اُترپردیش کے کتے بھی اب آدم خور بن گئے

حفیظ نعمانی

اکثر اخباروں میں پڑھنے کو اور ٹی وی میںسننے کو ملتا ہے کہ جنگل سے کوئی شیر یا چیتا آبادی میں آگیا ہے اور اس نے کئی آدمیوں کو زخمی کردیا یا کسی بچے یا جانور کو ماردیا۔ پھر اس کی ایسی دہشت اور شہرت ہوتی ہے کہ گائوں کے لوگ رات رات بھر جگہ جگہ آگ جلاتے اور پہرہ دیتے ہیں اور دن میں کھیتوں میں اس کے پائوں کے نشان تلاش کرکے معلوم کرتے ہیں کہ وہ کدھر گیا یا اب بھی کسی کھیت میں چھپا ہوا ہے؟ ایسے ہر واقعہ کے بعد ہر اخبار میں آدم خور شیر یا آدم خور تیندوے کی کہانی چھپتی ہے۔

یہ بات پڑھی بھی ہے اور سنی بھی کہ کوئی جانور فطری طور پر آدم خور نہیں ہوتا یہ صرف بھوک ہے جو اسے آدم خور بھی بناتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی برابر چرچا ہوتی ہے کہ اسے پکڑنے کے لئے ایک جانور قربان کیا جاتاہے اور محکمہ جنگلات کے افسر اور شکاری آکر اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کو یہ تو برداشت ہے کہ چند مردوں عورتوں کو آدم خور یا بھوکا تیندوا زخمی کردے لیکن یہ برداشت نہیں ہے کہ اس آدم خور کے گولی لگ جائے یا اس کی موت ہوجائے۔ اس لئے کہ بڑے بڑے وزیر فخر کے ساتھ بتاتے ہیں کہ اب ہمارے ملک میں دو ہزار پانچ سو ساٹھ شیر ہوگئے ہیں۔

یہ ہمارے صوبہ کے وزیراعلیٰ کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے جنگل کے شیروں کی کہانی پر پانی پھیر دیا اور اپنی ریاست کے ہر شہر اور گائوں میں آدم خور تیار کردیئے اور انہوں نے سینڈی کتوں کو وہ عظمت عطا کردی کہ اب انہیں آدم خور کہا جانے لگا اور ان کو پکڑنے کے لئے جگہ جگہ ماہروں کی خدمات حاصل کی جانے لگیں۔ کئی جگہ سے خبر آچکی ہے کہ والدین نے اپنے بچوں کا اسکول جانا بند کردیا اور وزیراعلیٰ نے جو اسکول چلو کی مہم چلائی تھی اسے آدم خور کتوں نے فیل کردیا۔ شہر کے وہ بچے جو اسکول کی بس سے اسکول جاتے ہیں وہ تو اسکول جارہے ہیں لیکن جو گائوں کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور وہ کھیتوں کی پگڈنڈی پر پیدل اسکول جاتے ہیں انہوں نے آدم خور کتے صاحبان کے ڈر سے اسکول جانا چھوڑ دیا جو 70  فیصدی ہیں۔ اگر انسان کی جان کی قیمت حکومت کی نظر میں ہوتی تو 12  بچوں کی کتوں کے کاٹنے سے موت اور ان کے جسم کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے والے کتوں کے بارے میں یہ خبر پڑھنے میں نہ آتی کہ کیرالہ اور ممبئی کی طرح لکھنؤ میں بھی کتوں کو پکڑنے کے لئے پرائیویٹ آرگنائزیشن کی مدد لی جائے گی۔ آرگنائزیشن ایک کتے کو پکڑنے کی ایک ہزار روپئے فیس لے گی۔ جو پکڑنے، نس بندی کرکے اسے اسی جگہ چھوڑنے کا معاوضہ ہوگی جہاں سے اسے پکڑا ہے۔

اُترپردیش میں یوگی حکومت سے پہلے کسی نے سنا بھی نہ ہوگا کہ کسی بچہ کو یا بکری بکرے کو کئی کتوں نے پکڑکر کھالیا۔ ان کی حکومت کے بعد سے جگہ جگہ سے یہ خبر آرہی ہے اور یہ کوئی نہیں کہتا کہ یہ صرف سلاٹر ہائوسوں کے نہ بننے اور گوشت کی دُکانوں کے لائسنس نہ دینے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ وزیراعلیٰ اور امت شاہ اس کے لئے تیار ہیں کہ سو دو سو بچے کتوں کی غذا بن جائیں لیکن ان مسلمانوں کو جو گوشت کھال اور ہڈی کا کاروبار کرتے ہیں انہیں روزگار نہیں دیں گے۔ ہر جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کے جسم سے اگر وہ بڑا جانور ہے تو کم از کم پانچ کلو وہ چیزیں نکلتی ہیں جن سے کتوں کا پیٹ بھرتا تھا اور اب چوری سے جو جانور کٹ رہے ہیں اس کے جسم سے وہ گوشت جو انسان کھاتا ہے وہ تو فروخت کردیا جاتا ہے اور کتوں کے مقدر کا جو نکلتا تھا وہ یوگی کے خوف سے نالوں میں بہا دیا جاتا ہے۔

اگر مسلمانوں کو بے روزگار بنانے کی ضد کا یہی حال رہا تو پھر یہ کتے پیاز اور سبزی تو کھانے سے رہے انسان کا یا پلے ہوئے بکرے بکری ہی کا گوشت کھائیں گے۔ اور یہ جو حماقت ہورہی ہے کہ ایک کتے کو پکڑنے اور اس کی نس بندی کرنے کے بعد اسے وہیں چھوڑا جائے جہاں سے محترم کتے صاحب کی گرفتاری ہوئی ہے اس سے کیا وزیر اعلیٰ یہ چاہتے ہیں کہ کتوں کی نسل تو نہ بڑھے لیکن وہ جو انسان کے بچہ کا گوشت کھاتے ہیں وہ برابر کھاتے رہیں؟

یہ بات سب جانتے ہیں کہ جن کتوں کو پالا جاتا ہے انہیں وہ شوقین وہ کھلاتے ہیں جو نہ خود کھاتے ہیں نہ بچوں کو کھلاتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ہزاروں روپئے قیمت ہوتی ہے۔ لیکن کوئی نہیں ہے جو ان اعلیٰ نسل کے کتوں کو پھینکنے والا گوشت کھلائے۔ اب اگر صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ سلاٹر ہائوس نہیں بننے دے گی تو آوارہ کتوں کو گرفتار کرنے اور ان کی نس بندی کرانے اور ان خدمات کے عوض ایک ہزار روپئے فی کتا دینے کے بجائے اعلان کردیا جائے کہ جو ایک کتے کو مارے گا اسے پانچ سو روپئے ملیں گے۔ لیکن اگر ان کی موت بھی گوارہ نہیں تو کم از کم ہر بچہ کی کتوں کے دانتوں موت کا معاوضہ پانچ لاکھ روپئے دینا چاہئے اور اس کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ جب بھوک سے کتے پاگل ہوجائیں تو ان کے کاٹنے سے جو انسان پاگل ہوں گے ان کے علاج کے لئے ہر اسپتال میں ایک بلاک بناکر تیار کردیا جائے۔

بی جے پی کی سرکار نے اُترپردیش میں جو تجربہ شروع کیا ہے کہ نہ جانور کٹے گا نہ کتوں کو مارا جائے گا اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ کتوں میں بھی آدم خور کتوں کو تلاش کیا جارہاہے اور دوسری آفت یہ آئی ہے کہ کسان سر پکڑکر رو رہے ہیں کہ جتنا قرض سرکار نے معاف کیا ہے اس سے زیادہ قیمت کی کھڑی اور ہری کھیتی ناکارہ گائیں بھینسیں اور بچھڑے چرے جارہے ہیں۔ اب ہر کھیت کی حفاظت بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آوارہ جانوروں کو اگر بھگاتے وقت کسی کے زور سے لاٹھی لگ گئی تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ اگر آج اُترپردیش کا دوبارہ الیکشن ہوجائے تو شہروں میں کیا ہویہ بتانا ذرا مشکل ہے لیکن دیہات کی ایک سیٹ بھی بی جے پی کو نہیں ملے گی جس کا صرف یہ کارنامہ ہے کہ آوار ہ کتے آدم خور یعنی شیر کہے جاتے اور کتوں کے خوف سے بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔