انقلاب کا اسلامی تصور!

محمد آصف اقبال

عام طور پر ہمارے زمانے میں اصلاحی تحریکوں کو ہی انقلابی تحریک کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں کمیونسٹ تحریک اٹھی تو اچھے خاصے لوگ اسے انقلاب اور انقلابی تحریک سمجھتے رہے اور اب بھی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح یورپ میں جمہوری کوششوں کو جمہوری انقلاب اور انقلابی تحریک کہا جاتا تھا۔ مگردر حقیقت یہ بنیادی اصلاح کی تحریکیں تھیں یعنی مادہ پرستی کا جو نظام رائج تھا اور جسے مذہب کا لبادہ اوڑھ کرچرچ چلا رہا تھا یا سیکولرزم کے نا م پر سرمایہ دارانہ نظام،یہ دونوں اصلاً ایک ہی سکے کے رخ تھے جومادہ پرستی ودنیا پرستی پر مبنی تھے۔ لیکن جب ان میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہوگئیں اور استحصال حد سے زیادہ ہو نے لگا تو اصلاح کے لیے یہ دونوں تحریکیں اٹھیں تاکہ عوام کو کچھ راحت نصیب ہو۔ برخلاف اس کے ،انقلاب دنیا میں صرف ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے حق کے جگہ باطل کا آجانا یا باطل کی جگہ حق کا آنا۔

یہ انقلاب دراصل ایک نظام کی جگہ دوسرے نظام کو رائج کرناہے جو انسانی فطرت اور کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ لہذا ایک طرف تو اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو صرف اپنی محدود عقل اور ناقص تجربے پر انحصار کرنا پڑتا ہے وہیں دوسری طرف اُسے مسلط کرنے کے لیے ماردھاڑ، کشت و خون، قرقی ضبطی اور لامحدود دھاندلیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دہائیوں میں کچھ تو نظام حق کی جگہ پر باطل نظام کو لانے کے لیے واقعی انقلابی کوششیں اور کچھ شبہہ انقلاب pseudo revolution برپاکرنے کے لیے جدوجہد کرنے میں جو زبردست خون خرابہ ہوا،اس کے نتیجہ میں یہ عام ذہن بن گیا کہ انقلاب لازماً خون خرابہ اور بد امنی کی کوششیں چاہتا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انقلاب واقعتا اس وقت تک برپا نہیں ہوسکتا جب تک لوگوں کے دل اُس انقلاب کے لیے مسخر نہ ہو جائیں۔ اور دل دھاندلی،دھونس،کشت و خون اورطاقت کے استعمال سے کبھی بھی مسخر نہیں ہو سکتے۔ دل تو لازماً اخلاق اور ہمدردی سے ہی مسخر ہوتے ہیں۔  جس میں دھونس یا طاقت کا استعمال نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ منفی اثر ڈالتاہے۔

دوسری طرف باطل کی مجبوری یہ ہے کہ وہ فطرت سے متصادم ہونے کی وجہ سے دلوں کو اپیل نہیں کر تا۔ زیادہ سے زیادہ دماغ کو متاثر کرسکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ ظلم و جبرکے سہارے انسانوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ باطل جب ایک نام سے روشناس ہوکر بدنام ہوجاتا ہے تو چولا بدل کر دوسرے ناموں سے آتا ہے اور اس طرح اپنی زندگی کی مہلت  بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ مہلت اس کو اس وقت تک ملتی رہتی ہے جب تک حق میدان میں نہیں آجاتا۔

باطل کے مقابلے میں جب حق میدان میں آتا ہے تو باطل اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتا۔ نیز وہ وسائل اور عوام کے استحصال سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے حق کے علم برداروں کو سخت کش مکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ حق انسانی فطرت اور کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے براہ راست لوگوں کے دل سے اپیل کرتا ہے اور لوگ اسے راضی خوشی قبول بھی کرتے ہیں۔ اس لیے خود ان کی طرف سے طاقت کے استعمال کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، کہ طاقت ان کے پاس سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے اور دوسرے ہتھکنڈوں کی اُنہیں ضرورت نہیں ہوتی،مثلاًجھوٹا پروپگنڈا اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں۔ اُن کا سارا زور اپنی دعوت لوگوں کے دل میں اتاردینے کی کوشش پر صرف ہوتی ہے۔ دوسری جانب اِس کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے باطل بے شمار ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔  اس طرح حق اور باطل کے درمیان کش مکش کا آغاز ہوتا ہے۔ عموماً باطل کو ہٹاکر اس کی جگہ حق کو غالب کرنے کے لیے جو تحریک اٹھتی ہے اس کے دومرحلے ہوتے ہیں۔ i )ابتدائی مرحلہ جس میں اس کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے اور ii)جب کہ وہ تحریک مکمل ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ابنیاء علیہم السلام جو تحریکیں چلاتے رہے ہیں ان کی تفصیلات نہ تو تاریخ میں ہے اور نہ قرآن سے پہلے جو پچھلے الہامی ریکارڈ غیر مستند شکل میں محفوظ ہیں ، ان میں ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس کے باوجود قرآ نی تعلیمات کی روشنی میں دنیا جانتی ہے کہ بین الاقوامی دور میں چلائی جانے والی تحریک کی ابتداء حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی اور اس کی تکمیل آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی۔

یہ تحریک جزوی اصلاح کی نہیں بلکہ کلی انقلاب کی تھی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور ابراہیم ؑ یہی کلمہ اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا”(الزخرف:28)۔ یعنی اس سلسلے کو انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کے لیے باقی رکھنے کا انتظام کیا اور پھر انہوں نے مزید یہ دعا کی:”اور اے رب، ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو”(البقرہ:129)۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس تحریک کو تکمیل تک پہنچانے والا ایک نبی مبعوث فرما۔ اُن کی اس کوشش اور دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیینؐ کو مبعوث فرمایا۔ اُن پر دین کو مکمل کیا اور اُن کے ذریعہ انقلاب برپاکرنے کا فیصلہ کیا جس کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے”(الصف:9)۔ یہاں یہ الفاظ "تاکہ اسے پورے کے پورے دین پرغالب کردے”کا جملہ انقلابی تحریک کی وضاحت کرتا ہے۔ نیز نبیوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اُن کا مشن ان کے بعد آنے والے نبی اور ان کے امتی بھی پورا کرتے ہیں۔

 آپ جانتے ہیں کہ نبی آخرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دین حق سرزمین عرب میں سارے ادیان پر غالب آگیا تھاساتھ ہی آپؐ ایک نمونہ بھی چھوڑ گئے ہیں۔ اب اس کام کو آگے بڑھاکر ہدایت اور دین حق کے سارے کرہ ارض پر تمام ادیان کے مقابلہ میں غالب کرنے کی کوشش کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پرہے۔ یعنی اس امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کو غالب کرنے کے لیے انقلابی تحریک چلائے اور چلاتی رہے۔ تاکہ ایک نسل میں ہدف حاصل نہ ہو ں تو اس کا تسلسل ختم نہ ہونے پائے ،وہ مسلسل جاری رہے یہاں تک کہ وہ اہداف حاصل ہو جائیں جو مطلوب ہیں۔ لیکن انقلاب کے داعیوں کے لیے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ آخرت کے لیے پوری طرح یکسو ہوں اور دنیا کی طرف رغبت کے بجائے آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں۔ چنانچہ جب رسولؐ کے سامنے دنیا کی نعمتیں پیش کی گئیں یہاں تک کہ عرب کی بادشاہت بھی ،توآپ نے بلا پس و پیش پوری قوت سے اُسے ٹھکرادیا اور فرمایا:”خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لاکر دیدیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آئوں گا۔ خدا،یا اس کام کو پوراکرے گا یا میں خود اس پر نثار ہو جائوں گا "(ابن ہشام،ص:89۔)

امام بخاری نے بھی تاریخ میں یہ واقعہ اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے)۔ واقعہ یہ ہے کہ اقتدار کا رعب اور دنیا کی لالچ لوگوں کو مائل تو ضرور کرتی ہے لیکن یہ لوگ عموماً کردار کے کچے،چمچہ گیری کرنے والے،دنیا پرست اور مفاد پرست ہوتے ہیں۔ اور کھرے لوگ آزمائشوں کے ذریعہ اور دنیوی مفادات کو حقیر سمجھ کر ٹھکرانے سے ہی بنتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مطلوبہ انقلاب بھاڑے کے لوگوں اور با لامعاوضہ کام کرنے والوں کے ذریعہ کسی صورت برپا نہیں ہوسکتا۔

 ابتدائی گفتگو کے بعد یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ عموماًبرسراقتدار شخص یا اشخاص کواقتدار سے الگ کردینے کو انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے اور فی زمانہ اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔ نیز جب تک قبائلی نظام یا بادشاہت موجود تھی برسراقتدار شخص یا اشخاص کی تبدیلی اہمیت کی حامل تھی۔ لیکن جب سے جمہوری نظام رائج ہواہے،اب صرف برسراقتدار شخص یا اشخاص کو تبدیل کرنے سے رائج الوقت نظام میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ برخلاف اس کے جن بنیادوں پر جمہوری نظامِ حکومت میں ریاست کی جملہ سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں ،اُسی جمہوری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اُن بنیادوں میں تغیر اور تبدیلی ضروری ہے جن پر ریاست کا نظام قائم ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔