اناڑی لوگوں کے ہاتھ میں بہار کا تعلیمی نظام !

صفدر امام قادری

سعادت حسن منٹو کی ایک مشہور کہانی نیا قانون یاد آتی ہے جس میں کہانی کا مرکزی کرداراس بات سے بہت خوش ہے کہ ملک میں نیا قانون آچکا ہے اور سارے حالات بدل چکے ہیں مگر کہانی کے کلائی میکس پر جب منگو کوچوان کو تھپڑ رسید ہوتے ہوئے یہ سننے کو ملتا ہے کہ نیا قانون نیا قانون کیا بکتے ہو، قانون وہی ہے پراناتو پڑھنے والے کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔ انتظامیہ میں برائی کی جڑیں اتنی گہری ہوتی ہیں جنھیں اوسط خوداعتمادی اور ظاہری تبدیلیوں سے آسانی کے ساتھ بدلا نہیں جا سکتا۔ گزشتہ برس بہار کے انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ میں طرح طرح کی دھاندلی پکڑی گئی اور بہار انٹر میڈیٹ ایجوکیشن کا ؤ نسل کے صدر، سکریٹری اور مختلف کالجوں ، اسکولوں کے پرنسپل ، سکریٹری جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچے۔ کتنے معصوم نونِہالوں اور ان کے سرپرستوں کو بھی جیل کی چہاردیواری پہنچانے کا معاملہ سامنے آیا۔جلدی جلدی میں کاؤنسل کے چیر مین کی برخواستگی ہوئی اور پٹنہ کے کمیشنرجناب آنند کشور کو اضافی ذمّے داری دیتے ہوئے بہار اسکول اگزامنیشن بورڈ کا چیر میں بنایا گیا جس کے زیرِ انتظام دسویں اور بارہویں کے تیس لاکھ سے زیادہ بچّوں کے امتحانات اور نتائج دینا سب سے بڑا ٹاسک ہے۔

  گزشتہ برس ہی اس بات کا اظہار سب کی زبان پر تھا کہ ان امتحانات میں مافیاؤں کا دخل کافی زیادہ ہے اور امتحان اور کاپیوں کی جانچ کے مراکز خریدنے بیچنے کا رجحان کوئی تازہ واقعہ نہیں یہ برسوں سے قائم ہے۔یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ایسے عناصر کی پُشت پناہی بڑے بڑے لوگ فرماتے ہیں اور من چاہے فائدے کا حصّہ بنتے ہیں ۔ پچھلے امتحان کے گھوٹالے کی جانچ اب تک چل رہی ہے اور درجنوں مرکزی کرداروں کی گرفتاری سامنے آچکی ہے مگر اس نئے موسم میں پھر سے ایسے مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔

 ابھی تازہ واقعہ یہی ہے کہ 30مئی کو بہار کے انٹر میڈیٹ امتحانات کے نتائج نکلے جس میں تقریباً آٹھ لاکھ بچّے فیل قرار دیے گیے۔ آرٹس، سائنس اور کامرس میں دس دس ٹاپروں کی لسٹ جاری کی گئی۔65فی صد طَلبا کے فیل ہو جانے کے سبب کو اسکول اگزامنیشن بورڈ کے چیر مین اور بہار کے وزیرِ تعلیم نے اتنے سَر سَری انداز سے بیان کیا کہ کسی کو بھی حیرت ہوئی ہوگی۔ دونوں نے اپنی پیٹھ تھپ تھپائی کہ امتحان سختی سے لیا گیا اس لیے رزلٹ خراب ہوگیا۔بلکہ نقطۂ نظر تو یہ تھا کہ بچّوں کو سبق سکھانے کے لیے ایسا کیا گیا۔ایسے نتائج اس وقت آئے جب ایک سال سے نئے نظام کے تحت آئی ایس انتظامیہ نے تمام امتحانات کی ذمّے داری لے رکھی ہے۔

  جیسے ہی اس سال کی ٹاپر لسٹ جاری ہوئی، ہنگامہ کھڑا ہونے لگا کہ آرٹس کے ٹاپر سے جب موسیقی سے متعلق بنیادی نوعیت کے سوالات کیے گئے تو وہ جواب دینے سے قاصر رہا۔ میڈیا میں تفصیل آئی تو بورڈ کے چیر مین نے اس حقیقت سے انکار کیا کہ کہیں کوئی گڑبڑی ہو ئی ہے یا غیر مستحق افراد ٹاپر بن گئے۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ آرٹس کے ٹاپر گنیش کو ہی اعزازوانعامات سے نوازا جائے مگر اگلے ہی روز اس ٹاپر کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ اور گرفتاری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس نے اپنی عمر چھپائی ۔ 1990 میں یہ اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور بہار بورڈ نے اسے سرٹی فیکیٹ عطا کیا تھا ۔ اس کی حقیقی عمر 42برس ہے مگر اس نے 24 برس عمر دکھا کر ٹاپر بننے کی سر فرازی حاصل کی۔حالانکہ ابھی بھی بورڈ کے چیر مین یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس طالبِ علم کی کاپیاں درست ہیں اور اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں ۔ ایک دن میں ہی یہ بھی جواز پیش کردیا گیا کہ ماہرین سے دوبارہ اس کی کاپیاں دکھا دی گئیں اور یہ ثابت ہو گیا کہ اس طالب علم نے خود سے کا پیاں لکھی ہیں ہمیں یقین ہے کہ دوچار دن گزرنے کے بعد کچھ اور بھی ایسے نئے اکتشافات ہونگے اور بورڈ کے سربراہان دو دو قدم پیچھے ہٹتے جا ئیں گے۔ بلآخر یہ ثابت ہو جائے گا کہ قانون اسی پرانے انداز سے چل رہا ہے اورمافیاؤں کی گرفت ہرگز کمزور نہیں ہوئی ہے۔

 بنیادی سوال یہ ہے کہ آٹھ لاکھ بچے کس طرح فیل ہوئے کیا وہ فیل ہوئے یا فیل کرائے گئے۔ان بچوں نے پہلی جماعت سے دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات دیے اور سال در سال وہ کامیاب ہوتے گئے۔ ہر اسکول میں ان کے داخلی امتحانات ہوئے پھر سنٹ اپ امتحانات بھی لیے گئے ان تمام امتحانات کے بعد وہ بورڈ کا امتحان دینے کے لیے مجاز کیے گئے۔سنٹ اَپ امتحان کا رزلٹ تو خود بہار اگزامنیشن بورڈ جانچ کر اتی ہے تب کوئی طالبِ علم امتحان دینے کی اجازت پاتا ہے۔ بارہ برس کی تعلیم لاکھوں اساتزہ اور ہزاروں انتظام کاروں کی نگرانی میں جو نظام چل رہا ہے اس میں 65فی صد طالبِ علم کیسے فیل کر سکتا ہے۔ تین مہینے پہلے جو سنٹ اپ امتحان ہوا اس میں وہ بچہ پاس ہے تو کیا آٹھ لاکھ بچے نے امتحان میں ایسی کوتا ہی کی کہ وہ تعلیمی معیار سے دور جا بسے اور اوندھے منہ گر گئے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نیچے سے اوپر کوئی مشینی انتظام ہے جسے تعلیم کے معیار کی صرف رپورٹ تیار کرنی ہے او ما لی خُرد بُرد کے علاوہ کسی بنیادی ذمّے داری کو قبول نہیں کرتے۔

ایک بڑا سوال کاپیوں کی جانچ سے متعلق ہے بارہ برس کی تعلیم کا نتیجہ چند صفحات کی کاپی میں لکھے حروف سے سامنے آتا ہے۔ اس بار کی انٹر میڈیٹ کی کاپیاں بہار اسکول ایجوکیشن بورڈ نے پرائمری ، ہائی اسکول کے اساتذہ کے ذریعے جانچ کرائیں ۔ اساتذہ کا یہ وہ طبقہ ہے جسے قانونی طَور پر اپنے سے اوپر کی سطح کی کاپیوں کی جانچ کا کوئی اختیار نہیں ۔ یہ اصول بنا ہوا ہے کہ ایک استاد ایک دن میں تیس سے زیادہ کاپیوں کی جانچ نہیں کرے گا مگر یہ سب کو معلوم ہے کہ ایک دن میں سَو ڈیڑھ سَو کا پیوں کی جانچ کرائی گئی ۔ بورڈ کے چیر مین کا صرف ایک مقصد تھا کہ ہم رزلٹ وقت سے نکا لیں گے۔ بچوں کے فیل ہونے کی وجہ کہیں غلط اساتذہ سے کاپیوں کی جانچ تو نہیں ؟ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کاپیوں کی جانچ کے لیے اساتذہ کو اجازت دے دینے کی وجہ سے بھی یہ نتیجہ سامنے آیا ہو۔ اس بات کی بھی پَکّی خبر ہے کہ کاپیوں کی جانچ کے مرحلے میں اسکول کے اساتذہ پراس بات کے لیے دباؤ بنا یا گیا کہ وہ سختی سے کاپیوں کی جانچ کریں ورنہ ان پر بھی سخت کاروائی ہوگی۔

آگے یہ کھیل ہوگا کہ جن اسکولوں کا رزلٹ خراب ہوا ان کے اساتذہ پر کاروائی ہوگی ان کے پرنسپل پکڑے جائیں ۔ سوال سیدھا سا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں وزیرِ تعلیم اور بہار بورڈ کے چیر مین کون ساکام کررہے تھے ؟ کیا 65فی صد بچوں کو نا کامیاب کر کے سڑک پر پہنچا دینے کی انھیں ذمّے داری دی گئی تھی۔ کیا بہار کے نظامِ تعلیم کو بلند کرنے کی کوئی ذمّے داری انھیں نہیں دی گئی تھی؟بہار میں حکومت اور انتظامیہ نے تعلیم کے کاموں کو چور سپاہی کا کام سمجھ لیاہے۔ ہر آدمی کی نظر میں دوسرے کو بے ایمان ثاپت کرنے کا ایک نشانہ ہے لیکن یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہر نیا آنے والا پچھلے سے زیادہ بالآخر مالی خُرد بُرد ثابت ہوتا ہے۔ بہار کے وزیرِ اعلی کی ایک الگ طرح کی خوبی ہے کہ ان کے پسندیدہ لوگ گھوٹالے کرتے رہتے ہیں جب کبھی ان کی برائی عام ہوجاتی ہے تو وہ انھیں جیل کا راستہ دکھا کر پھر ایک نئے پسندیدہ کردا ر کے ساتھ سرگرم ہوجاتے ہیں ۔ بڑی بڑی چوریوں میں چاہے افسرع ہوں یا کسی دوسرے شعبے کے افراد، سب کے سب وزیرِ اعلی کے کبھی نہ کبھی چہیتے ہی رہے۔

 دس طرح کی کمیٹیاں بنتی ہیں اور ان میں نا اہل امید وار سامنے آتے ہیں ۔ ہائی کورٹ کبھی ہٹا دیتی ہے اور کبھی حیات مُستعار پر جلا ئے رکھتی ہے ان تمام مرحلوں میں طالبِ علم کی کائی پُرسانِ حال نہیں ۔ آپ بے روزگار ہوں سڑکوں پر گھومتے رہیے ما فیا آپ کی ملازمت لوٹ لیں گے تو بچے پڑھیں گے اور جی جان لگا ئیں گے مگر انھیں حکومت کا انتظامِ کار فیل کرا دے گا اور نا اہل بنا دے گا اور زلیل ورسوا کرا دے گا۔اسکول اور کالجوں میں پچاس فی صدی اسکولوں کی امارتیں نہیں ۔ سرکار نے اپنے فنڈ سے ایک اسکول اور کالج نہیں بنایا اور اس پرسیاست کا نیا اصول گڑھنے اور صاف ستھرے انظام کار ہونے کا غرور ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج کسے کہتے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔