آئین پادشاہی اور جمہوری تماشہ

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
دنیا میں جمہوریت کے تاریخ کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے لیکن کہا یہ جاتاہے کہ جمہوریت کی تاریخ سب سے پہلے یونانی مفکر ارسطو نے بیان کی تھی اور اس کی وضاحت بعد کے زمانے میں ارسطو کےشاگرد پلاٹو نے کی تھی گویا اس زمانے کے یونان میں بھی کسی نہ کسی صورت میں جمہوریت موجود تھی موجودہ زمانےکی جمہوری حکومتوں کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ 1707میں برطانیہ کا انتخاب پہلا انتخاب تھا اور اس کے بعد مختلف صورتوں میں ان انتخابات کی اصلاح ہوتی رہی اور اس وقت دنیا میں زیادہ تر ممالک کی حکومتیں اسی طرز جمہوریت کے تحت منتخب ہوتی ہیں۔ جن ممالک میں اس طرح کے انتخابات نہیں ہوتے ان کی حکومتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا دنیا کے دوسرے ممالک ان مذکورہ حکومتوں سے اپنے تعلقات محض مفادات کی بنیاد پر قائم کرتے ہیں۔ حال ہی میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ دنیا کی بڑی جمہوریتوں کو اگر چھوٹے ملکوں میں انتخابی ذرائعوں سےمنتخب کی گئی کوئی حکومت، حکمراں، سیاسی جماعت یا لیڈر پسند نہیں آتا تو داخلی بغاوت کے ذریعے یا عالمی دباؤ کے تحت ان جمہوریتوں کو مسترد کردیا جاتاہے۔ قبول آمریت کی ایک بڑی مثال خلیجی ممالک ہیں تو رد جمہوریت کی مثال کے طور پر مصر اور فلسطین کو پیش کیا جاسکتاہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہو جاتاہے کہ کیا واقعی دنیا میں پارلیمانی نظام کے تحت چلنے والی حکومتیں پسندیدہ اور قابل عمل ہیں یا محض دکھاوے کے طور پر ہم انتخاب کے ذریعے کسی آمریت کو ہی منتخب کرتے ہیں۔ ہندوستان میں انتخابی جمہوریت کی تاریخ 1946 میں ہو ئے دستور ساز اسمبلی کے انتخابا ت سے شروع ہوتی ہے بعدازاں 1952 سے اب تک اٹھارہ پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہیں ملک نے کثیر جماعتی جمہوریت کو پسند کیا ہے جس کے تحت تقریباً 1200سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ ان جماعتوں کے علاوہ افراد کو بھی آزاد امید وار کے حیثیت سے انتخاب لڑنے کا حق دے کر ملک کے ہر شہری کو جمہوریت میں حصہ دار بنانے کا دعویٰ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت کو دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے بہترین جمہوریت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اس امر کو ملحوز رکھنا چاہیے کیا یہ جمہوریت قرار واقعی طور پر ملک کے عوام کے لیے غنیمت، نجات دہندہ اور ان کے معیار زندگی کو بلند کرکے یکساں مواقع فراہم کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ آزاد ہندوستان میں گذشتہ 70 سال کا سیاسی تجربہ اس کی نفی کرتاہے۔ ہر 5سال میں ہونے والے انتخابات میں ملک کی کم سے کم 6 قومی سیاسی پارٹیاں اور 50 سے زائد ریاستی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے امید واروں کے سواتقریباً 10ہزار آزاد امید وار ہر بار نئے انتخابی وعدوں کے ساتھ انتخاب لڑتے ہیں ہر سیاسی جماعت عوامی فلاح و بہبود کے نعروں کے ساتھ جمہوریت سیکولرزم اور سماج واد کی بقا کے نام پر ہی انتخاب لڑتی ہے۔ لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ہر انتخاب کے بعد یہ وعدے نظرانداز کر دیئے جاتے ہیں او رمنتخبہ لوگ محض ذاتی معیار زندگی بلند کرنے کی جستجو میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ ملک کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتیں نعرے جو بھی لگائیں لیکن ان کے پیش نظر ذاتی اقتدار اور مفادات ہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام کا استحصال بھی روز افزوں ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کے انفراسٹکچر کی ترقی ابھی تیس سال سے ہی شروع ہو ئی ہے وہ بھی محض چند لوگوں کے اقتدا اورر مفادات کو ملحوظ رکھ کر ہی ہو ئی ہے ایک عام ہندوستانی شہری کی زندگی میں کوئی واضح فرق رونما نہیں ہوسکا ہے۔ شرح ترقی اورشر ح نمو کے مابین واضح فرق موجود ہے اور یہی فر ق اس بات کا ثبوت ہے کہ ترقی کے منصوبے عوامی مفادات کو پیش نظر رکھ کے نہیں بنائے گئے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ خود سیاسی جماعتوں کے اندر داخلی جمہوریت کا شدید فقدان ہے اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو سب سے پہلے نظر کانگریس کی جانب جاتی ہے ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے لیکر اب تک یہ پارٹی نہرو خاندان کے ہی ارد گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے لال بہادر شاستری نرسمہا رائو اور سیتا رام کیسری کے استثنیٰ کے ساتھ اب تک یہ پارٹی نہروں خاندان کے چنگل سے آزاد نہیں ہو سکی۔ گوکہ جمہوریت کے نام پر ہر چار سال میں پارٹی قیادت کا انتخاب ہوتا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ قیادت نہرو خاندان کے سوا کسی اور کے ہاتھ نہیں لگ سکتی۔ بد قسمتی سے داخلی جمہوریت سے محروم اسی سیاسی جماعت کی حکمرانی 60سال تک اسی پارٹی کے ہاتھوں میں رہی تو کیا ایسی کسی جماعت کی حکمرانی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ عوامی جمہوریت کو گوارہ کر لے گی۔ اسی جماعت کی دیکھا دیکھی ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں میں قیادت کے منصب پر خاندانی وراثت کو منتقل کر نے کی دانستہ کاوش دیکھی جاسکتی ہے۔ بڑی سے لیکر چھوٹی تک اورقومی سے لیکر ضلعی تک زیادہ تر جماعتیں قیادت کو اپنے ہی خاندان تک محدود رکھنے کے لیے کوشاں رہتی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کے عوام بھی ان خاندانی قیادت والی جماعتوں کو اقتدار تک پہنچانے میں کوئی ترد د محسوس نہیں کرتے اس کی تازہ مثال اتر پردیش کی حکمراں سیاسی جماعت سماج وادی پارٹی کا حالیہ خاندانی تنازعہ ہے۔ تقریباً 24سالہ پرانی یہ پارٹی مشہور سماجوادی لیڈر ملائم سنگھ یادو نے قائم کی تھی واضح رہے کہ اس پارٹی کے قیام کا مقصد ملائم سنگھ یادو اور اجیت سنگھ کے ما بین اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ پر قبضہ کرنے کی جدو جہد تھا۔ گویا پارٹی کا قیام ہی حصول اقتدار کی تگ ودو تھا۔ اقتدار کی خواہش کو سماج واد کے پردے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور ساری جد وجہد اور توانائی اسی بات پر صرف کی جاتی رہی کہ کسی بھی صورت میں اتر پردیش کا اقتدار ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے سماج واد کے دلفریب نعرے کے نام پر اتر پردیش کے لاکھو ں لوگ ملائم سنگھ یادو کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے اور کئی بار پارٹی کو مسند اقتدار تک پہنچایا۔ آج بھی اتر پردیش کے 29 فیصد ووٹران سماج وادی پارٹی کے حق میں ہیں۔ لیکن عوامی اقتدار کے نام پر قائم کی گئی اس پارٹی نے کبھی بھی پارٹی کا اقتدار عوام کے ہاتھوں تک نہیں پہنچنے دیا بلکہ خاندان کے چند بڑوں کے ہاتھ میں ہی محدود رکھا گیا۔ ملائم سنگھ یادو کے دونوں بھائی، بیٹا اوراکثر بھتیجے اور بھانجے پارٹی کے اہم اور فیصلہ ساز عہدوں پر متمکن ہیں جب کہ عوام کے حصے میں نمائشی عہدے ہی آتے ہیں پارٹی کے ہر اہم فیصلے میں عام طورپر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ فیصلہ ’پریوار ‘کے لوگ کریں گے۔ چنانچہ ٹکٹوں کی تقسیم ہوں یا راجیہ سبھا کی نامزدگی ہر جگہ وہی لوگ کامیاب نظر آتے ہیں جو پریوار کے کسی ایک فرد کے وفادار ہوں۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب حالیہ تنازع میں پارٹی لیڈر کے وزیر اعلیٰ بیٹے نے پریس کانفرنس تک میں یہ کہہ دیا کہ پریوار سے باہر کے لوگوں کی وجہ سے پارٹی میں پریشانیاں آرہی ہیں۔ اور خود ملائم سنگھ یاد ونے ایک عوامی جلسے میں اپنے کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے اسی وزیر اعلیٰ کے منہ پر کھلے عام یہ کہہ دیا کہ تم ’’وزیر اعلیٰ صرف اس لیے بن گئے ہو کہ تم میرے بیٹے ہو‘‘ کھلے بندوں کی گئی یہ جملے بازی جمہوریت کی نفی کا بے شرم اظہار ہے جو بتاتا ہے کہ اقتدار کی بھوکی یہ جماعتیں کوئی عوامی سروکار نہیں رکھتی بلکہ غربت کے ملبے سے اٹھے ایک خاندان کو آمریت بخشنے کیلئے جمہوریت کا لبادہ اُڑھا دیا گیا ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ جو سیاسی جماعتیں جمہوریت اور سماج واد کی سب سے بڑی دعویدار ہیں وہی جماعتیں اپنے داخلی امور میں اپنے گھر کی چہار دیواری لانگنے سے بھی معذو ر نظر آتی ہیں۔ سماج وادی پارٹی کا موجودہ بحران یقینی طورپر کوئی اصولی یا نظریاتی بحران نہیں ہے بلکہ ایک ہی خاندان کے اندر پارٹی کے قیادت کو طئے کرنے کا ایک جھگڑا ہے۔ جو بظاہر شیوپال یادو اور اکھلیش سنگھ کے درمیان رسہ کشی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے لیکن پردے کے پیچھے اسی خاندان کے ایک دوسرے قد آور لیڈر رام گوپال یادو کی سیاسی ساکھ بھی دائو پر ہے ایسے میں پارٹی میں ایک مرتبہ پھر شامل ہوئے سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر امر سنگھ بھی پردے کے پیچھے سے ہی کھیل رہے ہیں کیونکہ یہ خود ان کے سیاسی مستقبل کا سوال بھی ہے۔ اس سب ڈرامے میں عوامی مفاد دور دور تک موضوع بحث نہیں ہے۔ کہتے ہیں جھگڑا ختم ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھگڑا اب شروع ہو ا ہے قلیل مدتی جھگڑا تو محض 2017کے اسمبلی انتخاب میں اپنی طاقت کے اظہار تک محدود ہے لیکن طویل مدتی جھگڑا ان انتخابات کے بعد پارٹی کی قیادت کیلئے دعویداری کا اظہار بھی ہے۔ فی الحال طاقت کا پلڑا شیوپال یادو اور امر سنگھ کی جانب جھکتا دکھائی دیتاہے لیکن جیسے جیسے انتخاب قریب آئیں گے ترازو کے دونوں پلڑے اپر نیچے ہوتے رہیں گے ملائم سنگھ یادو وزارت عظمی خواب توچھوڑ چکے ہیں لیکن اتر پردیش کی گدی کو اپنے خاندان کیلئے بچائے رکھنے کی جدو جہد کیلئے وہ کسی حد تک بھی جانے سے گریز نہیں کریں گے۔
یہی وہ معاملات ہے جو یہ سوچنے پر مجبو رکرتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقت ور جمہوریت کیا عوامی سطح پر ناکام ہو چکی ہے؟ کیا ہندوستانی عوام کا ذہن ہزاروں سالہ آمرانہ نظام سے اب تک بھی نجات حاصل نہیں کرسکا؟ کیوں ملک کے کروڑوں لوگ کانگریس کی خاندانی وراثت کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں ؟کیوں ملائم سنگھ، یادو لالو، پرساد یادو، شرد پوار، نوین پٹنائک، مایاوتی، کرونا ندھی، راج شیکھر ریڈی اور تقریباً ہر ریاست میں کوئی نہ کوئی مقتدر جماعت پارٹی کے کلیدی عہدو ں پر اپنے ہی خاندان کے لوگوں کو رکھنا پسند کرتی ہے اور عوام بھی انہیں قبول کرتے رہتے ہیں۔ گویا آمریت کی شکل بدل رہی ہے اصل نہیں۔ یہی بڑی وجہ ہے کہ ترقی کے فوائد چند خاندانوں تک تو پہنچ رہے ہیں عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ جمہوریت کے نام پر مرکزی اور صوبائی سطح پر ہم نے چند پریواروں کے راج کو قبول کرلیا ہے۔
یہاں بات ملحوظ خاطررہنا ضروری ہے کہ ان حالات میں بھی وہ سیاسی جماعتیں جو کسی نہ کسی نظریے کے بنیادپرقائم ہیں اور اس نظریے پر سختی سے کاربند بھی ہے ان میں آج بھی داخلی جمہوریت کی کو ئی کمی نہیں ہے اور اس کی مثالیں قومی سطح پر کمیونسٹ پارٹیاں اوربھارتیہ جنتا پارٹی ہیں۔ حالانکہ اپنے اپنے متضاد نظریات کے باوجود ان پارٹیوں کی قیادت بھی کسی پریوار کے اندر بھلے ہی محدود نہ ہوں لیکن اعلیٰ ذات ہندؤوں کے دائرے سے باہر نہیں آسکی۔ ایسے میں ملک کے عمومی انتظام و انصرام او ر نظم و نسق کے معاملے میں عام ہندوستانی شہری کا کوئی فعال دخل نہیں ہے بلکہ دولت اور طاقت اقتدار کا معیار بن چکی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کے ممبران کا مجرمانہ ریکارڈ اور تعلیمی لیاقت کے اعدادو شمار اس کا منہ بولتا آئینہ ہے ساتھ ہی ایوان میں اعلیٰ ذات ہندؤوں کی تناسب سے کہیں زیادہ تعداد بھی اس کا مظہر ہے۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عام ہندوستانی شہری ابھی تک بھی ذہنی غلامی سے نہ تو خود آزاد ہوسکا ہے او رنہ ہی ملک کے قیادت نے ذہنی غلامی کی اس زنجیر کو توڑنے کی کوئی کوشش کی ہوبلکہ مزید اسے فروغ ہی دیا ہے۔ ہماری جمہوریت آزادی کے بعد سے اب تک کبھی خالص نہیں رہی بلکہ متاثر رہی ہے۔ اس کو متاثر کرنے کے عوامل ہر انتخاب کے وقت بدلتے رہتے ہیں۔ اس جمہوریت کو آسانی سے کبھی ملک کی داخلی سیاسی جماعتیں، کبھی نام نہاد ثقافتی تنظیمیں اور کبھی غیر ملکی طاقتیں اپنی اپنی غرض سے متاثر کرتی ہیں اور عوام جمہوریت کے نام پر فریب کھاتے رہتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔