’آستھا‘ کے بعد اب ’بھگوان‘ کی دُہائی

گلزارصحرائی

ایسا محسوس ہوتاہے کہ بی جے پی اور اس کے ہمنواؤں کے پاس ان دنوں اس کے سوا کوئی کام نہیں رہ گیا ہے کہ کسی نہ کسی بہانے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ہوا دیتے رہیں۔ چنانچہ کبھی اس کے لیے ایودھیا میں رام مندر کے  لیے قانون سازی کا مطالبہ کیا جاتاہے، کبھی عدلیہ اورقانون سازوں کو درپردہ دھمکایا جاتاہے، جیسا کہ سبریمالا مندر کے معاملےمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر امیت شاہ کا متنازعہ  بیان آیا تھا کہ ’’عدالت کو ایسے فیصلے نہیں سنانے  چاہئیں جن پر عمل نہ ہوسکے اور جو آستھا سے  جڑے  ہوں۔ ‘‘

اب کچھ ایسے ہی تیور بی جے پی کے رکن اسمبلی سریندر سنگھ نے اپنے اس بیان میں دکھائے ہیں، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’بھگوان آئین سے اوپر ہوتاہے، اس لیے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے مناسب ماحول اور قانون بنایا جانا چاہیے۔‘‘ ضلع  بلیہ کے بیریا اسمبلی حلقے کی نمائندگی کر رہے  سریندر سنگھ کا کہنا ہےکہ ’’اس وقت ملک کے وزیر  اعظم نریندر مودی ہیں، جو ایک ہندتووادی رہنما ہیں۔ اسی طرح اتر پردیش  کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں، جو بڑے ہندتووادی لیڈر ہیں، اس کے باوجود بھگوان رام ابھی ٹینٹ  میں ہیں۔ ‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے بڑی بدقسمتی کی بات ہندوستان اور ہندوسماج کے لیے کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ ‘‘انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ’’ آئندہ پارلیمانی الیکشن  سے قبل رام مندر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا جو یوگی آدتیہ ناتھ کےہاتھوں عمل میں آئے گا۔ ‘

گزشتہ دنوں وشو ہندو پریشد کی جانب سے یوپی کی راجدھانی لکھنؤ کے مختلف علاقوں میں ’چلو ایودھیا سنکلپ بائیک ریلی‘ نکالی گئی، جس میں آرایس ایس کے کارکنان بھی شامل ہوئے۔ واضح رہےکہ وشو ہندو پریشد ۲۵؍نومبر کو ایودھیا میں ’دھرم سبھا‘  کا انعقاد کرنے جارہاہے، جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی شمولیت کا امکان بتایا جارہاہے۔ دوسری طرف یوپی کابینہ میں یوگی آدتیہ ناتھ کے اتحادی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے سربراہ اوم پرکاش راج بھر بی جے پی کی ایسی کوششوں کو محض سیاسی ہتھکنڈا بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں، یہ شوشہ چھوڑاجاتاہے۔ ‘‘انھوں نے بی جے پی کے اس دعوے کا بھی مذاق اڑایاکہ ’’سو کروڑ ہندو بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ ‘‘ انھوں نےکہاکہ ’’اگریہ بات ہے تو یہ لوگ موٹر سائیکل  ریلی، کلش یاترااور سنکلپ یاترا کیوں کررہے ہیں؟‘‘

سچ تو یہ ہے کہ ’دھرم ‘ بی جے پی کے لیے آستھا کا معاملہ نہیں، بلکہ صرف سیاسی ایشو ہے اور یہ اس کی مجبوری بھی ہے،کیوں کہ وہ کسی اور طرح سے عوام کواپنی  جانب متوجہ کرنا  نہیں جانتی، اور اگر کر بھی لے تو تھوڑے ہی دنوں میں اس کی حقیقت سامنے آجاتی ہے، جیسا کہ ترقی اور خوش حالی کے اس کے وعدوں اور دعووں کے بارے میں سب نے دیکھا کہ وہ صرف انتخابی جملہ بن کر رہ گئے۔ ایسے میں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ کسی طرح پھر عوام کے مذہبی جذبات کو کیش کیا جائے۔ مگر یہاں بھی اس کےلیڈروں  کا دورخا پن عیاں ہو جاتاہے۔ مثلاًسریندر سنگھ کے بیان کا تضاد ملاحضہ کیجئے۔ ایک طرف موصوف یہ ستم ظریفی بھی بیان  کررہے ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے ہندتو نواز ہونے کے باوجود ’بھگوان‘ ابھی تک ٹینٹ میں ہیں،دوسری طرف وہ یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ ’’پارلیمانی انتخابات سے قبل رام مندر کے لیے سنگِ بنیاد رکھ دیا جائے گا۔ ‘‘آخر اس دعوے کی بنیاد  کیاہے؟ جب کہ وہ خود جانتے ہیں کہ چار سال گزرنے کے باوجود وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے اب تک اس سلسلے میں کوئی عملی قدم  نہیں اٹھایا، تو اچانک اب یہ کرشمہ کیسے ہوجائے گا؟ انھیں تو اس سلسلے میں اپنے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا محاسبہ کرنا چاہیے تھاکہ  اب تک سب کچھ اختیار میں ہوتے ہوئے بھی انھوں نے  ہندوؤں کے  ’جذبات‘  کی تسکین کے لیے کچھ کیوں  نہیں کیا؟اور صرف ابھی کیوں، موصوف خود بھی اب تک کیا سور  ہے تھے کہ چار سال تک انھیں بھی کوئی فکر لاحق نہیں ہوئی ؟ اوراب اچانک انھیں ’بھگوان ‘ کے ٹینٹ میں ہونے کی  فکر ستانے لگی!ایسے میں اوم پرکاش راج بھر کا یہ تبصرہ ہی درست معلوم ہوتاہےکہ ’’جب انتخابات قریب آتے ہیں،  تب ہی یہ شوشہ چھوڑا جاتاہے۔ ‘‘

ویسے لفظ ’بھگوان‘ کا استعمال بھی غور طلب ہے۔ اب تک اس سلسلے میں ’آستھا‘ کی دہائی دی جاتی رہی اور قانون وانصاف کے مقابل یہ لفظ استعمال کرکے گویا زباں بندی کی کوشش کی جاتی رہی ہے، لیکن اب سریندرسنگھ نے  آئین وقانون کے مقابل لفظ’بھگوان ‘ کا استعمال کرکے گویا اپنی دانست میں بہت زبردست دلیل پیش کردی ہے۔ لیکن وہ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ تمام ہندو کسی ایک ’بھگوان‘ میں آستھا نہیں رکھتے، بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں لوگ الگ الگ ’بھگوانوں‘کو اہمیت دیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں کیرل کے جس سبریمالا مندرکے معاملے میں امیت شاہ نے عدالت کو انتباہ دینے والا بیان دیا تھا ، اس کے ’بھگوان‘ کانام ’ایپّا‘  ہے۔ اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں میں دیگر ناموں سے لوگ اپنے اپنے بھگوانوں کی پوجا کرتے ہیں۔ ایسے میں کسی ایک ’بھگوان ‘کی دُہائی کتنی موثر ثابت ہوگی، یہ سمجھنا کچھ مشکل  نہیں۔ اس کے بجائے اگر ’ایشور‘ لفظ کا استعمال کیا جاتا تو زیادہ  موثرہوتا،جس کے بارے میں کبھی کسی نے  یہ دعویٰ نہیں کیا کہ الگ الگ جگہ کا ایشور الگ ہے، بلکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ایشور ایک  ہے، جو سارے سنسار کا خالق و مالک ہے۔ اس لیے ایک سچا دھارمک  شخص اگر کسی کو آئین وقانو ن سے بالاتر قرار دےسکتا  ہے تو وہ صرف ایشورہوسکتاہے، مگر دشواری یہ ہے کہ ایشور تو نراکار(غیرمجسم) ہے، اس کی نہ توآج تک کوئی مورتی بنی اور نہ  کوئی ایسا مندر آج تک تعمیرہوا جسے ایک نراکار ایشور کا مندر کہا جاسکے، اس لیے  نہ توچوری چھپے اس کی مورتی ’پرکٹ ‘کی جاسکتی ہے، نہ اس کے مجسمے کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاسکتاہے،اور نہ اس کے مندر کے نام پر سیاست  ہی کی جاسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔