انجام گلستاں کیا ہوگا؟

حفیظ نعمانی

دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں جمہوریت کے تحفظ پر منعقد ہونے والی معروف تنظیم ’’سب کا بھارت‘‘ میں سی پی آئی لیڈر وِرَندہ کرات نے کہا کہ میں صاف صاف کہہ رہی ہوں کہ ملک کی جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ آر ایس ایس اور بی جے پی سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین پر جن لوگوں کو بھروسہ نہیں ہے ان کے ہاتھ میں آج حکومت آگئی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ آج جمہوریت کے ستون ٹوٹ رہے ہیں اور بکھر رہے ہیں ۔ آج ہم ان لوگوں سے آئین کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جنہوں نے کبھی آئین کو مانا ہی نہیں ۔ ورندا کرات نے کہا کہ عوام کا عدلیہ پر یقین تھا۔ افسوس ہے کہ آج اس پر بھی یقین نہیں کیا جاسکتا۔

اگر مودی جی کی تین برس کی حکومت کا جائزہ لیا جائے تو جو چیز سب سے زیادہ واضح نظر آئے گی وہ آمریت ہے۔ وزیراعظم بننے کی جدوجہد اور وزیر اعظم بننے کے بعد حکومت میں ان کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ مودی جی جو چاہے کہیں لیکن پورے ملک کو یقین ہے کہ نوٹ بندی کا ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ ان کے وزیراعظم بننے کے وقت جو دنیا کا مشہور ماہر معاشیات، ملک کے ریزرو بینک کا گورنر تھا اُسے صرف اس لئے جانے پر مجبور کرایا کہ وہ آنکھ بند کرکے مودی کی بات ماننے پر تیار نہیں تھا اور مودی جی جس پٹیل کو گجرات سے نکال کر لائے اس نے بھی مجبور ہوکر کہہ دیا کہ وہ نوٹ بندی کے حق میں نہیں تھا۔ اور دس مہینے ہوچکے ہیں آج بھی نوٹ بندی کے مارے ہوئے سیدھے نہیں ہوئے ہیں اور اب تک جو ملک میں شور نہیں ہوا تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہندو ہر نقصان کو یہ سوچ کر برداشت کررہا تھا کہ حکومت تو اپنی ہے اور اب جی ایس ٹی کا خنجر اتنا گہرا لگا ہے کہ ہر ہندو چیخ پڑا کہ اپنی حکومت اگر ایسی ہوتی ہے تو یہ موہن بھاگوت اور مودی کو مبارک ہو۔

مودی جی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ عقل صرف ان کے پاس ہے اور ان کی وزارت اور پارٹی میں سب گدھے ہیں ۔ جس وقت جی ایس ٹی کا فیصلہ مودی جی نے کرلیا تو ایک پرانے اور ان سے زیادہ منجھے ہوئے سبرامنیم سوامی نے کہا تھا کہ یہ جی ایس ٹی مودی جی کے لئے واٹر لو ثابت ہوگا۔ اور ان کی بات حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔ نوٹ بندی کے تیسرے دن این ڈی ٹی وی روش کمار غازی آباد کے ایک بہت بڑی فیکٹری میں گئے جس کے درودیوار پر مردنی برس رہی تھی۔ مالک نے بتایا کہ یہ کارخانہ چوبیس گھنٹے چلتا تھا اور سو آدمی کام کرتے تھے۔ اب پانچ کام سمیٹنے کا کام کرنے کے لئے روک لئے ہیں ۔ اتنے میں ہی آس پاس کے بہت سے کارخانے والے آگئے اور انہوں نے اپنی اپنی کہانی سنائی۔ جس کا حاصل یہ تھا کہ صرف غازی آباد سے 50  ہزار مزدور بیکار ہوگئے۔

کل ایک گودام میں ایک رپورٹر گیا تو مالک نے اسے بتایا کہ ہم تو کام بند کرنے جارہے ہیں ۔ کیونکہ ہم ابھی نوٹ بندی سے ہی سیدھے نہیں ہوئے تھے کہ جی ایس ٹی کی مار پڑگئی۔ اب خریدار ٹیکس دینے پر تیار نہیں اور حکومت تلوار لئے بیٹھی ہے کہ 18  فیصدی لائو۔ اتنے میں ہی آس پاس کے دوسرے کاروباری آگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو لکھ دیا ہے کہ پہلے ہمیں نوٹ بندی کے سال بھر کے نقصان کو پورا کرنے کیلئے چار فیصدی سود پر بینک سے قرض دلائے اس کے بعد جی ایس ٹی کی بات کیجئے۔ ایسی حالت میں کوئی کاروبار نہیں کرسکتا۔ جس گودام یا آفس میں رپورٹر گیا تھا انہوں نے کہا کہ یہاں پچاس آدمی کام کرتے تھے اب صرف بیس رہ گئے ہیں تیس آدمیوں کو مجبور ہوکر ہٹا دیا ہے۔

کل ہی دہلی کی دال منڈی میں ٹی وی رپورٹر گیا تو سادہ بوروں میں دال بھری تھی۔ کہیں کہیں چھپے ہوئے بورے بھی تھے۔ آڑھتی نے بتایا کہ اگر بوروں پر ہاتھی بنا ہو تو وہ ہاتھی چھاپ برانڈ مانا جائے گا اور اس پر پانچ فیصد ٹیکس لگے گا۔ اب ہم صرف دال بیچ رہے ہیں ہاتھی گھوڑا چھاپ نہیں ۔ بجلی کے سامان کی مارکیٹ کا بھی ہر دکاندار رو رہا تھا کہ 28  فیصدی جی ایس ٹی اگر مانگیں تو گاہک واپس چلا جاتا ہے۔ اور سب سے دلچسپ منظر کباڑی بازار کا ہے جہاں وزیروں کے گھر کا کوڑا ڈھیر ہے اور اس پر 18  فیصدی جی ایس ٹی ہے۔ ایک کباڑی نے پھٹا جوتا دکھایا کہ یہ اگر نیا ہے تو اس پر پانچ فیصدی ہے اب یہ ناکارہ ہے تو 18  فیصدی ٹیکس کا ہوگیا۔

جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ ووٹ لیا جائے اور دیا جائے جمہوریت یہ ہے کہ ہر کام مشورہ کے بعد سب کی رائے یا اکثریت کی رائے سے کیا جائے مودی جی جس قسم کے آدمی ہیں ان کے ہاں جمہوریت بے وقوفی ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ ملک میں کروڑوں انسان بیکار ہوگئے وہ انسان جو آٹھ نومبر 2016 ء سے پہلے کام سے لگے تھے۔ مودی جی نے جو کچھ گوا اور منی پور میں کیا کیا وہ جمہوریت تھی؟ جمہوریت دھوکہ، فریب اور پیسے کے بل پر حکومت خریدنے اور وہ ایم ایل سی یا ایم ایل اے خریدنے کا نام نہیں ہے۔ جمہوریت تو یہ ہے کہ آپ عوام سے اپنی بات کہہ دیں دوسرا اپنی بات کہہ دے اور جو نتیجہ آئے اسے بے چوں و چرا مان لیا جائے۔

اب مودی جی نے امت شاہ کو 350  پارلیمنٹ کی سیٹیں جیتنے کا منتر دیا ہے اگر مقصد حکومت ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ لیکن مقصد ملک کے دستور کو دو تہائی اکثریت سے بدلنا ہے۔ مودی جی نے اگر اپنے اقتدار کے زمانہ میں ملک کو ترقی دی ہوتی، مہنگائی پر قابو پایا ہوتا، دو کروڑ سالانہ نوکریاں دینے کا وعدہ کرکے دو لاکھ ہی دے دی ہوتیں ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کی تھوڑی سی بھی عزت بڑھائی ہوتی ملک میں ایک فیصدی کی بھی غریبی دور ہوتی، مزدور اور کسان کے لئے کوئی ایک بھی کامیاب اسکیم بنائی ہوتی تو ہم بھی لکھتے کہ اب مودی کو ہی دس برس اور حکومت کرنے دو۔ لیکن کسان کے قرض کی معافی میں اس کے ساتھ مذاق اور فصل کی بیمہ اسکیم میں کسان کو چار روپئے اور 17  روپئے کی ادائیگی چار ہزار روپئے بیگھہ لگاکر آلو پیدا کرکے ان کو سڑکوں پر اگر کسان پھینکے اور اس کی پیاز سرکار دو روپئے کلو خریدکر اپنے جمع خوروں سے 50  روپئے کلو بکوائے تو ہر ہندوستانی کا فرض ہوجائے گا کہ ملک کو نریندر مودی کی مار سے بچائے۔

جی ایس ٹی کی مار ہمارے بیٹے بھی جھیل رہے ہیں اور نواسے بھی اور جو حکومت کا حصہ بنتا ہے وہ جمع بھی کررہے ہیں ۔ اب بڑے بیوپاریوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کاروبار کرنے والوں نے جو ٹیکس کا روپیہ گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کردیا وہ تو بلاک ہوگیا۔ اب وہ کب واپس ملے گا؟ اور اگر فوراً نہیں ملا تو کتنے سود کے ساتھ ملے گا اور کاروباری اپنے سرمایہ کا 40  فیصدی گورنمنٹ کو دے کر آگے کیسے کام کرے؟ جن تجربہ کاروں سے اس سلسلے میں بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کا ڈھانچہ چرمراکر بیٹھ گیا ہے اور وہ پوری طرح فیل ہوگیا۔ اگر کاروباری مہینے میں تین بار ٹیکس جمع کرتا ہے اور حکومت واپس نہ کرے یا ایماندار اور بے ایمان کی چھلنی میں چھانتی رہے تو 6 مہینے میں ہر کاروباری کا دیوالہ نکل جائے گا۔ یہ تجربہ ہر آدمی کو ہے کہ حکومت کو دینا کتنا آسان ہے اور اس سے لینا کتنا مشکل ہے؟ اور یہی وہ وقت ہے جس میں مودی مودی کی مالا جپنے والا ہر ہندو سرمایہ دار مارو مارو کا نعرہ لگاتا ہوا میدان میں آئے گا کیونکہ اپنی دولت کے مقابلہ میں کیسے مودی اور کہاں کے بھاگوت؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔