امیدواروں کے انتخاب میں کسی سیاسی پارٹی میں سنجیدگی نہیں: پارلیا منٹ کو شو پیس ہی رہنا ہے

صفدر امام قادری

ہندستانی جمہوریت کے سب سے بڑے تیوہارکی سر گرمیاں شباب پر ہیں۔ تقریباً نصف امیدواروں کا مقدرای۔ وی۔ ایم۔ میں بند ہو چکا ہے۔ آخری مرحلے کے انتخابات کے لیے پرچۂ نام زدگی کے داخلے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ یعنی وہ تما م چہرے سامنے آچکے ہیں جن سے آئندہ ملک کاسب سے بڑا قانون سازادارہ تشکیل پائے گا۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے مل جل کر اپنے طور پر بہتر امیدواروں کو سماج سے منتخب کیا ہو گا۔ بعض افراد آزادانہ طور پر بھی اپنی امیدواری کو پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ اب یہ 23 مئی کو غروبِ آفتاب کے ساتھ ساتھ واضح ہو سکے گا کہ اس پارلیامنٹ کو کس راستے کی طرف بڑھنا ہے اور اس کی نکیل کس کے ہاتھ میں ہو گی؟

        صاحبِ اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پوری توجہ کے ساتھ اپنے نئے پرانے چہروں کو بڑی تعداد میں اتارا۔ پچھلے تین چار برسوں سے ایسی خبریں گشت کر رہی تھیں کہ امت شاہ ہندستان کے گوشے گوشے سے بااثر اور جیتنے والے کی شناخت کے لیے منتھن کر رہے ہیں۔ وزیرِا عظم جناب نریندر مودی کے شوقِ خوش لباسی کا ایک عالم قائل ہے کیوں کہ صبح سے شام تک ٹی وی پران کے لباس کی رنگا رنگی سے پورا ملک ششدر رہتا ہے۔ یہ کام ماڈل اور فلمی ستارے کرتے ہیں۔ کرکٹ کے اسٹار تو پورا پورا دن ایک انداز کے لباس میں دکھائی دیتے ہیں۔ ٹسٹ کرکٹ میں تو ابھی بھی سادگی ہی رواج میں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غیر مناسب نہیں کہ نریندر مودی کے لیے فلمی اسٹار ہی رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اس کا اثر اس بات سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو فلم اسٹاروں اور ماڈلس میں خاص دلچسپی ہے۔ اس کے سہارے وہ اپنی پارٹی کی مقبولیت واضح کرنا چاہتی ہے۔

        پچھلے پارلیامنٹ میں اس نے ہیما مالینی،کرن کھیر،اسمرتی ایرانی، پریش راول، منوج تیواری،بابل سپریووغیرہ کو الگ الگ علاقوں سے میدان میں اتارا۔ کھلاڑیوں میں راج وردھن سنگھ راٹھور سامنے آئے۔ ان میں اسمرتی ایرانی، راٹھور اور بابل سپریوکو چھوٹی بڑی وزارتیں بھی ملیں۔ اب کی بار اس میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ سماج وادی پارٹی سے جیا پردا کو لے آنے میں پارٹی کامیاب رہی۔ گورکھ پور سے بھوج پوری فلموں کے اسٹار نرہوا کو سامنے لایا گیا ہے او ردھرمیندر کو آرام دیتے ہوئے ان کے صاحب زادے سنی دیول کو میدان میں اتار اگیا ہے۔ دلّی میں صوفی گایک اوراسٹار ہنس راج ہنس بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ دلّی سے کرکٹ کھلاڑی گوتم گمبھیر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار ہیں۔ مغربی بنگال میں امیدوار کی طرف داری میں روڈ شو کے دوران پہلوان کھلی بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے لیے مددگارنظر آئے۔ چھوٹے بڑے اور بہت سارے اور بھی فلم اسٹار ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے اپنا مستقبل روشن کرنے میں لگے ہوں گے۔

        بات صرف بھارتیہ جنتا پارٹی تک محدود نہیں ہے۔ ممبئی میں کانگریس نے ارمیلا ماٹونڈکر کو میدان میں اتارا ہے۔ جنوبی ہندستا ن میں طویل مدت سے مختلف پارٹیوں میں فلم اور ٹیلی ویژن کے بڑے کردا ر صوبائی اور قومی انتخابات میں شریک رہے ہیں اور چھوٹے عہدوں سے لے کر وزیرِ اعلا کی کرسی تک پہنچنے میں بار بار کامیاب ہو تے رہے ہیں۔ آخر ایم۔ جی۔ رام چندرن،کماری جے للتا، این۔ ٹی۔ راما راو یوں ہی پیدا نہیں ہو گئے۔

          بڑی سیاسی جماعتیں اگر ملک کے مختلف پیشہ وروں میں سے نمائندہ لوگوں کو چنتی ہے اور انھیں پارلیامنٹ تک پہنچانے میں کامیاب ہو تی ہے تو اس میں کون سی برائی ہے۔ آئین ساز اداروں میں پورے ملک کے ہر طبقے کی نمائندگی ہونی ہی چاہیے۔ مگر اتنی سنجیدہ غور و فکر کے بعد ان امید واروں کی شناخت نہیں کی جاتی ہیں۔ ایسی فہرستیں یہ واضح کرتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے پاس ان کا اسٹار ڈم گھٹ رہا ہے۔ سماج میں انھیں پہچاننے والے کم ہو گئے ہیں۔ اقبال پہلے ہی اس مرض کی پہچان کر چکے تھے:

کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے

کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوے دل نوازی

        غریب اور ان پڑھ لوگوں کے ملک میں فلمی چہروں کی بڑی قیمت ہے۔ چالس فی صدسے زیادہ چالس بر س سے کم عمر کے ووٹر ہیں،  ان کے لیے ایسے چہروں میں کشش فطری ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو عوامی استحصال کا خوب خوب سلیقہ آتا ہے۔ اس لیے ایسے امیدوار میدان میں لائے جاتے ہیں۔ ایک دوسری بات بھی سیاست دانوں کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔ یہ تمام کے تمام لوگ غیر تربیت یافتہ سیاست داں ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں سیاسی حصہ داری عطا کرنا ضروری نہیں ہو تا۔ انھیں وزیر بنا دو تب بھی کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہ ملک کے مسائل کی پیچیدگی سے ہی وا قف نہیں اور نہ وزارت کی مشکل ڈگر کو وہ سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے چہرا اسمرتی ایرانی ہو تی ہیں اور فیصلے ناگ پور یا کسی اور نمائندے کی طرف سے ہو تے ہیں۔ غلطی ہو جائے تو مذاق کا نشانہ یہ اسٹار بنتے ہیں اور کبھی کبھی وزارت بدل کو انھیں سزا بھی دے دی جاتی ہے۔

        پارلیامنٹ کے تئیں اس غیر سنجیدگی میں صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی کیوں مجرم بنائیں۔ پچھلے انتخاب میں راہل گاندھی کے خلاف اسمرتی ایرانی، یدان میں آئیں اور ہارنے کے باوجودکابینہ وزیر بنیں۔ بارہویں یا بی۔ اے کے متنازعہ ڈگری یافتہ وزیرِ تعلیم مقرر ہوئیں۔ یہاں ایک ساتھ دو طرح کی سیاست سامنے آئی۔ راہل گاندھی بھلے وزیرِ اعظم کا کانگریسی چہرہ ہوں مگر ان کے خلا ف سیاسی اعتبار سے نہایت معمولی کردار کو ہم سامنے لائیں گے۔ اسے اگر وہ ہرا دے تو سب سے اچھا مگر اسے ہارنے پر بھی ہم وہی اعزاز دیں گے۔ اسے اصطلاح میں مہملیت کا تصور کہتے ہیں۔ آپ کے اعتبار کو ہم ہر اعتبار سے چھوٹا کر کے رہیں گے۔ کبھی جواہر لال نہرو کے خلاف ڈاکٹر رام منوہر لوہیا امیدوار ہو تے تھے۔ پچھلی بار نریندر مودی کے خلاف اروندر کجری وال میدان میں آئے۔ پریس اور عوام میں بنارس کا انتخاب کچھ قومی رنگ میں سامنے آگیا تھا۔ اس بار پرینکا گاندھی نے اپنی خواہش ظاہر کی تو لوگوں کو یہ اچھا لگنے لگا کہ مقابلہ جیسا بھی ہو مگر تماشا خوب ہوگا اور کھیل کا پیسہ وصول ہو گا۔ مگر کانگریس کی بزدلی سامنے آئی اور پچھلے انتخاب میں جس امید وار کو پچاس ساٹھ ہزار ووٹ ہی  ملے تھے، اسے پھر سے میدان میں پیش کر دیا۔ وہ پہلے ہی دن سے ہارا ہو ا کھلاڑی ہے۔ لکھنؤ میں ہندستان کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کے خلا ف سماج وادی پارٹی کی طرف سے شتروگھن سنہا کی اہلیہ پونم سنہا میدان میں موجود ہیں۔ نہ سیاست کا تجربہ اور نہ ہی ووٹروں کے بیچ کوئی پہچان۔ مطلب یہ کہ مقابلہ کہاں کہاں اور کس سے کرنا ہے؛معیار اور سطح کے امور کس طرح سے حل ہوں، ان سب باتوں کو کسی سیاسی جماعت کو سوچنا ہی نہیں ہے۔ ایک سلسلہ ہے بہت سارے امیدوار کھڑے کر دئے جائیں،  ان کے معیار، سماجی اعتبار سے افادیت کے ساتھ ساتھ قانون ساز ادارے میں ان کی شرکت جیسے معاملات کے بارے میں کسی کو ایک ذرا فکر نہیں ہے۔

        راجیو گاندھی نے کچھ نئے انداز کے امیدواروں کو پارلیامنٹ تک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ ادیبو ں، شاعروں،  سائنسدانوں اور الگ الگ میدان کے ماہرین کو کانگریس نے ۱۹۸۴ء میں ٹکٹ دیا تھا۔ آج کے مشہور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہ نما ڈاکٹر سی۔ پی۔ ٹھاکر  اسی دوران پہلی بار کانگریس کے ٹکٹ پر پارلیامنٹ پہنچے تھے۔ راجا رمنااور مینن جیسے سائنس داں وزیر بنے تھے۔ کانگریس نے کبھی نرگس اور سنیل دت کو منتخب کیا تھا۔ آخری دور میں توسنیل دت باضابطہ طور پر سیاست داں نظر آتے تھے اور وزارت کے دور میں وہ نہایت موثر قائد بن کر ابھرے۔ مگر یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھا۔ عالم کاری کے جبر میں دھیرے دھیرے سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی میں یکسانیت آنے لگی۔ من موہن سنگھ کی دس سالہ وزارت میں بڑے صنعت کا روں کا  بے شک بول بالا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ نریندر مودی نے اس زوال میں رفتار ڈال دی۔ اب حکومت کی پالیسیاں حقیقت میں کارپوریٹ گھرانے اور امبانی اڈانی جیسے کردار متعین کرتے ہیں۔ جہاں جہاں ان کا فائدہ ہوگا، وہی کا م کیے جائیں گے۔ رافیل کے معاملے میں یہ جگ ظاہر ہو گیا۔ اب سیاسی بصیرت، سماج کے آخری آدمی کے دکھ درد کو سمجھنا، غربت اور بے روزگاری سے لڑ کر ملک کا ایک نیا چہرا  تلاش کرنایا زراعت کی جدید کاری سے نیا ماحول اور خود کفیل ہندستا ن کے خواب دیکھنا کتابوں میں لکھی گئیں ایسی باتیں ہیں جنھیں پتا نہیں کون پڑھے گا۔ ہر سیاسی جماعت کے انتخابی منشور آپ جمع کر لیجیے، پانچ برس کے بعدخود انھیں بھی یاد نہیں رہتا کہ انھوں نے پچھلے موسم میں کیسے پھول کھلانے کے وعدے کیے تھے۔ یعنی ہر بار ایک نیا جھوٹ کہہ دینا ہے اور انتخابات کے بعد پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ جب تک اس ملک میں ہر سیاسی جماعت کے اندر سوچنے سمجھنے والی ذمہ دار نئی قیادتیں نہیں ابھریں گی، تب تک الکشن ایک میکانیکی عمل ہی رہے گا اور ہمارے خواب یوں ہی تشنۂ تعبیر رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کے سامنے عوا م کی طرف سے اب ایسے سوالات بھی سامنے آنے لگے ہیں کہ کیااب کارپوریٹ دفتروں سے ہی ہماری سرکاریں بھی چلنے لگیں گی؟ تب آئین، پارلیامنٹ اور جدّ و جہد آزادی کے اصول و ضوابط کیا معنی رکھتے ہیں ؟ یہ ایک طرح سے نئی غلامی کے خطرے ہیں جو فصیلِ وقت سے ہمیں آواز دے رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔