انتقام اور نفرت کی ایسی بارش نہ کرو کہ ہندوستانیوں کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے

مشرّف عالم ذوقی

ہر دن تیزاب کی جھلسا دینے والی بارش کے باوجود ایک اچھے دن کا انتظار۔ رات ہوتے ہی امیدیں ایسے دفن ہوتی ہیں ، جیسے اچھے دنوں کا انتظار ہی فضول ہو۔ پھر ایک نیی صبح۔ سیاسی میزائلوں کا رقص اور مرتا ہوا ہندوستان۔ ۔ اچھے دنوں کا انتظار لہولہان، اور خوفزدہ کرنے والی حقیقت کے ساتھ آزادی، ہمہ آہنگی اور جمہوریت کے جذبے کو روندتا ہوا ہمیں اپاہج، سرد اور بے جان لاش میں تبدیل کر رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں موجودہ سیاست کا ہر حربہ ایک ڈراونا خواب ثابت ہو رہا ہے۔

آج ہیں خاموش وہ دشتِ جُنوں پروَر جہاں
رقص میں لیلیٰ رہی، لیلیٰ کے دیوانے رہے
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

کارواں لٹ چکا۔ نشانیاں ختم کی جا رہی ہیں ۔ تھذیبی اور قومی شناخت پر حملہ ہمیں غیر محفوظ بنا رہا ہے۔  مودی صاحب نے چین سے واپس لوٹنے کے بعد ہندوستان کی سو نشانیوں میں سے سے ایک لال قلعہ کو پانچ برسوں کے لئے ڈالمیا کے ہاتھوں بیچ دیا یا لیز پر چڑھا دیا۔ یہاں لیز پر چڑھانے سے زیادہ صحیح لفظ بیچ دینا ہے۔ کیونکہ تاج محل، لال قلعہ یا قطب مینار کسی معمولی زمین کا کویی ایسا ٹکڑا نہیں ہے جسے کویی بھی حکومت ایک سو چالیس کروڑ عوام کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیچنے یا لیز پر چڑھانے کا تصور بھی کر سکے –یہ مرکز کی نہیں، ملک ہندوستان کی وراثت ہے۔ ۔ یہ کسی سرکار کی نہیں عوام کی وراثت ہے۔ اس کا سودا کرنا، مودی جی کی زبان میں ایک ماں کا سودا کرنا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل مودی اپنی ہر جذباتی تقریر میں یہ اشارہ دیا کرتے تھے کہ میں ملک کو جھکنے نہیں دونگا۔ اس خوفناک حادثے کے بعد پورا ملک خود کو یتیم محسوس کر رہا ہے۔ ایک وراثت لیز پر نہیں چڑھی، ہندوستانیوں کی غیرت اور عزت کو لیز پر چڑھ دیا گیا ہے۔  ایک زمانہ تھا جب ملک کو غلام بناتے ہوئے انگریزی حکومت نے لال قلعہ کی فصیلوں پر یونین جیک کو لہرایا تھا۔ آزادی ملتے ہی یونین جیک یعنی غلام ہندوستان کی نشانی کو اتار پھیکا گیا اور اسکی جگہ آزاد ہندوستان کے ترنگے نے لے لی۔ اور اس طرح لال قلعہ کی فصیل آزاد ہندوستان کی مضبوط علامت بن گیی — ایک ایسی علامت، جہاں ستر برسوں کی تاریخ میں جشن آزادی کی تقریبات میں لال قلعہ کی فصیلیں ملک کے وقار اور سلامتی کے لئے ڈھال بن کر ہندوستانی عوام کا حوصلہ بڑھاتی رہیں ۔ کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا ؟ کیا اس کے پیچھے بھی ٢٠١٩ کا انتخاب ہے ؟ کیا اس کو لیز پر چڑھانے کا منشا یہ ہے کہ ہم مغلوں کی وراثت سے مغلوں کا نام ہٹانے کی جرات کر رہے ہیں ۔ اور ہندوستان کی اکثریت اس اشارے کو سمجھ کر خوش ہوگی ؟ ایک معمولی سڑک کا ٹینڈر بھی پاس ہوتا ہے تو بولی پچیس کروڑ سے زیادہ کی لگتی ہے۔

کیا لال قلعہ یا تاج محل کی عظمت کی دھجیاں بکھیرنے کے لئے، معمولی سودے کے ذریعہ یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ ہم اسی طرح ہندوستان کی تمام نشانیوں کو جو مغلوں یا مسلمانوں سے وابستہ ہیں ، ملیا میٹ کر دینگے۔ ساری دنیا جن نشانیوں کو مسلمانوں یا مغلوں کے نام سے جانتی ہے، کیا اب ان نشانیوں کو ڈالمیا اینڈ کمپنی یا مودی اور امت شاہ کی پسنددیدہ کمپنیوں کے نام سے جانا جائے گا ؟ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا دنیا کی کویی حکومت بھی اپنے ملک کی قدیم وراثت کو فروخت کرنےیا تھذیبی وراثت کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کر سکتی ہے ؟یہ نفرت اور انتقام کی اب تک کی کہانی کا سب سے قاتل صفحہ ہے، کہ اگر اس عمل کے خلاف اپازیشن متحد نہیں ہوئی تو مسقبل میں تاج محل اور تمام نشانیوں کے ساتھ ملک ہندوستان کا بھی سستا سودا کر لیا جائے گا اور کویی بھی پرسان حال نہ ہوگا۔  یہ بڑھتے فسطائی قدم اپازیشن کو بھی ملیامیٹ کر دینگے۔ ۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی کے بعد کا منظر نامہ یہ تھا کہ ایک درجن سے زاید کاروباری ہزاروں لاکھوں کروڑ غبن کر کے ملک سے چمپت ہو گئے۔ کیا ملک کی معیشت پر اہے بوجھ کو پچیس کروڑ کی معمولی رقم کویی سہارا دے سکتی ہے، تو یہ ہزار سفید جھوٹوں میں سے ایک ہوگا اور اب یہ حکومت سچ کہاں بولتی ہے۔

بچپن کے دنوں کی بات ہے۔ ایک بایسکوپ والا دروازے پر آ کر زور زور سے صد لگاتا تھا۔ دس پیسے میں ملک خریدو۔ ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اس پاس ہم تمام بچے جمع ہو جاتے۔ ۔ پھر وہ تماشا دکھاتا ہوا گنگنایا کرتا۔  دلی کا قطب مینار دیکھو۔۔ آگرے کا تاج محل دیکھو۔ ۔ لال قلعہ کی شان دیکھو۔ ہم پوچھتے کہ ملک خریدو کا کیا مطلب ہے تو وہ زور سے قہقہہ لگاتا کہتا۔ ۔ ببوا۔ ۔ دس پیسے میں سارا ملک تم کو بیچ دیا۔ اب کا چاہتے ہو۔ ۔ ؟بایسکوپ والا ملک بیچنے کا مطلب نہیں جانتا تھا۔ لیکن اس بات سے واقف تھا، کہ ہندوستان کا مطلب ایک ایسا ملک ہے جہاں لال قلعہ ہے، تاج محل ہے، قطب مینار ہے۔ یہ بات چھوٹے چھوٹے بچوں سے لے کر پورا ملک جانتا ہے کہ یہ عمارتیں ملک ہندوستان کی شناخت ہیں ۔ کسی غیر ملکی کے ذہن میں ہندوستان کا تصور ابھرتا ہے تو سب سے پہلے ان کے ذہن میں یہ نشانیاں ابھرتی ہیں ۔ نفرت کی خوفناک مہم کے باوجود ہر ہندوستانی کے دل میں بھی جب ملک کا خاکہ ابھرتا ہے تو لال قلعہ اور تاج محل کی یاد سب سے پہلے آتی ہے۔

یہ رہی مذاق کی بات۔ ۔ جب ہم کسی حکمران پر ناراض ہوتے ہیں تو یہ کہنا نہیں بھولتے کہ یہ شخص ملک کو بیچ کھاے گا۔ اس جملے کی ادایگی کے باوجود یہ یقین کرنا مشکل ہوتا تھا کہ کویی حکمران ہمارے ملک کی بھی بولی لگا سکتا ہے۔ لیکن بولی لگ گیی۔ ۔ میڈیا اپازیشن کے تمام اعتراضات کو دھونے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔

مودی حکومت جانتی ہے کہ اس کے فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ یہ پہلا سودا ہے۔ ابھی کیی سودے ہونے باقی ہیں۔

لال قلعہ کے بعد نمبر تاج محل کا ہے۔ کافی عرصہ پہلے ہندی ادیب اجے شکلا نے ایک ڈرامہ لکھا کتھا۔  تاج محل کا ٹینڈر۔ ۔ ڈرامہ کا مرکزی خیال آج کی سیاست سے کافی قربت رکھتا ہے۔ مغل شہنشاہ شاہجہان تاریخ کے فریم سے باہر نکل کر اچانک آج کی دلی میں پہنچ جاتے ہیں ۔ اور اپنی بیگم کی یاد میں تاج محل بنوانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں ۔ ڈرامہ میں بادشاہ کے علاوہ، تمام ساری سرکاری مشینری، بیوروکریسی، نام نہاد لیڈر، قسم-قسم کےچاپلوس اس مہم میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ اور ایک ایک فائل برسوں تک سرکاری گودام میں دبی رہ جاتی ہے۔ پچاس سال گزر چکے ہیں ۔ بادشاہ آخر کار دنیا کو الوداع کہہ دیتے ہیں مگر تاج محل کا بننا خواب رہ جاتا ہے۔ ۔ لوہے کے ٹکڑوں سے سردار پٹیل کی آدم قد مورتی بنوانے والے مودی کو کہاں علم ہے کہ تاج محل دوبارہ آج کی تاریخ میں نہیں بن سکتا۔ ۔ محبت کی یہ نشانی ساری دنیا میں ہندوستان کی پہچان بن چکی ہے۔ مشہور ڈائریکٹر شاد علی، مظفر علی کے بیٹے کی فلم بنٹی اور ببلی میں ، یہ دونوں ٹھگ کردار تاج محل کو ایک غیر ملکی کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں ۔ ۔ عجیب اتفاق ہے کہ چین کے دورہ کے بعد ہی پرائم منسٹر کو لال قلعہ بیچنے کا خیال آیا۔ ۔ یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ہزار ہزار لاکھ لاکھ کروڑ ملک سے لے کر فرار ہونے والوں کے درمیاں پچیس کروڑ رقم کی اوقات کیا ہے کہ پرائم منسٹر کو یہ سودا منظور کرنا پڑا۔ ۔ چار برس میں نو سو پچانوے کروڑ خرچ کرنے کے بعد سردار پٹیل کی مورتی ابھی صرف گھٹنے تک تیار ہو سکی ہے۔ اور کہا جا رہا ہے کہ ابھی اس سے زیادہ رقم کا خرچ ہونا باقی ہے۔ ہم ایک طرف آزادی اور محبت کی یادگار کا سودا کر رہے ہیں اور ہزار کروڑ سے زاید کی رقم اگر بھگوا منصوبوں پر خرچ کر رہے ہیں تو یہ ملک کے ساتھ دھوکہ ہے۔

ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جب ظلم و بربریت کے ہر صفحے پر برہمن وادی نظریہ کی خوفناک آندھی سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔ ظلم سے گھبرا کر گجرات کے مظلوم دلتوں کو بوده مذھب قبول کرنا پڑتا ہے۔ ظلم و زیادتی سے گھبرایے اونا کے دلتوں کو روز روز گاؤ رکشکوں کا حملہ گوارا نہ تھا۔ مدھیہ پردیش میں کانسٹبل تقرری کے موقع پر جب صحت کی جانچ ہوئی تو دلتوں کے ننگے سینے پر دلت ہونے کی ظالمانہ مہر لگایی گیی۔ یہ زمانۂ قدیم میں برہمنوں کا شیوہ تھا۔ یہ دور اپنی تمام سفاکیت اور بر بریت کے ساتھ لوٹ آیا ہے۔ اس دور میں ، اس سیاسی نظام میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ہم تھذیبی و قومی وراثت کے ساتھ ہندوستان کو بھی لٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔