آزادی صحافت: تقدیس صحافت

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

اس دنیا میں فن صحافت کا آغازانبیاء علیھم السلام جیسے مقدس گروہ کے ہاتھوں ہواجنہوں نے آسمان کی خبریں اور عالم غیب کی اطلاعات انسانوں تک پہنچائیں اور اسی گروہ پر فن صحافت کے ابتدائی مقدس صحائف بھی نازل ہوئے۔’’نبی‘‘عربی زبان کالفظ ہے اور اس کامطلب ہی خبر دینے والا یااطلاع لانے والے کے ہیں ۔انبیاء علیھم السلام کو آسمان سے وحی کے وقیع ذریعے سے اطلاعات پہنچائی جاتی تھیں ،جنہیں انسانوں کا یہ مقدس گروہ بلاکم و کاست اپنے مخاطبین تک پہنچا دیاکرتاتھا۔’’صحافت‘‘ کی تقدیس میں اس سے بڑھ کر اور کیامقام ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالی نے بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے صحائف کا سبب پسند فرمایا اور خبریں دینے والے ’’انبیاء‘‘مبعوث فرمائے۔قرآن جیسی کتاب کی بھی ایک حیثیت دراصل ایک ’’اخبار‘‘کی سی ہے جس نے ماضی،حال اور مستقبل کی خبریں دی ہیں اور اس اخبارکوعالم انسانیت کے سامنے پیش کرنے والے خاتم النبیین ﷺجیسی ہستی ہیں جوجہاں بہت سے دیگرپیشوں اور شعبوں سے وابسطہ افراد کے لیے نمونہ ہیں وہاں انکا صحافیانہ کردار بھی ایک شاندار تاریخ و روایات سے عبارت ہے کہ اﷲ تعالی نے انہیں کل انسانیت کے کل افراد کے لیے نمونہ بناکر بھیجاہے۔انبیاء علیھم السلام کی تاسیس یافتہ اس خدمت گاری کے بارے میں قرآن مجید نے متعدد بار اس بات کو بطورحوالہ پیش کیا ہے کہ انبیا اپنی اقوام سے کہا کرتے تھے کہ ہم تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتے بلکہ ہمارااجر ہمارے رب کے ذمے ہے۔

حضرت ادریس علیہ السلام اﷲٰتعالی کے وہ پیارے نبی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھنے کاآغاز کیا۔اس سے قبل بنی آدم میں لکھنے کارواج نہیں تھا۔اﷲ تعالی نے اپنے اس برگزیدہ بندے کے سبب سے انسانوں کو قلم اور فن تحریرعطاکیا۔’’قلم ‘‘وہ مقدس آلہ ہے جس کی کہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے قسم کھائی ہے۔اﷲ تعالی نے قتال فرض کیالیکن تلوار کی قسم نہیں کھائی،اﷲ تعالی نے نماز فرض کی ہے لیکن مسجد کی قسم نہیں کھائی اور اﷲ تعالی نے روزہ ،حج اور زکوۃ فرض کیے ہیں لیکن ان کے بھی متعلقات کی قسم نہیں کھائی جبکہ تعلیم کی فرضیت عائد کر کے قلم کی قسم کھائی ہے۔یہ مقدس آلہ انسانوں کی قسمت کاامین ہے احادیث وروایات میں اس آلے کو بھی قلم کہاگیاہے جس سے اﷲ تعالی نے انسانوں کی تقدیراور قسمت تحریر کی۔اس محترم و مقدس آلے کے حاملین آج ’’صحافی ‘‘کہلاتے ہیں ،جن کی قلم سے بڑے بڑے ایوانوں کی بنیادیں تک ہل جاتی ہیں اور جن کی جنبش قلم سے ان عمارات پر بھی لرزہ طاری ہوجاتاہے جن کو زمین کے سینے سے اٹھنے والے زلزلے بھی نہیں ہلا سکتے۔

ﷲ تعالی نے انبیاء علیھم السلام جیسے ’’مقدس صحافیوں ‘‘تک خبروں کی ترسیل کے لیے وحی کے سات طریقے اختیار فرمائے اور ن سب طریقوں کو کسی بھی شک و شبہ سے پاک رکھنے کے لیے شیطان سے محفوظ فرمادیا۔پہلا طریقہ براہ راست گفتگو ہے  یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کاکوئی صحافی کسی سے براہ راست انٹرویو کرتا ہے اور سامنے والے سے اسکے احوال اسی کی زبانی سن کر اپنے قارین وسامعین و ناظرین تک پہنچاتاہے۔اﷲ تعالی نے اپنے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور اپنے آؒخری نبیﷺ سے براہ راست گفتگو کی اور انہیں وہ کچھ بتایاجو اﷲتعالی چاہتاچاہتاتھااور اس دوران ان بزرگ ہستیوں نے بھی اﷲ تعالی سے سوالات کیے جن کی تفصیلات کتب میں موجود ہیں ۔اطلاعات کی ترسیل کادوسرا ذریعہ اﷲ تعالی کی آواز تھی اس طرح گویا اﷲ تعالی اپنی آواز کے ذریعے سے بالواسطہ گفتگو کرتاتھا،یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی صحافی ٹیلی فون کے ذریعے سے کسی سے بات چیت کرے۔اﷲ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے محض آواز کے وسیلے سے گفتگو کی اور اس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے اﷲ تعالی کا پیغام اﷲ تعالی کو دیکھے بغیر سنااور اسے انسانوں تک پہنچایااور اپنا صحافیانہ کردار اداکیا۔اسی گفتگوکے دوران اﷲ تعالی نے مقدس کتاب توریت لکھی ہوئی صورت میں حضرت موسی علیہ السلام کو پیش کی یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی راہنمااپنا لکھاہوابیان کسی صحافی کو بھیج دے اور وہ صحافی اسے شائع کردے۔

 وحی کے نزول کا تیسراذریعہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے ،جملہ انبیاء علیھم السلام تک یہ مقدس فرشتہ پیغام لے کر آتاتھا،صحافت میں اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی فرد اپنے قابل اعتماد خدمت گار کو پیغامات کی ترسیل کا فریضہ سونپ دے اور وہ خدمت گار صحافیوں تک اسکے بیانات وپیغامات پہنچاتارہے۔جبریل علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کو اﷲ تعالی کا پیغام پہنچایا کہ اپنا بیٹا پانی میں بہادیں اور اسی طرح جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم علیھاالسلام کو بھی بیٹے کی اچھی ’’خبر‘‘ دی۔وحی کے چوتھے ذریعے میں اﷲ تعالی فرشتوں کو انسانی شکل میں بھیجتاجیسے قوم لوط میں دوخوبرو لڑکے داخل ہوئے جو دراصل اﷲ تعالی کے فرشتے تھے اور نبی تک یہ اطلاع پہنچانے آئے تھے اس قوم کی تباہی فیصلہ ہو چکاہے اور ہم اس بستی پر عذاب لے کر آئے ہیں ۔حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا اور اپنے صحافیانہ فرائض بحسن و خوبی ادا کیے اور اﷲ تعالی کا پیغام اس بستی کے ایک ایک فرد تک گوش گزار کیالیکن وہ قوم باز نہ آئی اور بالآخر اﷲ تعالی کا فیصلہ اس بدبخت قوم پر صادق ہو چکا۔وحی کا پانچواں ذریعہ خواب ہے،اﷲ تعالی خواب کے ذریعے اپنی ان مقدس و محترم ہستیوں کو اپنا پیغام پہنچاتا ہے،یہ خواب چونکہ وحی کاحصہ ہوتے ہیں اس لیے ان پر عمل کرنا ضرروری ہوتاہے ۔وحی کے چھٹے ذریعے کانام ’’صلصلۃ الجرس‘‘ہے،آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے اور میں سمجھ جاتاہوں کہ مجھے کیاکہاجارہاہے۔ساتواں ذریعہ ’’القاء‘‘ہے یعنی اﷲ تعالی نبی کے دل میں بات ڈال دیتاہے گویا انبیاء علیھم السلام کے دلوں میں آنے والے خیالات بھی وحی ہوتے ہیں اور اﷲ تعالی کی طرف سے ودیعت کیے جاتے ہیں ۔

 یورپ نے جس طرح طب اور تعلیم جیسے پاکیزہ ،صاف شفاف اور خدمت سے عبارت شعبوں کوکوخود غرضی، لالچ، حرص اور طمع کا مکروہ لبادہ اوڑھا دیاہے اور جس طرح یورپ نے فضائی آلودگی، محنت کش بچے،خاندانی منصوبہ بندی اور خواتین کے حقوق جیسے خوبصورت نعروں سے دنیاکو اپنا معاشی اور تہذیبی غلام بنانے کی کاروائی کا آغاز کررکھا ہے اور جس طرح جمہوریت کے نام پر قوموں کے اندر سے غدار تلاش کر کے تودوسرے ملکوں پر اپنا سیاسی تسلط جمانے کے مکروہ عزائم ان کے پیش نظر ہیں اسی طرح بلیک میلنگ ،بیان بازی اور بازاری اشتہاربازی سے صحافت کے دامن عصمت کو بھی تار تار کر دیاہے۔آزادی صحافت کے نام پر پگڑیاں اچھالنا،حکومتوں کو غیرمستحکم کرنااور دھونس دھاندلی اور بدمعاشی کابازار گرم کرنااس  سیکولرلبرل یورپی مغربی صحافت کاا’’طرہ امتیاز‘‘ہے۔

  آزادی صحافت کا صحیح مفہوم آزادی رائے اور مثبت تنقید کے ذریعے اصلاح احوال ہے،ان دونوں مفاہیم کی مثال حضرت موسی اور حضرت خضرکے اس واقعے سے بخوبی سیکھی جاسکتی ہے جسے قرآن مجید نے سورۃ کھف میں نقل کیاہے۔محسن انسانیت ﷺ نے جنگ احد کے موقع پر آزادی رائے کے نتیجے میں اپنی رائے کے برخلاف باہر میدان میں جاکر لڑنے کا فیصلہ کیا۔دورخلافت راشدہ آزادی رائے اور مثبت تنقید کی شاندار روایات پیش کرتاہے۔حضرت عمر اورحضرت علی کا دور اس طرح کی کئی مثالوں سے بھراپڑا ہے جب آپ نے اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر اپنی ذاتی رائے واپس لے لی ۔قرآن مجید نے سورۃ الحجرات میں حکم دیا کہ ’’اے مسلمانو!اگر کوئی فاسق تمہیں کوئی خبر دے تو تم اسکی اچھی طرَح تحقیق کرلیاکرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاپہنچادو پھراپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ‘‘۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ’’آزادی صحافت‘‘کے باعث مغرب سے آنے والی ہر خبر کو بغیر تحقیق کے شائع کر دیا جاتا ہے حالانکہ  وہ لوگ ہمارے کتنے خیر خواہ ہیں ؟؟صحافیوں سے بڑھ کر اور کون اس سوال کاصحیح جواب جان سکتاہے۔صحافیوں کی یہ پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے کہ مغربی میڈیا کی خبروں میں سے سچ اور جھوٹ کو چھانٹ کر الگ کرکے اور پھر سچ کو ہی پیش کیاجائے۔

 ’آزادی صحافت‘ کا مطلب ’ذمہ داری صحافت‘ ہے،انسان کے دونوں کندھوں پر بیٹھے ہوئے فرشتے اپنے کاغذ بھرتے چلے جارہے ہیں ،ممکن ہے اس دنیامیں ہمارے لکھے پہ کسی کاہاتھ ہمارے گریبان میں نہ پہنچ سکے لیکن ایک آخری عدالت میں اپنے ہر قول و فعل کا حساب دیناہوگا۔ صحافت کو ملی و قومی اقدارکا پابند بنانا اور پھر اس پر سختی سے کاربندرہنا ہماری صحافیانہ ذمہ داری کا اولین تقاضا ہے۔قومی تقاضوں کا سودا کرنا اور تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنا اور اپنے رنگین صفحات اور کلر سکرین میں اخلاقیات کاجنازہ نکال دینا کسی طور بھی ’’آزادی صحافت‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔محض چند سکوں کی خاطر ہر طرح کے اشتہارات کو نمایاں مقام دے دینا اور اس بات کا ذرہ بھی خیال نہ رکھنا کہ ان اشتہارات کے چھپنے سے یانشر ہونے سے قوم کے کس کس طبقے کے جذبات پر کیاکیا بیتے گی جبکہ ان اشتہارات کو پڑھنے والے اور دیکھنے والوں میں بچوں ،نوجوانوں اور عورتوں سمیت معاشرے کے خواندہ اور نیم خواندہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔اﷲ تعالی نے اس قلم کی قسم کھائی ہے اور نبیوں کے توسط سے اسے ہم تک پہنچایاگیاہے اسکی تقدیس کو ملحوظ خاطر رکھنا اور اسکے احترام کا خیال رکھنا اور اسے ایک امانت کے طور پر استعمال کرنااس عظیم ذمہ داری کا تقاضا ہے جو اس معاشرے اور قوم نے ہمیں سونپی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔