اور ہمیں خبر ملی کہ قبر ملی 

مدثر احمد

کرناٹک کی مخلوط حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیاہے اور اس بجٹ میں تمام طبقوں کو خوش کرنے کی جہاں کوشش کی گئی ہے وہیں مسلمانوں کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور مسلمانوں نے اس مخلوط حکومت سے جو امیدیں جوڑی ہوئی تھیں ان امیدوں پر صرف پانی نہیں بلکہ پورا دریا بہا دیا ہے۔ کرناٹک حکومت سے اقلیتوں نے سابقہ حکومت سے زیادہ منصوبوں کو رائج کرنے اور زیادہ سے زیادہ فنڈ نگ کرنے کا مطالبہ کیاتھا، مختلف تنظیموں اور مختلف شعبوں سے نمائندگی کرنے والوں نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود ی کے لئے معقول بجٹ پیش کرے۔ لیکن ریاستی حکومت نے تمام گذارشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پچھلی حکومتوں کے تمام بجٹوں کے مقابلے میں سب سے گھٹیا بجٹ پیش کیا اور بجٹ میں مسلمانوں کو دیا بھی تو کیا دیا ؟

 خبر ملی ہے کہ ریاستی حکومت نے مسلمانوں کو قبر ستان ہی دئے۔ اس دفعہ کے بجٹ میں حکومت نے 2800کروڑ روپیے اقلیتوں کو منظور کئے جانے کی بات کہی ہے لیکن اس رقم کا حساب بجٹ میں کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ جو کتاب بجٹ کی تفصیلات پیش کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اس میں مسلمانوں کے قبرستانوں کے لئے 10 کروڑ روپئے منظور کئے جانے کی بات واضح الفاظ میں کہی ہے جبکہ مرار جی دیسائی اقامتی اسکولوں کے قیام کا ذکر کیاگیاہے اور مرار جی دیسائی اقامتی اسکول صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ دوسری اقلیتی ذاتوں کے لئے بھی ہے جن میں سکھ، جین، بدھ اور عیسائی بھی ہیں۔

گھما پھرا کر دیکھا جائے تو اس بجٹ میں مسلمانوں کے لئے سوائے قبرستانوں کے اور کسی بھی منصوبے کے لئے رقم منظور نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے روزگار، معاشی سہولیات اور تعلیم کے لئے مخصوص فنڈس جاری کئے ہیں یا اس میں اضافہ کیاگیاہے۔ وزیر اعلیٰ کمار سوامی کو مسلمانوں سے اس وجہ سے اختلاف ہے کہ سابقہ اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں نے باقاعدہ کانگریس کو ہی ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور کھلے عام اعلان کیا تھا کہ مسلمان نہ بی جے پی کو ووٹ دینگے اور نہ ہی جے ڈی یس کو ووٹ دینگے، جب ریاست میں کانگریس اور جے ڈی یس نے مخلوط حکومت بنائی تو وزیر اعلیٰ کمار سوامی نے اپنے عبوری بجٹ میں اقلیتوں کے لئے پہلے کے وزیر اعلیٰ سدرامیا کے بہترین بجٹ میں سے بھی کٹوتی کردی تھی اور اب اپنے سالانہ بجٹ میں بھی مسلمانوں کو جواب دیا کہ وہ مسلمانوں کے تئیں اب بھی اختلاف رکھتے ہیں اور کچھ مانگنا ہے تو کانگریس پارٹی سے مانگو۔

ایک طرف وزیر اعلیٰ کمار سوامی کی ستم ظریفی تو دوسری جانب کرناٹک حکومت کے مسلم یم ایل اے اور یم یل سی کی خاموشی جو مسلمانوںکے لئے پیش کردہ بدترین بجٹ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کم از کم ریاست کی عوام نے ریاستی وزیر برائے اقلیتی امور ضمیر احمد سے تو اس خاموشی کی توقع نہیں رکھتی تھی باوجود اس کے ضمیر احمد نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ کچھ سال قبل ریاست میں جے ڈی یس اور بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی اس وقت ضمیر احمد نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کمار سوامی کو عید کے موقع پر عیدگاہ آنے کی دعوت دی تھی مگر کمار سوامی وہاں نہیں پہنچے تھے۔ اس بات کو لے کر ضمیر احمد نے کھلے عام کمار سوامی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ آج ضمیر احمد ریاست کے وزیر ہیں مگر انہوںنے کمار سوامی کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ پر سوال تک نہیں اٹھایا جو قابل تشویش ہے۔ رہی بات کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کی، محاذ نے تصدیق کی تھی کہ انہوںنے جنوری میں ہی وزیر اعلیٰ کمار سوامی کو ایک مکتوب لکھا ہے جس میں کرناٹک کے مسلمانوں کے لئے سماجی حقوق کا مطالبہ کیا ہے۔

چونکہ وزیر اعلیٰ کمار سوامی نے اس بجٹ میں مسلمانوں کے ساتھ سراسر ناانصافی کی ہے تو ایسے موقع پر کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ وزیر اعلیٰ اور کرناٹک حکومت سے سوال کرے کہ آخرمسلمانوں نے ایسا کیا گناہ کیا جسکی انہیں وہ سزا دے رہے ہیں۔ چونکہ کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کے مطابق وہ ایک نمائند ہ جماعت ہے اور مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کرنے اور مسلمانوں کی سیاسی قیادت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے تو اب انکی ذمہ داری ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کمار سوامی سے سینہ تان کر سوال کریں کہ کیوں مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا برتائو کیا جارہاہے اور کیونکر بجٹ میں مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں دیاہے۔

 اس مضمون کو پڑھنے والے قارئین اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا مسلمان واقعی میں قبرستانوں کے محتاج ہیں۔ جو مسلمان زندہ ہیں اور انکی زندگیاں محال ہیں انکے لئے حکومت نے کچھ نہیں دیا ہے تو مرے ہوئے مسلمانوں کے قبرستانوں کا کیا کیا جائیگا۔ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں ہزاروں مسجدیں بنائی ہیں اور ان مسجدوں پر کروڑوں اربوں روپئے خرچ کئے ہیں۔ جو مسلمان اپنے پانچ وقت کی نمازوں جس کے لئے انہیں دن بھر میں دو گھنٹوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ کروڑوں روپیوں کے خرچ سے اپنے لئے مسجدیں بناسکتے ہیں تو کیا اپنے مرنے کے بعد پناہ لینے کے لئے قبرستانوں کے لئے خرچ نہیں کرسکتے ؟۔ زندہ لوگوں کے لئے کچھ نہیں، مرنے والوں کے لئے کروڑوں روپئے دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ کمار سوامی نے مسلمانوں کے لئے کفن کی سبسیڈی کا اعلان نہیں کیا، شاید انہیں کفن کا علم نہیں ہے ورنہ وہ کفن بھاگیہ کا اعلان کردیتے۔

آج مسلمانوں کو کے یم ڈی سی سے ملنے والے قرضوں کو بھیک کی شکل میں دیا جارہاہے۔ 20-25 ہزار روپئے کی رقم کو حاصل کرنے کے لئے مسلمان فقیروں کی طرح قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں ایسے میں قبرستانوں کے لئے فنڈس دے کر حکومت نے مسلمانوں پر احسان کردیا۔ اب تک حج سبسیڈی اور حج ہائوز کے نام پر مسلمانوں کو بدنا م کیاجاتا رہا۔ حج سبسیڈ ی تو ختم ہوگئی، حج گھر تو بن چکا۔ اب قبرستانوں کو بجٹ دے کر نیا واویلا مچایا جارہاہے اور ہم مسلمان بے وقوف بنتے جارہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔