انگریزی صحافت کے سانڈ کی سرزنش

عبدالعزیز           

            انگریزی صحافت دیگر زبانوں کے مقابلے قدرے بہتر تھی مگر اس میں بھی اب ایسے لوگ آگئے ہیں جو صحافت کے نام پر بدنما داغ بنتے جارہے ہیں۔ زرد یا سنسنی خیز صحافت کے اس وقت علمبردار ’ٹائمز ناؤ‘ کے چیف ایڈیٹر ارنب گوسوامی ہیں جو سنگھ پریوار والوں کی طرح وطن پرستی کا پرچم لہراتے ہوئے دوسروں کو وطن دشمنی اور پاکستان نوازی کا طعنہ دیگر سرنگوں کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ فرقہ پرست حکومت سے داد تحسین حاصل کرنا پسند کرتے ہیں۔

            ٹائمز ناؤ ، ٹائمز گروپ کا کا نیوز چینل ہے جو ارنب گوسوامی کی وجہ سے بہت دنوں سے غیر متوازن اور غیر سنجیدہ صحافتی کردار کا حامی ہوگیا ہے۔ صحافت کم سیاست زیادہ، سنجیدگی کم سنسنی خیزی زیادہ، اعتدال کم بے اعتدالی زیادہ پیش کرکے ناموری کے چکر میں بے راہ روی کا شکار ہوگیا ہے۔ اب تک اسے وہ سارے لوگ ناپسند اور نامعقول نظر آرہے تھے جو اس کے خیال اور نظریہ کو ناپسند کرتے تھے مگر صحافیوں کو اس دائرہ سے باہر رکھا تھا۔ اب اچانک اپنے صحافتی ساتھیوں اور دوستوں کو زیر کرنے کیلئے اپنے پرانے ہتھکنڈے کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

            پہلے مشہور ٹی وی انکر محترمہ برکھا دت کو نشانہ بنایا اور انھیں جعلی حریت پسندی کا طعنہ دینے لگا اور صحافتی کردار ادا کرنے کے بجائے ایک جج کا کردار نبھانا شروع کردیا ہے۔ ججمِنٹ پاس کرنے اور صحافتی سند دینا اپنا حق سمجھنے لگا۔ محترمہ برکھا دت کا قصور اتنا تھا کہ جموں اور کشمیر کے احتجاجیوں پر اندھا دھند گولی چلانے پر انھوں نے فوجیوں کی سرزنش کی تھی۔ اس چیز سے ارنب گوسوامی کی حب الوطنی پھڑک اٹھی اور آگ بگولہ ہوگئے۔ اول جلول بکنے لگے اور اپنے سوا سب کو غدار وطن اور پاکستان کے خطاب سے نوازنے لگے۔ صحافت کے بجائے زعفرانی سیاست کرنے لگے۔ ان سے اختلاف کرنے والوں کو پابند سلاسل کی تجویز تک پیش کر دی اور یہ Poseکرنے لگے کہ وہ یہ سب وطن اور فوجیوں کی محبت میں کر رہے ہیں جو سرحدوں پر وطن کیلئے شہید ہوتے ہیں۔ اسی طرح زعفرانی سیاست دانوں نے جے این یو کے طلبہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ وطن کے سپاہیوں کی عزت نہیں کرتے ہیں۔ کشمیر میں آزادی چاہتے ہیں جبکہ وطن کیلئے سپاہی اپنی قیمتی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ اس وقت کنہیا کمار نے زعفرانی سیاستدانوں اور ارنب گوسوامی جیسے صحافیوں کو آڑے ہاتھ لیا تھا کہ جو لوگ سرحدوں پر جان دے رہے ہیں۔ ہم جیسے غریب خاندانوں کے لوگ ہیں اور یہ سب حکومت کی غلط پالیسی کے شکار ہورہے ہیں۔ حکومت کشمیر چاہتی ہے مگر کشمیر یوں کو نہیں چاہتی۔

            محترمہ برکھا دت نے بھی ارنب گوسوامی کے جواب میں کہا ہے کہ وہ شرمندہ ہیں کیونکہ ایک ایسی انڈسٹری میں ہیں جس میں گوسوامی جیسے لوگ اختلاف رائے کی وجہ سے حکومت کو صحافیوں کے خلاف تادیبی کارروائی جیسی بیہودہ تجویز دے رہے ہیں اور پریس پر سنسر شپ لگانا چاہتے ہیں۔ اب مشہور و معروف انکر سر ڈیسائی اور ان کی اہلیہ سگریکا گھوش بھی میڈیا ڈیبیٹ میں شامل ہوگئے۔ سر ڈیسائی اور ارنب گوسوامی ٹیلیگراف اور این ڈی ٹی وی میں ساتھ کام کرچکے ہیں۔ برکھا دت کے ساتھ ارنب گوسوامی بھی این ڈی ٹی وی میں رہ چکے ہیں مگر ان کی آنکھ کا پانی لگتا ہے گرگیا ہے۔ زعفرانی سیاست کے ایسے شکار ہوگئے ہیں کہ غیر تو غیر اپنوں کو نہیں بخش رہے ہیں۔ سردیپ ڈیسائی نے کہا کہ وہ ارنب اور برکھا دت کی جنگ کا حصہ بننا پسند کرتے ہیں مگر سلطنت یا ریاست کا احترام کرتے ہوئے حکومتوں پر نکتہ چینی کو جائز سمجھتے ہیں۔ اختلاف رائے فرد کی آزادی کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔

            سر دیپ ڈیسائی کے تبصرہ پر کسی نے کہاکہ یہ ایسے انکر کے کردار پر تبصرہ ہے جو جھوٹ سے کام لیتا ہے کیا یہ اس کو صحافت کہتے ہیں کہ ظالم کا نام نہ لیا جائے۔ اس پر ڈیسائی نے کہاکہ میں شورو غل مچانے کے بجائے سچائی کا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ تہذیب اور شائستگی اس سے زیادہ منہ کھولنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ارنب بھی میرا ساتھی رہ چکا ہے لیکن یہ میں ضرور کہوں گا کہ میڈیا کو Gags (زبان بندی) پر آمادہ کرنا اور اختلاف رائے کی آواز کو دبانے کا مشورہ دینا صحافت کو اٹھانا نہیں بلکہ گرانا ہے۔ ارنب نے صحافت کو گرایا ہے اور آزادی کے پر کو کترنے کا غلط مشورہ دیا ہے۔ سر ڈیسائی نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندستانی میڈیا کسی فرد واحد سے زیادہ طاقتور ہے۔ طوفان ٹل جائے گا، سچائی غالب ہوکر رہے گی۔ ان کی اہلیہ نے بھی اپنے شوہر کی ہم نوائی کرتے ہوئے سچی اور اچھی بات کہی ہے کہ’’صحافت ہر سیاسی جماعت سے سوال کرسکتی ہے۔ پریس کی آواز کو قومیت کے نام پر دبانا سنسر شپ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ حکومت سے سوال و جواب کرنا صحافتی فرائض میں داخل ہے۔ حکومت کا پی آر او (PRO)بننا صحافت نہیں، سیاست ہے۔

            مشہور صحافی مرنیل پانڈے نے کہا ہے کہ صحافت پر قدغن لگانے کی بات برہمنی رجحان کا پیش خیمہ ہے اور ایسا کرنے والے اپنے آپ خدائی فوجدار سمجھتے ہیں جبکہ Dissent(انحراف) اور Difference (اختلاف) صحافت کا حصہ ہے۔ اگر آپ اپنے خیال کو مقدس سمجھتے ہیں تو سمجھیں مگر ہزاروں پھول کو صحافت کے باغ میں کھلنے دیجئے۔ ایڈیٹر گلڈ کے جنرل سکریٹری پرکاش دوبے نے کہا ہے کہ ہماری انتظامیہ کے ممبران میں تبادلہ خیال ہوا ہے۔ مزید سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہوئی تو وہ گلڈ کی رائے کی ضرور وضاحت کریں گے۔

            میڈیا کا ڈیبیٹ ابھی انگریزی صحافیوں تک محدود ہے لیکن زعفرانی سیاست یقینا اس کا دائرہ بڑھانے کی کوشش کرے گی جس طرح عدم برداشت کی مخالفت کی گئی تھی امید ہے اس کی بھی زبردست مخالفت کی جائے گی اور زعفرانی سیاست اور صحافت کو پھر ایک بار شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ زعفرانی سیاست بار بار شرمندہ ہورہی ہے مگر اس کی بے حیائی اور بے شرمی جاتی نہیں۔ وہ گائے کے تحفظ کے نام پر تو اسے منہ کے بل گرنا پڑاہے۔ دلتوں نے جھوٹے پجاریوں کو گجرات میں دھول چٹادی ہے یہ کہہ کر کہ یہ کیسے پجاری ہیں جو اپنی ماں کو زندہ رہتی ہے تو پوجتے اور مقدس سمجھتے ہیں مگر مرجاتی ہے تو اسے چھونا اور ہاتھ لگانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ پجاری نہیں ڈھونگی ہیں۔ گجرات اور اتر پردیش میں مودی- شاہ کی سیاست بے بس ہوگئی ہے  ؎

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔