں کی صف میں کھڑا کردیاہے۔ مودی کے برطانیہ دورہ کو لے کر سوشل میڈیا میں بھی مودی کے خلاف زبردست بھڑاس نکالی گئی۔ لند کی سڑکوں پر مودی کے خلاف احتجاجی نعرے لگائے گئے۔ آصفہ کو انصاف دلانے کے نام پر لند ن کی سڑکوں پر، وہاں بسنے والے ہندوستانیوں کاغصہ پھوٹ پڑا۔ صرف لندن نہیں اس وقت پوری دنیا میں مودی کی امیج اس بیڈمین کی بن چکی ہے جو موب لینچنگ کو بڑھاوادیتا ہے، انصاف اور قانون سے کھلے عام کھیلتا ہے۔جو زانیوں کا دفاع اور مسلمانوں کا قتل عام کر تا ہے اور جو ایک ایسی حکومت چلارہا ہے، جہاں سادھو سنیاسیوں کو پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ مدھیہ پردیش کی حکومت ایک سادھو کمپیوٹربابا کے الزام سے خوفزدہ ہوکر اسے منسٹر کے برابر کا عہدہ اور منصب سونپ دیتی ہے۔کمپیوٹر بابا،اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی کی طرح جاہل سیاسی نظام کا مضبوط حصہ بن کرابھرتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر گجرات دنگوں سے لے کر مکہ مسجد تک کے مجرموں کو رہائی کا پروانہ دے دیتی ہے۔ ثبوت کی موجودگی کے باوجودجج لوہیا کا کیس،  سپریم کورٹ خارج کردیتا ہے۔ کرپشن کے باوجود امت شاہ کے بیٹے پر قانون کے لمبے ہاتھ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اسیما نند کو باعزت رہا کرنے والاجج فیصلہ سنا کر اپنا استعفی نامہ سونپ دیتا ہے۔ مودی حکومت میں ہر فیصلے کی بنیادتاناشاہ پر رہی۔ اور تانا شاہی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز میڈیا کے ذریعہ خاموش کردی گئی۔مودی کے ساڑھے چار برس کی حکومت کا ہر دن ظلم وستم کا ایک نیا باب ہے مگر مودی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ظلم وزیادتی کی ہر کہانی مودی کی طاقت میں اضافہ کرتی ہے۔ ذلت،  رسوائی اور بدنامی سے ملنے والے ہر تمغے کے بعد مودی کے بھکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر لاکھوں کی تعداد میں موجود، ان بھکتوں کے لئے مودی بھگوان کا درجہ رکھتے ہیں۔ سوشل ویب سائٹس سے میڈیا تک مودی پر لگے ہر داغ کو دھونے اور سیاہ کو سفید بنانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ مودی کی نگیٹو امیج در اصل مودی کا مضبوط سہار ا بن گئی ہے، جس کے ذریعہ مودی مشن 2019کے ساتھ طاقت اور کامیابی کی نئی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس تاریخ کے لئے سب سے ضروری ہے کہ اپازیشن کو حاشیہ پر ڈالا جائے۔

2014میں ملنے والی فتح کے بعد ہی مودی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگایا تھا۔ اور یہ نعرہ ایک طرح سے کامیاب بھی رہا۔ ہندوستان کے نقشے پر کانگریس کا وجود کم سے کم ہوتا چلاگیااور اس کی جگہ کمل،  کھلتا چلا گیا۔ عالمی سیاست کے صفحہ پر یہ دور جمہوریت کے خاتمے اور تاناشاہوں کے لئے نئے چیلنج کا دور ہے۔ ہر تاناشاہ کی خواہش ہے کہ عوام پر اس کے منتخب ہونے کی ذمہ داری نہ سونپی جائے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے تاحیات صدر بنے رہنے کے منصوبے پر عمل کیاتو روس کے ولاد یمیر پتن بھی اسی راستے پر چل نکلے۔ مودی کے نئے گیم میں اپازیشن کو ختم کرنے کی نئی روایت کا آغاز ہوچکا ہے۔ زرا یاد کیجئے، دو برس قبل نریندر مودی نے لوک سبھا اور اسمبلی کا انتخاب ساتھ ساتھ کرانے پر زور دیاتھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ایسا کرنے سے انتخابات کے خرچ میں بھاری کمی آئے گی۔ مبصرین ایسا کرنے کو آئینی اور جمہوری نظام کے لئے بڑا خطرہ مانتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں اپازیشن کا وجود ہی ختم ہوسکتا ہے۔ ایک تازہ سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ نیتی آیوگ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں جٹ گئی ہے۔ آئی ڈی اف سی انسٹی ٹیوٹ سے ملنے والے اعداد وشمار پر بھروسہ کریں تو ایک ملک ایک انتخاب کے نتائج بیحد خطرناک ہوسکتے ہیں۔ 77فی صد امکان یہ ہے کہ ووٹر جسے لوک سبھا میں ووٹ دیناچاہے گا، اسی پارٹی کو اسمبلی میں بھی دیکھنا چاہے گا۔ اس طرح ایک ہی حکومت ہوگی جو مرکز کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں میں بھی حکومت کرے گی اور اس طرح اپازیشن کی ریاستی حکومتوں کوختم کرنا آسان ہوجائے گا۔ مودی حکومت ایک ملک ایک انتخاب کے ذریعہ پیسہ،  وقت اور محنت بچانے کی دلیل ضرور دے رہی ہے لیکن اس کے پیچھے منشا یہی ہے کہ اپازیشن کی طاقت کو ختم کرنے کے بجائے اسے بالکل ہی ختم کردیا جائے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ہندوستان بھی روس اور چین کے نقش قدم پر چل پڑیگا اور تاحیات مودی کے وجود کو کمزور کرنا، اپازیشن کے لئے آسان نہیں ہوگا۔

یہ کام فی الحال مشکل اس لئے لگ رہا ہے کہ مودی کے راستے میں اب نئی نئی مشکلات کھڑی ہوچکی ہیں۔ معیشت کی خطرناک گراوٹ اور روزگار کی کمی نے عوام کو توڑ دیاہے۔ ابھی حال میں اے ٹی ایم میں کیش کی کمی ہوگئی تو یہ سوال بھی اٹھا کہ ملک کا سارا کیش تو وجئے مالیا، نیرو مودی جسے مودی کے دوست لے گئے تو عام آدمی کے لئے خزانہ کہاں بچے گا؟ موب لینچنگ،  زانیوں کے دفاع اور کھلے عام مسلمانوں کی ہلاکت پر بھی سویا ہوا عام آدمی اب جاگنے لگاہے۔ مسلسل ہونے والے فسادات اور آبروریزی کے واقعات کو لے کر اب غیر ممالک میں بھی مودی حکومت کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔کٹھوعہ اور انائو میں ہونے والے حادثے نے اس وقت پورے ملک کو بیدار کردیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستانی میڈیا نے بھی آصفہ کا ساتھ دیا۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں آصفہ کوانصاف دلانے کی مہم چل پڑی۔ مختلف مواقع پر مودی حکومت کے خلاف عوام کے صبر کا باندھ ٹوٹتا ہوا نظر آیا۔ یہ دبی دبی بغاوت اب وہاں پہنچ گئی ہے، جس کا ایک منظر کچھ دن پہلے ممبئی کی ایک لوکل ٹرین میں دیکھنے میں آیا۔ بی جے پی کے ایک لیڈر کو دیکھتے ہی عوام کاغصہ پھوٹ پڑا اور اس لیڈر کو کمپارٹمنٹ چھوڑ کر بھاگنے میں ہی بھلائی نظر آئی۔ ایسے کچھ ایک واقعات مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈ میں بھی پیش آئے۔ سوشل ویب سائٹس پر ایک تصویر وائرل ہوئی، جہاں ایک محلے کے آگے ہندی میں ایک بینر پر لکھا تھا کہ یہاں عورتیں رہتی ہیں۔ بی جے بی کے لیڈروں کا آنامنع ہے۔

 یہ ملک کی نئی تصویر ہے جہاں خاموشی سے مودی اور آر ایس ایس کے نظریات کے خلاف بغاوت دبے پائوں سر نکالنے لگی ہے۔ مودی کو اسی بغاوت سے خطرہ ہے،  ورنہ 2002کے گجرات فسادات کے بعد سے اب تک مودی نے اس بیڈمین کی امیج سے فائدہ ہی اٹھایا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔