آزادی بے خوف و خطر کا نام ہے

محمد صابر حسین ندوی

ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی دن آجاتا ہےآزادی کا،آزادی نہیں آتی. ملک میں چہار جانب خوف و ہراس کا ماحول عروج پر ہے، ہجومی دہشت گردی اور زعفرانیت کے ظلم وستم کا بول بالا ہے،اقلیت گھٹ گھٹ کر سانسیں لے رہی ہے،تمام طاقتیں چند مٹھیوں میں سمٹ کر رہ گئی ہیں، کرپشن اور دغا بازی سیاست کی لونڈی بن چکی ہیں، تفرقہ و انتشار اور آپسی محبت کی شعائیں ماند پڑنے لگی ہیں،ایک دوسرے کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، طمانیت وسکون کافور ہوچکے ہیں، اعتماد وبھروسہ زمانہ گزشتہ کی بات بن چکی یے، دعوتیں اور لطافت، دلجوئی و اخوت بے گانہ بن چکے ہیں،خصوصا ایک ہی طبقہ کو نشانہ بنا کر رسوا کرنے اور اس کیلئے زندگی تنگ کردینے حتی؛ کہ اسے جینے سے بھی محروم کردینے پر آمادہ ہیں، اگر کوئی بس چلے اور کوئی خارق عادت قوت نصیب ہوجائے ؛تو شاید انہیں کسی سامان کے مثل دوردراز سنمدر کے حوالے کردینے یا کسی وادی ذی زرع میں پھینک دینے کی تمنا بلکہ اسے بروئے کار لانے سے بھی گریز نہ کریں گے، بیرون ممالک کی محبت کا طعنہ اور دیش سے غداری کا الزام تو آئے دن جھیلنا ہی پڑتا ہے۔

   اسی طرح اگر ملک کی انسانیت و رواداری خطرہ میں ہے تو وہیں اس کی آزادی و جمہوریت کو چیلنجز لاحق ہیں، آزادی کا چوتھا ستون یعنی ذرائع ابلاغ پر کلی طور سے قبضہ پا لیا گیا ہے، میڈیا اب گودی اور درباری میڈیا بن  چکی ہے، وہ شعبہ جس سے امن وآشتی اور انس و امان کی فضا چلنی تھی ؛جہاں سے ملک کی جمہوریت کو طاقت و قوت ملنا تھا،جہاں سے بے کسوں اور مظلوموں کی اور حق کی آواز بلند ہونی تھی؛ جہاں سے حقیقت و معنویت کا شہرہ ہونا تھا، اور جہاں سے سرکاری پالیسیوں کا تجزیہ وتحلیل ہو کر عوام کے سامنے دودھ کا دودھ،اور پانی کا پانی ہونا تھا ؛وہ شعبہ اب حکومت کے تلوے چاٹ رہا ہے، ان کی مدح وثنا میں ایسے ملوث ہے؛ گویا نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر، اب ان کے سامنے سچ دم توڑ رہے ہیں، حقوق روندے جارہے ہیں، ماڈرن ازم کے نام پر فحاشی و عیاری کی تشیہر کی جارہی ہے، نوجوان نسلون کو بے راہ کرنے اور انہیں کسی کام کا نہ رہنے دینے کی پر زور کوششیں کی جارہی ہیں۔

   رہی سہی دیگر جماعتیں تو سب کے سب ’’ پھو پھیرے اور موسیرے بھائی‘‘بن چکے ہیں، اب جماعت کی تبدیلی گویا ایک ملاح کا تھک کر پتوار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں بدل لینے سے زائد کچھ نہیں ، ایسا قطعا نہیں کہ شہ نشیں پر بیٹھنے والے کی تبدیلی ملک کو بدل کر رکھ دے؛ بلکہ ان سب کا حال یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادی ملک کے خزانوں پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں، ہر ممکن اپنی جیب نہیں؛ بلکہ تجوریاں بھر کر نہ صرف خود کیلئے؛بلکہ نسل در نسل کی آسائش کا بندو بست کر رہے ہیں، اگر کل کو برطانوی طاقتوں کا راج تھا ،یا اس سے قبل مسلم حکمرانوں کی حکومت تھی تو ویسے ہی آج ملک کے خاص خاص خاندان اور خاص خاص ذات پات کا دور دورا ہے، پوری سلطنت چند لوگوں کے قبضہ میںآچکی ہے، اگر خدا نخواستہ کوئی جماعت یا خاندان اپنے قابو سے بری بھی ہوجائے ؛تو دوسرا اس کیلئے سرپرست کا کردار ادا کرتا ہے، ایک دوسرے کی پردہ پوشی اور ملمع سازی کر کے ائندہ کی راہ ہموار کرتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہوا تو مد مقابل کو زندگی کا حق بھی نہیں دیا جاتا، اسے اور اس کے خاندان کےایک ایک فرد کی زندگی دو بھر کردی جاتی ہے، ان پر ٹیکس اور فساد کے چھاپے پڑواکر جیل کی ہوا کھلائی جاتی ہے۔

حکومت اب کسی کے سامنے جواب دہ نہیں رہی، پارلیمنٹری کارروائیاں بے معنی ہوچکی ہیں، اب اس کے اندر کام کے بجائے ستائش اور جملہ بازیاںاور لفاظیاں کی جاتی ہیں، ملک میں پیدا ہورہے نفرت اور بدامنی پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی؛ بلکہ ایسے لوگو ںکو حوصلہ دیا جاتا ہے، خصوصا ایسے ہی افراد کا استقبال کیا جاتا ہے، ان ہی کے نیتا وسیاست دان ان کے ساتھ تصویریں نکلواتے ہیں، عدالتوں کے فرمان بھی کوئی معنی نہیں رکھتے؛ حتی کہ عدالت عظمی کے حکم پر بھی کان نہیں دھرتے، بلکہ نوبت تو یہ آچکی ہے ؛کہ عدالتوں کو بھی مشکوک کر دیا گیا ہے، ان سے عوام اور بے بس باشندوں کو بھروسہ اٹھتا جارہا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کی ذاتیات پر حملہ ہور ہے ہیں، ہر پل انہیں اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچانے کی تیاری ہورہی ہے ،یا کہئے! کہ ہوچکی ہے، آدھار کارڈ کو لازم بنا دینا اور اب این ،سی، آر کے نام پر اپنے ہی ملک میں اجنبی بناکر رکھ دینے کی سازش نے حالت دگر گوں کردی ہے، کوئی وقت ایسا نہیں جب آزادی محسوس ہو؛ بلکہ ہر وقت جاسوسی کے چنگل میں پھنسے ہونے اور دم بخود ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

تعلیمی مراکز بھی محفوظ نہیں ہیں، علم کا مزاق اڑایا جارہا ہے، ہاورڈ اور ہارورڈ کہہ کر اور نت نئی بے تکی تھیوریاں دے کر سائنس وتکنالاجی کے ساتھ ٹھٹھولا کیا جاتا ہے، عہد ماضی کو سائنس کا دور بتلا کر گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان اداروںمیں پڑھنے والے اور پڑھنے والیاں اب محفوظ نہیں، ان پر حملہ ہوتے ہیں ،انہیں عصمت دری کی دھمکی بھی جاتی ہے، ان کی آوازیں پست کردی جاتی ہیں،ان کی جانب سےکی جانے والی مخالفت کی ہوا اکھاڑ دی جاتی ہے، اب تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے ؛کہ تعلیم وتربیت کے نام پر مراکز تعمیر کر کے عورتوں کو اور معصوم بچیوں کو فحش کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے، وہاں سے روح سوز اور جاں سوز خبریں آتی ہیں۔ایسی خبریں جن کو سننا گویا اپنے کانوں میں گرم سلاخیں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے،اب فتنہ پرور آزاد ہیں اور مفسد عناصر کے بال وپر نکلے ہوئے ہیں، فرقہ بندوں کا علم بلند ہے؛ لیکن سکون وامن  کے خواہاں کچلے جارہے ہیں۔

مندر و مسجد اور شمسان و قبرستان کے نام پر بانٹا جارہا ہے، ریزرویشن اور پیکیج کے سہارے پھوٹ ڈالی جارہی ہے، سارا زور اور پوری محنتوں کا نقطہ سوائے حکومت کی گدی پر براجمان ہونے کی خواہش کے کچھ نہیں، ہر قیمت پر انتخابات میں فتح پانے کی للک اور حرص نے دیانت داری ،ایمانداری اور انسانیت کا گلہ گھونٹ دیاہے، حالت تویہ بھی آچکی ہے ؛کہ اس کی خاطر بیرونی ممالک کو دعوت سخن دیا جارہا ہے، اسرائیل جیسے غاصب اور ملعون ملک سے پینچیں لڑائی جارہی ہیں، میانمار جیسے خون کے پیاسوں سے ہاتھ ملایا جارہا ہے اور ان سب سے بڑھ کر دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے والے اور خدا بیزار تہذیب و ثقافت سے مزین کرنے والے امریکی گود کو سرہانہ بنا کر حکومت کی سیج سجانے کی تمنا ہورہی ہے، آئے دن ان ممالک کا دورہ کرتے ہوئے، اور عوام کے خالص خون پسینے کی کمائی کو اپنے شوق کی نظر کرتے ہوئے ؛تخریبی منصوبات انجام دینے کی نیت ہو رہی ہے؛ بلکہ بساط لگائی جاچکی ہے اور اب تماشہ دیکھنا ہی رہ گیا ہے،بقول شخصے! اب لوگ انگریزی دور حکومت کو یاد کر رہے ہیں، اور آزادی کی جگہ غلامی کے اس دور کو ترجیح دے رہے ہیں، جب ٹرینیں وقت پرچلتی تھیں، نظم ونسق کا بہتر زمانہ تھا، مذہب کی بنیاد پر شرپسند عناصر نہیں ابھرتے تھے، کسی معصوم کی جان یوں ہی نہیں لے لی جاتی تھی؛نیز عوام پر اب ایک عجب ناامیدی اور بے بسی طاری ہوتی جارہی ہے، چہرے مرجھاتے جارہے ہیں، اور دل میں رعب و دہشت نے سکہ جما لیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آزادی صحیح معنوں میں بے خوفی کا دوسرا نام ہوتا ہے، اور نئی نئی بلندیوں اور اونچائیوں تک پہونچنے کی تڑپ اور آسمان چھو لینے  کی دوسری تعبیر ہوتی ہے،امن وامان کا دور دورہ ہوتا ہے،عورتوں کی عزت کی جاتی ہے،انہیں سماج اور سوسائٹئی کے اندر خاص رتبہ دیا جاتا ہے،جوانوں میں حوصلہ اور جوش ہوتا ہے،تخریعات اور ایجادات کی نئی نئی عبارتیں لکھی جاتیں ہیں،ملکی اور ذاتی معیشت خوش حال وخوش باش ہوتی ہے،وہاں کا غریب ؛غریب نہیں ہوتا اور امیر کسی کا پیٹ کاٹ کر امیری کا چوغہ نہیں پہنتا،کسانوں کے اندرمحنت ولگن اور پر امید نگاہیں ہمیشہ چمکتی رہتی ہیں،وہ خود کشی کرکے اپنی جان جان آفریں کے سپرد نہیں کرتا،تعلیم ونصاب میں زہر نہیں ہوتا، اس کے اندر غیر اخلاقی امور نہیں ہوتے،وہ آزادی کے ساتھ اور بے خوف ہوکر پڑھتے اور پڑھاتے ہیں،اخلاقیات پروان چڑھتے ہیں،اور محبت کا باغ گل گلزار ہوتا ہے، کاش ہم آزاد ہوتے! کاش ہم بھی فلک بوسی کر رہے ہوتے! کاش مائیں اور بہنیں کھلی فضا میں سانس لے پاتیں! اور کاش انسان؛ انسان کا دشمن نہ ہوتا۔

چھوڑ کر باغ وچمن گرد قفس ہیں نغمہ زن کس قدر شوق اسیری بلبلوں کے دل میں ہے

المدد اے سارباں عزم وہمت المدد آج کل لیلائےآزادی تیری محمل ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔