اِنک لعلی خلق عظیم

عبدالرحیم ندوی

(استاذ مدرسہ فاروقیہ مسجد صدیق اکبرؓ رفیع نگر)

اس عالم رنگ و بو میں ابتدائے آفرینش ہی سے ان گنت مثالی افراد نے جنم لیا، لا محدود نابغۂ روزگار شخصیتیں دنیا کے اسٹیج پر رونما ہوئیں، فلاسفہ، حکماء، اہل دانش و بینش منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئے، اور اپنی اپنی جلوہ گری کرکے رخصت ہوگئے، اپنے اپنے نقوش ثبت کرگئے، انسانیت سازی کیلئے اصول وضوابط مرتب کرگئے، اخلاق و کردار سے دلوں کو مسخر، قلوب کو منور اور خیالات و نظریات سے اذہان کو تحیر اور ارشادات و ملفوظات سے احساسات کو پر مسرت کرگئے، لیکن کب تک چند روز، چند مہینے، سال دو سال بہت زیادہ قرن دو قرن، صدی دو صدی انکی تمازت و حرارت برقرار رہ سکی، پھر کیا ہوا، گرم انگیٹھی سرد پڑگئی، اضمحلال و پژمردگی نے ڈیرہ ڈالدیا، ضعف و لاغری نے دھاوا بول دیا، فقط بے دم و بے ثبات، بے روح و جان طوفان کے ایک جھونکے کی طرح سرسراتے ہوئے گذر گئے، کیونکہ یہ انسانی تجربے تھے جو انسانی ذہن ودماغ اور فکر و تخیل کے ڈھلے ڈھلائے تھے، جنکی بنا محض ظن و تخمین پر تھی، جن کو وہ خود صد فیصد نہ برت سکے تو ڈانواں ڈول سفینۂ حیات انسانی کو کس قدر سہارا دیتے، اور اسے بھنور میں پھنسنے یا غرقابی سے نجات دلانے میں کامیاب ہوتے، جہاں اخلاق میں حسن تو اعمال میں قبح، اقوال میں شیرینی تو افعال میں تیزابی، صورت ہے خوب تو سیرت ہے بد، زباں پردعا ہے تو دل میں دغا، چہرہ معصوم ہے تو نگاہیں فریبی، کہیں نہ کہیں نقص ضرور جھلکتا ہے اور عیب دامن گیر ضرور ہوتا ہے۔

  مگر اسی عالم ناپائیدار میں، اسی انسانی دنیا میں قدرت کی طرف سے ایک ایسا گوہر نایاب، فرد فرید، وحید زماں، یکتائے روزگار نمودار ہوا جس نے جاں بلب بشریت کی مسیحائی کی، زخم خوردہ انسانیت کی مرہم پٹی کی، بے سہارا کو سہارا دیا، خدا فرماموش کو خدا شناسی کا گر سکھایا، شقی القلب کو دل درد مند کا عطیہ دیا، عقل کی بالیدگی اور فکر کی بلند پروازی سے سرشار کیا، انسانیت کو صحیح راہ پر لاکھڑا کیا اور انسان دوستی کا درس دیا، سلیقۂ زندگی اور طریقۂ بندگی سے آشنا کیا، اور کیوں نہ کرتا، اس کی بعثت کا مقصد ہی یہی تھا، ’’ لقد من اللہ علی المؤمنین إذ بعث فیہم رسولا منہم یتلو علیہم اٰیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب و الحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلال مبین‘‘ اور وہ اس کا اہل بھی تھا، کیونکہ اس کی تربیت و تہذیب، اس کی نشوونما اور ساخت و پرداخت کا سامان خزانۂ غیب سے کیا گیا تھا، اس کا مزاج مزاج رحمانی اور منہاج منہاج سبحانی سے مربوط تھا، وہ تجلیات الٰہی کا حقیقی مظہر تھا اور صفات الٰہی کا پرتو تھا، مستزاد یہ کہ حسن کا پیکر تھا غرض اس کی ہر ادا میں الہیات کا تصور اور جلوہ تھا۔

بنی نوغ انسان نے جس وقت سے دنیا میں قدم رکھا ہے اب تک اخلاق کریمانہ کا ایسا پیکر مجسم جس کے قوت خلق و عمل نے دنیائے انسانی کو یک لخت اپنا گرویدہ بنا لیا ہو، پیدا ہوا، نہ ہے اور نہ ہوگا، کیونکہ اس کے پس پردہ یہ راز پنہاں ہے کہ اسے خلق عظیم کا عطیۂ سبحانی اور اسوۂ حسنہ کا تحفۂ ربانی ملا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ بہمہ صفات حمیدہ کا حامل ہے اور منتہائے خلق حسن ہے، اس لئے کہ وہ مکارم اخلاق کی تکمیل کرنے والا ہے اور یہ خلق حسن ایک صفت یا کسی ایک خوبی کا نام نہیں ہے، بلکہ خلق حسن نام ہے جملہ صفات بشریہ کا، وہ خوبیاں جو ایک نیک انسان میں پائی جاسکتی ہیں یا پائی جانی چاہئے، ان تمام صفات جمیلہ کا نام اخلاق حسنہ اور اسوۂ حسنہ ہے، جن میں شرافت، نجابت، صداقت، امانت، عفت و عصمت اور حسن معاملت و معاشرت، جو دو سخا، صدق و وفا، ایثار و قربانی، عدل کستری، تواضع و انکساری، عفو وکرم، مہمان نوازی، سادگی و بے تکلفی، زہد و قناعت، خلق خدا پر رحمت و شفقت، مودت و محبت وغیرہ جیسے گراں بہا جوہر پائے جاتے ہیں، ان تمام ہی ہیرے جواہرات اور یاقوت و مرجان سے جگر گوشۂ آمنہ مرصع و مزین تھا، جس نے انسانیت کو بنایا اور سجایا، نکھارا اور سنوارا اور ایسا حسین و جمیل، دلکش و دل نشیں مہکتا ہوا گلدستۂ انسانی تیار کیا جس سے پوری انسانی برادری معطر اور سارا عالم مشک بار ہوگیا، رہتی دنیا تک اس کے شمیم اخلاق و روحانیت قلوب و نفوس کو مہکاتی اور ان میں اپنی خوشبو رچاتی اور بساتی رہے گی۔

 خداوند قدوس نے امام الانبیاء خاتم النبیین و المرسلین احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کو خلق عظیم کے منصب جلیل سے نوازا، جس میں آپﷺ کی ذات کو انفرادیت حاصل ہے، تنہا آپ ہی کے حصہ میں یہ نعمت عظمی آئی، جس کی شہادت کلام الٰہی نے بھی دی ہے ’’إنک لعلی خلق عظیم‘‘ دیگر انبیاء و مرسلین اس خصوصیت سے خالی و عاری نظر آتے ہیں، کیونکہ بعض کو خلق حسن سے نوازا گیا اور بعض کو خلق کریم سے، مگر خلق عظیم کا اعلیٰ اور ارفع مقام و منصب حضور پرنورﷺ کو ملا۔

 خلق حسن کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام اعتدال سے ہو، بدلہ لینے میں بھی اعتدال و توازن ہو، ذرا بھی افراط و تفریط نہ ہو جیسا کہ بنی اسرائیل کے تذکرہ میں ملتا ہے، ’’وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس والعین بالعین والأنف بالأنف والأذن بالأذن والسن بالسن والجروح قصاص‘‘ (ہم نے ان پر تو رات میں یہ حکم قصاص نازل کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بدلہ ہے)

دوسرا درجہ خلق کریم کا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایثار سے کام لیا جائے، اس کاتذکرہ ہمیں شریعت عیسوی میں ملتا ہے ’’تم کو کوئی ستائے تو اسے معاف کردو بلکہ کوئی ایک طمانچہ رسید کرے تو دوسرا گال بھی حاضر خدمت کردو‘‘ مفسر قرآن علامہ عبدالحق حقانی دہلویؒ نے انجیل کے حوالہ سے حضرت عیسیٰؑ کا قول نقل کیا ہے ’’جو تیرے دائیں گال پر طمانچہ مارے اس کی طرف دوسرا گال بھی کردے‘‘ مگر فداہ ابی و امی محمد عربیﷺ کو خلق حسن اور خلق کریم کے ساتھ ساتھ ’’خلق عظیم‘‘ کا امتیازی طمغہ عنایت کیا گیا تھا، کیونکہ آپﷺ کی ذات والا صفات تتمۂ نبوت ہی کی طرح تتمۂ اخلاق بھی تھی اور چونکہ قرآن مجید تمام کتب سماویہ میں آخری ایڈیشن کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے آپﷺ کی زوجۂ مطرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شہادت بھی اس پر صادق آتی ہے کہ آپﷺ کا خلق سراپا قرآن کریم ہے، جسے آپﷺ نے صد فیصد برت کردکھایا، صاحب نور الانوار ملا جیونؒ خلق عظیم پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’آپﷺ کا خلق عظیم قرآن کریم پر عمل کرنا ہے اور بلاتکلف قرآن پر عمل کرنا آپﷺ کی فطرت اور عادت بن گیا تھا، حاصل یہ کہ جو قرآن میں ہوتا آپﷺ اس پر عمل فرماتے اور جس پر آپﷺ عمل فرماتے وہ قرآن میں ہوتا، بعض حضرات نے فرمایا کہ خلق عظیم دنیا و آخرت میں سخاوت اور انابت الی اللہ ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپﷺ کا خلق عظیم وہ ہے جس کو آپﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا، ’’صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن إلی ما اسائک‘‘ (تعلق ختم کرنے والے کے ساتھ تعلق قائم کرو اور ظالم سے درگزر کرو اور بدسلوکی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کرو) اور صحیح تربات یہ ہے کہ خلق عظیم اس راستہ پر چلنے کا نام ہے جس سے خالق و مخلوق سب راضی ہوں۔ (قوت الأخیار شرح نور الانوار، ج: ۱، ص:۳۲/۳۳)۔

 قرآن کریم میں تینوں اصناف کا تذکرہ ملتا ہے، ’’خلق حسن‘‘ اس کا سبق آیت ذیل سے ملتا ہے: ’’فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم‘‘ (جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے تم پر کی ہے) ’’وجزاء سیئۃ سیئۃ بمثلہا‘‘ (اور برائی کا بدلہ اسی قدر برائی ہے) ’’ولمن انتصر بعد ظلمہ فأولٰئک ماعلیہم من سبیل‘‘ (جو اپنے اوپر ظلم ہوچکنے کے بعد برائی کا بدلہ لیتے ہیں تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں )۔

 ’’خلق کریم‘‘ اس کی تعلیم مذکورہ آیت ہی کے اگلے جز سے ملتی ہے ’’فمن عفی و أصلح فأجرہ علی اللہ‘‘ (مگر جو شخص معاف کردے اور صلح کرلے تو اس کا اجر و ثواب اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذمہ ہے) ’’ولمن صبر و غفر إن ذٰلک لمن عزم الأمور‘‘ (اور جس نے صبر و تحمل، عفو و درگزر سے کام لیا تو یقینا اس کا یہ عمل مطلوب شرعی اور بڑی ہمت والا ہے)۔

’’خلق عظیم‘‘ اس کا درس درج ذیل آیت سے منقح ہوتا ہے: ’’فاعف عنہم واستغفر لہم وشاورہم فی الأمر‘‘ (سو آپﷺ ان کو معاف فرمادیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں اور کام کاج میں ان سے مشورہ بھی طلب فرمائیں ) ’’والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین‘‘ (اور وہ اپنے غصہ کو مارتے ہیں اور کسی سے بدلہ بھی نہیں لینا چاہتے خواہ وہ اپنا ہو یا بیگانہ اور اللہ تبارک و تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے)

معلوم ہوا کہ اس جوہر  نایاب سے نبی پاکﷺ کی پروردہ نسل کو بھی گرانبار کیا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ خود پیکر اخلاق ﷺ اور آپﷺ کے اصحابؓ نے اقتدار پاکر بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ نیک سلوک کیا، انتقام کے بجائے احترام اور موقعہ بموقعہ انتظام و انصرام اور نصرت و اعانت کی، حتی کہ اپنے حقوق کا کسی سے مطالبہ تک نہیں کیا، آپﷺ کا یہ تاریخی مقولہ ’’لاتثریب علیکم الیوم وأنتم الطلقاء‘‘ (آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو) اس کی بین دلیل ہے۔ (نبی رحمت: ص۴۵۸)

  قادر مطلق نے نبی ﷺ کو تمام انبیاء سابقین میں نمایاں بنایا اور امتیازی اوصاف و کمالات سے نوازا تھا چونکہ آپﷺ کی ساخت و پرداخت کا سامان غیب سے کیا گیا تھا، اس لئے آپﷺ کی ہر ادا کی ایک الگ ہی شناخت تھی، آپﷺ کی ذات اقدس اعلیٰ اور رسالت و نبوت عالمگیر تھی، آپﷺ کی صفات حمیدہ اور اخلاق کریمانہ بلکہ عظیمانہ عالمی سطح کے تھے، اخلاق و کردار میں سیرت و صورت میں خوبی ہی خوبی، حسن ہی حسن، قدرت کے بعد تنہا آپﷺ کی ذات بے نقص و بے عیب تھی، تب ہی تو شاعر اسلام حضرت حسان بن ثابتؓ کو یہ شہادت دینے پڑی۔

خلقت مبرأ من کل عیب 

  کأنک قد خلقت کما تشاءُ

 گویا کہ آپﷺ کمال بشریت کے حامل، جمال انسانیت سے سرشار تھے اور اس وقت کی متعفن دنیا کو ایسے ہی باکمال و باجمال انسان کی ضرورت تھی جو اپنے کمال حسن و جمال اور کمال خلق و عمل سے سب پر چھا جائے اور دلوں کو مسخر بلکہ اپنی پاکیزہ خوشبو سے فضا کو معطر اور اپنی ضیا بار روشنی سے ماحول کو منور کردے، دیکھنے میں بھی کچھ اس طرح آیا کہ پوری انسانی برادری، بلکہ پوری کائنات نے پرتپاک انداز میں استقبال کیا، اسے گلے سے لگایا، دل میں بسایا اور پلکوں پر بٹھایا، بلکہ حز جاں بنایا، کیا بشر و ملک، کیا جن و انس، کیا شجر و حجر، کیا دشت و کوہ، ذرہ ذرّہ بوٹا بوٹا آپﷺ کی آمد ناز پر نغمہ سنج ہوگیا، ہر طرف خوشی کے گیت گائے جانے لگے، یہ الگ بات ہے کہ جب تک بات سمجھ میں نہ آئی تھی، یا جنہیں اپنی سیادت و قیادت کا خطرہ لاحق تھا مخالفت ہوئی، عربی کا مقولہ ہے ’’الإنسان عدو لماجہل‘‘ (انسان جو نہیں جانتا اس کا دشمن بن جاتا ہے)۔

سلام اے شمع روشن چشم عبداللہ کی بینائی           

زمانہ تجھ پر قربان ہے، فرشتے تیرے شیدائی

تیری آمد سے رونق آگئی گلزار ہستی میں   

عنادل چہچہا اٹھے، بہار آئی بہار آئی

 موسم ربیع میں آپﷺ کی ولادت سے ایک طرف دنیا میں بہار آئی تو دوسری طرف اس ماہ مبارک میں آپﷺ کی وفات سے خزاں چھایا۔ لہٰذا اس خزاں کو دور کرنے اور روٹھی بہار کو واپس لانے کا آسان نسخہ آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی کامل اتباع اور آپﷺ کے خلق عظیم کا اختیار کرنا اور اسوۂ حسنہ کو اپنانا ہے، اللہ سب کو بھر پور توفیق دے۔ (آمین)

تبصرے بند ہیں۔