انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے اساسی مقاصد اور ہمارا عمل

ڈاکٹر جسیم محمد

(لائف ممبر، انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر)

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر ہندستانی مسلمانوں کا ایک با وقار ادارہ ہے۔ جو نہ صرف ہندستان بلکہ پوری دنیا میں ہندستانی مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہر ادارے کے قیام کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں جو اپنے بنیادی اور اساسی اہداف کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اگر ادارے ان مقاصد سے منحرف ہوجائیں تو ان کے قیام کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ ایسے میں نہ صرف ادارہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس پر خرچ ہونے والی رقم اور انسانی وسائل کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ہم انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے بنیادی مقاصد پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ ہندستانی عوام کے مابین آپسی رواداری اور اخوت کو فروغ دینا۔

2۔ اسلام کے بارے میں پھیلی ہوئی گمراہ کن باتوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے برادران وطن کے شکوک و شبہات کو دور کرنا۔

3۔ اسلامی تہذیب و ثقافت سے متعلق عوام کو بیدارکرنا۔

4۔ ہندستان میں آپسی رواداری اور اخوت و محبت کو فروغ دے کر ایک طاقتور سماج کی تعمیر کرنا۔

5۔ ہندستانی مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے مابین مکالمہ قائم کرنا، تعلیمی اور تہذیبی سطح پر ایک دوسرے کا تعاون کرنا۔

یہ وہ مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر جیسے ادارے کا وجود عمل میں آیا تھا۔ اگر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر اپنے مذکورہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا تو وہ ہندستان آج ہمارے سامنے نہیں ہوتا جو ہے، آج برادران وطن کے دلوں میں ہندستانی مسلمانوں سے متعلق شکوک و شبہات ہیں، ہر گام پر ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جس کو رفع کرنے اور ہندوو ¿ں اور مسلمانوں کو قریب لانے میں اس ادارے نے کماحقہ اپنا حق ادا نہیں کیا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت سے متعلق بھی ادارے نے عوام میں بیداری کے لئے اس سطح پر کام نہیں کیا ہے جس کی اس سے امید کی جاتی ہے۔

یہی حال دوسرے مقاص کے حصول کا بھی ہے۔ آج یہ ادارہ ایک کلب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ ادارے کو غور وفکر کا مرکز بنایا جا تا، یہاں مسلمانوں کا تھنک ٹینک ہوتا اور یہ تھنک ٹینک باہر سے نہیں آتا بلکہ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر اپنے اساسی مقاصد کے حصول کے لئے یہ تھنک ٹینک تیار کرتا۔ دنیا تو چھوڑیے ہندستان میں بھی بہت سے ایسے ادارے ہیں جنہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا تھنک ٹینک تیار کر رکھا ہے، وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے منصوبے تیار کرتے ہیں اور عملی طور سے قدم آگے بڑھاتے ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس انڈیا سلامک کلچرل نے سینٹر ایسا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے جبکہ اس کے پاس ملک کا سب سے زر خیز ذہن ہے۔ اس کے ممبران اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جن میں اس بات کی بدرجہ اتم صلاحیت موجود ہے کہ وہ مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کر کے ان کو حاصل کر لیں۔

ہندستان کا یہ واحد ادارہ ہے جس کے ممبران اس قدر تعلیم یافتہ اور نئی ذہنیت کے مالک ہیں، وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں مگر ان کی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہاں کے ممبران قوم کے عمائدین ہیں، جو اس بات کیی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ ایک لائحہ عمل تیار کر کے ہندستانی مسلمانوں سے متعلق برادران وطن کے ذہنوں اور دلوں میں موجود شکوک و شبہات کو رفع کردیں، ان میں یہ قابلیت ہے کہ کہ وہ ہندستانی مسلمانوں اور برادران وطن کو ایک لڑی میں پرو کر ایک ایسی قوم بنا دیں جو ملک کی تعمیر میں برابر کے شریک ہوں۔ اسلامی ممالک سے رابطہ کرکے ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ ہی وہ ملک کو مستفید کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس کے لئے ضرورت ہے کہ اس عظیم ادارے کو اس کے اساسی خطوط پر چلا یا جا ئے۔ آج عالم یہ ہے کہ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر لودھی روڈ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے بھلا ایسے میں پورے ہندستان کے مسلمانوں کا بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟یہ ادارہ شادی گھر اور پارٹی تقاریب کے لئے مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ کہ اس کو دوبارہ اس کے اساسی مقاصد کی طرف واپس لاکر اس کو تھنک سینٹر بنا دیا جائے۔ اگر ہم اس ادارے کو تھنک سینٹر بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یقین مانئے چند برسوں میں ہیں کایا پلٹ ہو جائے گی۔

ایسا نہیں ہے کہ قوم کے پاس سرمایہ نہیں ہے، یا پھر وہ لاچار و مجبور ہے، اس کے پاس سب کچھ ہے بس اگر کمی ہے تو اس کو استعمال کرنے والوں کی ہے۔ ایک ذی ہوش شخص اس بات سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر کوئی ادارہ گروپ میں تقسیم ہو جائے تو بھلا وہ کیسے کام کرسکتا ہے۔ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر گروپ سے دور تھا، کیوں کہ اس سے مقاصد کے حصول میں نہ صرف دشواری آتی بلکہ اس کے اساسی مقاصد کے بر خلاف بھی ہے لیکن ادھر چند برسوں میں گروپ میں تقسیم ہو گیا۔ الیکشن ہی گروپ اور پینل میں ہونے لگے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر ملک و قوم کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ کوئی منفعت والا ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ ادارہ تو ملک و قوم کی خدمت کے لیے تشکیل دیا گیا تھا لیکن گروپ میں تشکیل ہو کر اس کا رخ دوسری طرف مڑ گیا ہے۔ اس رخ کو اساسی رخ کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔

مجھے امید ہے کہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں اس عظیم اور با وقار ادارے کے ممبران اس جانب ضرو توجہ دیں گے تاکہ بانی ممبران کے خوا بوں کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔