انصاف کی پیروڈی

ممتاز میر

ویسے تو فی زمانہ مجرموں سے ہمدردی اور مظلوموں سے بے اعتنائی کا رویہ عام ہے۔ مغرب تو کم  وبیش سزائے موت سے چھٹکارہ پا چکا  ہے۔ تشبہ بالحق سے دور ہونے کے لئے یہ بھی ضروری تھا۔ مگر اس کے باوجود مغرب میں بہر حال سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ بالخصوص معاوضےcompensation کے معاملات میں تووہ ظالم کا کچومر ہی نکال دیتے ہیں۔ مگر بر صغیر کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں مجرموں سے اس طرح پیار کیاجا تا ہے جیسے وہ اپنا رشتہ دار ہی ہو۔ گو ایساہوتا نہیں۔ بلکہ اسے دودھ دیتی گائے تصور کر لیا جاتا ہے۔ پہلے تو کوشش یہ کی جاتی ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہونچ ہی نہ سکے۔ اگر پہونچ ہی جائے توکاغذی کاروائی سے اسے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب بھی ہو گیا تو اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ ان تمام حوصلہ شکن مراحل سے گزرنے کے بعد کوئی ’’بے شرم‘‘عدالت تک پہونچ ہی جائے تو وہاں جج صاحب اسے اس ’’جراء ت رندانہ ‘‘کی سزا دینے کے لئے ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہم درجنوں بار یہ لکھ چکے ہیں کہ ہمارے یہاں پورا انصاف کسی کی نہیں ملتا۔ سونے پہ سہاگہ ہمارے یہاں ایک مصیبت اور ہے۔

Justice delayed is justice denied  کی جگالی کر کر کے ہماری عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں جی بھر کے تاخیر کرتی ہیں۔ اگر کوئی منہ زور منہ کو آجائے تو کہتے ہیں یہاں ججوں کی تعداد بین الاقوامی  norms سے بہت کم ہے۔ یہ بہانہ ایسا کچھ غلط بھی نہیں  لیکن انصاف میں تاخیر کرنے کے بجائے ایک سال کے اندر اندر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا لی جائے تو تعداد کی کمی کی سنگینی کو بہت کچھ کم کیا جا سکتا ہے۔

   ہوا یوں کہ امسال۲۹ جنوری کو ہم نے اپنی ایک پارٹی کو (جس سے ہم مال خریدتے ہیں )۱۰ ہزار کا ایک چیک اشو کیا۔ مگر وہ چیک چند  دنوں بعد واپس آگیا اسلئے کہ بینک میں کمپیوٹر سسٹم اپگریڈیشن کا کام چل رہا تھا۔ یہ درست ہے کہ بینک نے ہم اس تعلق سے اطلاع دی تھی  مگر ہم نے یہ سمجھ کر پارٹی کے کھاتے میں چیک جمع کردیا کہ اب تک وہ کام مکمل ہو گیا ہو گا۔ ۔ خیر چیک واپس آنے پر ہم نے اپنے بینک پنجاب نیشنل بینک میں جاکر پوچھا کہ آپ چیک رٹرن کا اماؤنٹ تو نہیں کاٹیں گے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اسٹیٹمنٹ میں دیکھ لینا۔ دو تین دن بعد ہم نے NEFT کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لئے ہم نے پوچھا کہ کتنے چارجس ہوں گے۔ مگر پھر وہی جواب کہ اسٹیٹمنٹ میں دیکھ لینا(ایسا لگتا کہ اس وقت پنجاب نیشنل بینک کی ملک کی تمام شاخیں نیرو مودی اور میہول چوکسی کو دینے کے لئے پیسے گننے میں لگی ہوئی تھیں )پھر ہم نے اے ٹی ایم سے پیسہ نکالنے کی کوشش کی۔ پیسہ تو نہ آیا یہ مسیج بھی آیا اور رسید بھی کہ آپ کے اکاؤنٹ سے دس ھزار روپئے کم ہوگئے اور بیلنس اتنا بچا ہے۔ مگر پھر دو منٹ بعد ہی دوسرا میسج آگیا کہ آپ کا دس ہزار دوبارہ آپ کے اکاؤنٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ مگران دو منٹوں میں کسی کا ہارٹ فیل ہو جائے تو؟اسی وقت ہم نے دکان پر آکر ۲۰ ھزار کا چیک لکھا اور دوبارہ بینک پہونچے۔ مگر وہاں ۲۰ ہزار تک والے کاؤنٹر پر بہت لمبی لائن تھی جبکہ اس سے متصل ۲۰ ہزار سے اوپر والا کاؤنٹر خالی پڑا تھا۔ ہم نے ۲۰ ھزار کو کاٹ کر ۲۵ ھزار کر دیا اور ہر ضرور ی جگہ اپنے دستخط کرکے خالی پڑے کاؤنٹر پر پہونچے تو یہ انکشاف ہوا کہ اب چیکوں پر کٹنگ نہین چلتی۔ آپ کو دوسرا چیک لکھ کر لانا ہو گا۔ ہم پھردوڑے اپنی دکان کی طرف۔ پھر ایک چیک لکھا (واضح رہے کہ اب ایک چیک۳؍۴روپئے کا پڑتا ہے)اورآکر دوسرے کاؤنٹر سے جو کہ اسوقت بھی خالی پڑا تھا رقم حاصل کی۔ اس کے بعد ہم منیجر سے ملے اور یہ سارا واقعہ سنایا۔ منیجر کا جواب تھا کہ انکل آپ سے کس نے کہا تھا کہ ہماری بینک میں اکاؤنٹ کھولو (ہماری بینک میں تو نیرو مودی جیسے لوگ ہی اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں )آپ ہمارے یہاں سے اکاؤنٹ بند کر دیجئے۔ یہ سب ہمیں اسلئے کرنا پڑا مسئلہ ہماری تجارتی ساکھ کا تھا۔ اب ہم نے طے کرلیا کہ معاملے کو کنزیومر فورم میں  لے جائیں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری ساکھ good will کو جو نقصان پہونچا ہے اس کے لئے ہمارے وکیل صاحب ایک لاکھ  روپئے کا دعویٰ کریں۔ مگر انھوں نے شکایت میں صرف ۵۰ ھزار کا دعویٰ کیا۔ اکتوبر میں اس پر بحث argument کی نوبت آئی جو ہم نے خود کیا۔

   ہم نے اپنی بحث میں بات یہاں سے شروع کی ’’آنریبل میڈم، یہ معاملہ تو قریب۹ ماہ پرانا ہے۔ ہم پہلے تازہ واقعات پیش کرتے ہیں ہمارے ٹی وی سروس پرووائڈر کے پیک میں NDTV کی نشریات بھی شامل ہیں مگر ایک ہفتے سے وہ نشریات بند ہیں۔ اتنی زرا سی بات کے لئے ہم کنزیومر کورٹ میں نہیں جا سکتے۔ اسی طرح ہمارے موبائل فون پر Idea  سروس پرووائڈر ہے ہم نے جو پیک لے رکھا ہے  اس میں یہ ہے کہ ہمیں ملک بھر میں کہیں بھی، کہیں سے بھی بات کرنے اور انٹر نیٹ سروس استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ ہمیں ہر ہفتے مہاراشٹر میں جانا پڑتا ہے۔ ہم بات تو کرپاتے ہیں مگر انٹرنیٹ نہیں چلتا۔ ہم اب تک اتنی سی بات کے لئے کنزیومر کورٹ نہیں گئے۔ اس لئے کہ ہمارے پاس پیسہ ہے اور نہ وقت۔ اور اسی کا فائدہ سروس پرووائڈر اٹھاتے ہیں۔ میڈم بچپن میں ہم نے اپنے بزرگون کو کہتے  سنا ہے اور آپ نے بھی سنا ہوگا یہ دعا دیتے ہوئے کہ ایشور ؍اللہ تجھے کورٹ کچہری کے چکر سے دور رکھے(تینوں خواتین ججس ہنسنے لگیں اور انھوں نے کہا کہ ہاں سنا ہے)سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کہتے تھے؟وہ ایسا اسلئے کہتے تھے کہ پہلے تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں انصاف  آسانی سے ملتا نہیں۔ جس خوش قسمت کو مل جاتا ہے اسے بھی انصاف کے حصول کے لئے جو بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے جو جھٹکے پھٹکے کھانے پڑتے ہیں اس کے مقابلے میں ملے ہوئے انصاف کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ہم یہاں دو مثالیں دیں گے۔ (۱) چند سال پہلے آسٹریلیا میں ایک ہندوستانی ڈاکٹر کو دہشت گردی کے الزام میں پولس نے گرفتار کیا۔ مگر کورٹ میں پولس ان الزامات کو ثابت نہیں کرپائی۔ ڈاکٹر موصوف نے بری ہونے کے بعدحکومت کے خلاف ہتک عزت اور معاوضے کا مقدمہ دائر کردیا۔ کورٹ نے انھیں اتنا معاوضہ دیا کہ  ڈاکٹر صاحب نے بنگلور جیسے ہندوستان کے مہنگے شہر میں اپنا خود کا اسپتال قائم کرلیا(۲)امریکہ میں جانسن اینڈ جانسن کے ٹیلکم پاؤڈر سے کینسر ہونے کی شکایات سامنے آئیں اور تحقیق کے بعد یہ بات ثابت بھی ہوگئی۔ امریکی کورٹ نے متاثرین کو ۷۶۷ کروڑ کا معاوضہ دلوایا۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہمارے ملک میں کیوں ممکن نہیں ہے؟‘‘ ہم نے مزید کہا کہ جب ہم بازار جاتے ہین تو یہ سوچ کر نہیں جاتے کہ ہمیں  دکاندار پر یا بینک پر یا کسی بھی طرح کی خدمات مہیا کرنے والے پر کیس کرناہے اسلئے ہم ثبوت و گواہ کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ ہمارے کیس میں فریق مخالف نے جہاں ممکن تھا وہاں ہماری باتوں سے انکار کیا ہے۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اس دن کا CCTV فوٹیج مل جائے تو ہماری باتوں کو پرکھا جا سکتا ہے۔ آخر میں ہم نے کہا کہ بینک کے رویے سے ہماری تجارتی ساکھ کو جو نقصان پہونچا ہے اس کا معاوضہ ہمیں ایک لاکھ چاہئے مگر خود ہمارے وکیل صاحب نے اپنے شکایت نامے میں ۵۰ ھزار کا مطالبہ کیا ہے اب ہمیں ڈر ہے کہ آپ اس میں مزید کمی نہ کردیں۔

ہمارے بعد بینک کے وکیل نے بھی دلائل دئے مگر وہ انتہائی پھسپھسے تھے مگر پھر بھی ہم نے جج کی اجازت سے دوبارہ وکیل مخالف کے بے جا اعتراضات کا جواب دیا۔ اپنے جواب میں بینک کے وکیل نے خود یہ بات قبول کی کہ بینک منیجر پر چونکہ کام کا بہت دباؤ ہوتا ہے  اسلئے کبھی کبھی ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جو ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ یہ ایک عذر لنگ تھا۔

 اب ۱۵ نومبر کوجو فیصلہ سنایا گیا وہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ پہلے تو محترم جج صاحبان نے اپنی Findings میں لکھا ہے ’’۲۰ ھزار کی جگہ ۲۵ ھزار کئے جانے پرشکایت کنندہ نے چیک پر ہر جگہ اپنے دستخط کئے تھے۔ اور کھاتے دار خود حاضر تھا تو بینک کو چاہئے تھا کہ وہ چیک کے بھگتان کے لئے مناسب کاروائی کرتا‘‘ آگے دوسرے پیرا میں لکھا ہے شکایت کنندہ کو بینک کیے ذریعے انتہائی تاخیر سے چیک بھگتان کئے جانے اور دیگر مشکلات وپریشانیوں کا سامنا کرنے کی بناء پر ہی شکایت کنندہ نے بینک کو رجسٹرڈ ڈاک سے اپنی شکایت بھیجی تھی جس میں انھوں نے اپنا درد درشایا تھا۔ کوئی بھی صارف کسی خدمت کے حصول میں مشکل اور پریشانی کا سامنا کرتا ہے تو مخالف پارٹی کے خلاف اس فورم کے سامنے جھوٹی بنیادوں پر حاضر نہیں ہوتا۔ وہ خدمات میں انتہائی کمی کے باعث ہوئی پریشانی اور درد کی تلافی کے لئے حاضر ہوتا ہے۔

ایسی حالت میں شکایت کنندہ مخالف بینک کے ذریعے مناسب خدمات پیش نہ کئے جانے کے باعث طلب کردہ ریلیف کا حقدار ہے آخر میں ججس نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ شکایت کنندہ کو مخالف بینک کے ذریعے جو مشکلات اور پریشانیاں برداشت کرنی پڑیں اور دماغی ٹینشن ہوا اس کی تلافی کے لئے وہ بینک کو حکم دیتی ہیں کہ ۴۵ دنوں کے اندر اندرشکایت کنندہ کو تین ھزار روپئے(ہا۔ ۔ ہا۔ ۔ ہا)ادا کئے جائیں۔  ہمارے نزدیک یہ انصاف کا مذاق اڑانا ہے۔ ۵۰؍۶۰ ہزار ماہانہ کمانے والے بینک منیجر کے لئے تین ہزار کا جرمانہ ہمت افزائی کا سبب بنے گا یا ہمت شکنی کا؟ہمارے قابل صد احترام منصفین اس  انداز میں سوچتے ہی نہیں۔ ان کے دماغوں پر بس ظالموں سے ہمدردی کا غلبہ ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔