انصاف کا پیمانہ ایک کیوں نہیں؟

تبسم فاطمہ

مسلمانوں کے انکائونٹر کو لے کر ایک چھوٹا سا سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ کیا یہ انکائونٹر پہلی بار ہورہے ہیں ؟ کیا کانگریس کے دور حکومت میں انکائونٹر نہیں ہوئے؟ کیا کانگریس کے زمانے میں اے ٹی ایس اپنا کام نہیں کررہا تھا؟ اس میں شک نہیں کہ انکائونٹر کے دروازے کانگریس نے ہی کھولے۔ جب مسلم تنظیموں کی طرف سے مقدمے لڑے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو کئی دہشت گرد، اور ملزم بے گناہ اور بے قصور پائے گئے— دہشت گرد کا حوالہ اس لیے ضروری تھا کہ پولس تحقیقات میں مسلمان نام آتے ہی ہر کارروائی کو دہشت گردی کا نام دے دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بھی کانگریس نے شروع کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ دو تین برس قبل راجستھان اے ٹی ایس کی طرف سے دہلی میں جب اردو صحافیوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی گئی تو اے ٹی ایس کا رویہ مسلمانوں کے لیے نا قابل برداشت حد تک غیر منصفانہ تھا۔ اے ٹی اس افسران کے مطابق دیگر مذاہب کے قصوروار، ملزمین میں شامل ہیں لیکن یہی بات مسلمانوں کے لیے نہیں کہی جاسکتی۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرانے کا سلسلہ اس پارٹی نے شروع کیا، جو خود کو آج بھی مسلمانوں کا ہمدرد کہتی ہے۔

  کانگریس اپنی حکومت میں اتنی کمزور کیوں پڑی کہ مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرائے جانے والے الزامات پر کوئی مضبوط بیان جاری نہیں کر سکی—؟ جس کا بڑا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ تسلیم کیا جانا مشکل نہیں کہ 1925 کے بعد جب آر ایس ایس نے اپنے پائوں پھیلانا تیزی سے شروع کیا تو سیاست سے پولیس، فوج اور خفیہ محکموں تک آسانی سے اس کی رسائی ہوگئی۔ مختلف موقعوں پر یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔ لیکن کانگریس چاہتی تو مسلمانوں کے گلے میں تعویذ کی طرح لٹکتے دہشت گردی کے بورڈ کو ختم کیا جاسکتا تھا۔ کانگریس کے پاس مثالوں کی کمی نہیں تھی۔ کانگریس کی تعمیر میں مسلم رہنمائوں کا خون شامل تھا۔ ان کی وفاداریاں شامل تھیں ۔ ہندوستان کی بڑی مسلم آبادی میں اگر کچھ لوگ جرم اور گناہ کا دامن تھامتے ہیں تو عدالت میں ان کے لیے آرام سے مجرم اور ملزم جیسے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ الزام ایک پر لگتا ہے، شکارمسلم آبادی ہوتی ہے۔

اترپردیش آخری مرحلہ کی پولنگ میں جب ایک دن بچا تھا، اسی رات، 7 مارچ لکھنؤ کے ٹھاکر گنج میں اے ٹی ایس کا پولیس دستہ ظالم، سفاک، ملک دشمن دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے فائرنگ کررہا تھا۔ ظالم، سفاک، ملک دشمن جیسے الفاظ میرے نہیں ہیں ۔ یہ الفاظ میڈیا کے ہیں ۔ یہ وہی میڈیا ہے، جسے کچھ دن قبل حراست میں لیے گئے گیارہ ہندو جاسوسوں میں کوئی دہشت گرد نظر نہیں آیا تھا۔ بلکہ اس موقع پر ہندوستانی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اب یہ قبول کرلینا چاہیے کہ ہندوستانی میڈیا مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانے کا کام کررہا ہے۔ امریکہ اور دوسرے ممالک میں ٹرمپ کی مخالفت اس لیے ہورہی ہے کہ ٹرمپ نفرت پھیلانے کا کام کررہے ہیں ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ امریکی میڈیا ٹرمپ کی مخالفت میں سیدھے اتر آیا ہے۔ ہندوستانی میڈیا جس طرح مسلمانوں کے کردار اور شبیہ کو داغدار کرنے کا کام انجام دے رہا ہے، اس کی تازہ مثال سیف اللہ کا انکائونٹر ہے— سیف اللہ کے بہانے میڈیا ہندوستانی مسلمانوں کے وجود پر حملہ کررہا تھا۔

 جس دن ایک بے بس، لاچار اور مجبور باپ اپنے غدار بیٹے کی لاش لینے سے انکار کررہا تھا، اسی دن اجمیر دہشت گردانہ حملوں کے ملزمین اندریش کمار، سوامی اسیما نند جیسے ملزمین کو عدالت شک کا فائدہ دے کر الزامات سے بری کرنے کا فیصلہ سنا رہی تھی۔ ایسے کئی ملزمین پہلے بھی آزاد کیے جاچکے ہیں ۔ میرا سوال اب بھی وہی ہے اور انصاف کی کسی بھی کارروائی پر ہمیں پورا بھروسہ ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ثبوت ملے بغیر اور عدالتی حکم سے پہلے ہی مسلم گنہگاروں پر دہشت گرد ہونے کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے—؟ انصاف کی اس جنگ میں کئی مسلم نوجوانوں کا کیریئر تباہ ہوچکا ہے۔ ادھر دو برسوں میں کئی مسلم نوجوانوں کو عدلیہ نے رہائی دلوانے کا کام کیا۔ یہ وہی لوگ تھے، جسے ہندوستانی میڈیا نے دہشت گرد ٹھہرانے میں ایک سیکنڈ کی تاخیر نہیں کی۔ ان کے ماں باپ سے پوچھیے، جن کے بچوں پر اس طرح کے الزامات لگتے ہیں تو وہ کیسا محسوس کرتے ہیں ۔ وہ اپنے خاندان، اپنے لوگوں ، اپنے دوستوں سے الگ ہوجاتے ہیں ۔ ان کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ اور جب ایسے نوجوان رہا کیے جاتے ہیں ، تب بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ہندوستانی میڈیا اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے فرار حاصل نہیں کرسکتا— یہ وقت ہے، جب مسلم تنظیموں کو چاہیے کہ مسلم مخالف ٹی وی چینلز اور میڈیا پر لگام لگانے کے لیے سامنے آئیں ۔ مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے اس وسیع پس منظر میں ، طارق فتح علی صرف ایک چھوٹا سا مہرہ ہے۔ اصل لگام میڈیا پر لگانے کی ضرورت ہے جو پچھلے تین برسوں سے مسلمانوں کی شبیہ مسلسل داغدار کرنے کا کام بخوبی انجام دے رہا ہے۔

اب ایک نظر دہشت گرد، سیف اللہ کے معاملے پر ڈالتے ہیں ۔ سیف اللہ کے معاملے میں کئی باتیں ایسی ہیں جو اے ٹی ایس ٹیم کے آپریشن پر سوال کھڑا کرتی ہیں ۔ جس جگہ اے ٹی ایس ٹیم نے اپنا آپریشن انجام دیا، وہاں پانچ گھنٹے پہلے بھی پولیس آئی تھی۔ پولیس باپ بیٹے کے درمیان ایک تنازعہ کو سلجھانے کے لیے آئی تھی۔ صبح نوبجے باپ بیٹے میں جھگڑا شروع ہوا، اس کی خبر پولیس کو دی گئی۔ پولیس ٹیم جب وہاں پہنچی، اس درمیان سیف اللہ بھی وہاں موجود تھا۔ پولیس نے دوسرے کرائے داروں کے ساتھ سیف اللہ سے بھی پوچھ تاچھ کی تھی اور اس کی آئی ڈی کو بھی چیک کیا تھا اور اس کے کمرے میں بھی جھانک کر دیکھا تھا۔ اس وقت تک سارا معاملہ ٹھیک تھا۔ لیکن اس تنازعہ کے صرف پانچ گھنٹہ بعد سیف اللہ ایک ایسا دہشت گرد بن چکا تھا جس کے کمرے میں اسلحے موجود تھے۔

پہلا سوال تو یہی ہے کہ صبح نوبجے جب کردایہ دار عبد القیوم کے بلانے پر پولیس آئی اور پولیس نے سیف اللہ کے کمرے میں بھی جھانک کر دیکھا تو اسے کوئی اسلحہ کیوں نظر نہیں آیا۔فرض کیجئے کمرے میں اسلحے موجود تھے۔ کمرے میں اسلحہ رکھنے والا اتنا بہادر کیسے ہوسکتا ہے کہ جب پولیس قیوم اور اس کے بیٹے کا تنازعہ سلجھانے کا کام کررہی تھی، اس وقت سیف اللہ پولیس کی نظروں کے سامنے تھا۔؟ جس طرح اے ٹی ایس نے پورا عملہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے میں جھونک دیا، کیا سیف اللہ جیسے گنہگار، کرائے کے کمرے میں آسانی سے گرفت میں نہیں آسکتے تھے— اصل خوفناک کہانی اس کے بعد سامنے آئی جب ایک بے بس، لاچار اور مجبور باپ نے اپنے بیٹے کی لاش کو لینے سے یہ کہہ کر منع کردیا کہ کوئی غدار اس کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ بوڑھے ماں باپ کی زندگی کی اصل دولت اس کے بچے ہوتے ہیں ۔ سیف اللہ کے باپ کو تقدیر نے وہ صدمہ دیا کہ آنسو بھی خشک ہوگئے۔ اے ڈی جی (قانون) دلجیت چودھری کے بیان پر بھروسہ کریں تو سیف اللہ کا تعلق داعش سے نہیں تھا۔ اس کے کمرے سے انگریزی اورعربی کتابیں ملیں ہیں ۔ عربی کی کون سی کتابیں ؟ اس کی وضاحت ضروری ہے۔

ایک آسان سوال اور بھی ہے کہ اے ٹی اس کے لیے سیف اللہ کو ہلاک کرنا کیوں ضروری تھا؟ انکائونٹر کی کارروائی ہوجانے کے بعد ایسے بہت سے سوالوں کے جواب کبھی نہیں ملتے۔ ایک سوال اور بھی ہے، انصاف کے دوہرے پیمانے کیوں ہیں —؟ سیف اللہ کے باپ کے بے بس اور لاچار چہرے میں ہندوستانی مسلمانوں کے خوفزدہ چہرے کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔