آمار سونار بنگلہ (قسط پنجم)

صفدر امام قادری

بنگلہ دیش میں قاضی نذرالاسلام کو قومی اور عوامی شاعرکے طورپر شناخت حاصل ہے۔ انھیں سڑک، بازار اور کتب خانوں سے لے کر ڈراماگاہوں تک دیکھا جاسکتا ہے۔

کسی ملک ارو قوم کے اس جذبے کو پہچاننا ہو کہ یہ اپنے اسلاف کو کس محبّت اور چاؤ سے یاد رکھتی ہے تو اس کے کُتب خانوں، عجائب گھر اور قومی یادگاروں کو دیکھ لینا کافی ہوتا ہے۔ قدیم تاریخ کے بطن سے اپنے عہد کے لیے تازہ لہوحاصل کر کے قوم نئی تاریخ کے صفحات روشن کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کے اس سفر میں ہمارے لیے ایک دن ایسا بھی رہا جب میزبانوں سے قدم دوقدم بڑھ کر ہم نے یادگاری مقامات کی زیارت شروع کی۔ صبح سرد نہیں تھی لیکن کوئی محبوبانہ کیفیت ایسی تھی جس نے قلب کو ٹھنڈک پہنچا رکھی تھی۔ ہم نے بنگلہ زبان کے طرح دار شاعر قاضی نذرالاسلام کی قبر پہ حاضری دینے سے آغاز کیا ابھی اس احاطے کے کھلنے کا وقت نہیں ہوا تھا مگر ہماری گزارش پہ گیٹ گھل گیااور ہری گھاس پیڑوں کے سائے کے ساتھ اس آستانے پر حاضر ہوئے جسے خواب میں بھی شاید ہی سوچا تھا۔ نذرالاسلام جہاں آرام کر رہے ہوں وہاں پہنچتے ہی دھوپ میں ایک مخصوص انداز کی شدّت پیدا ہوگئی، جسے دنیا کے اس عظیم انقلابی شاعر کے گرم جوشانہ استقبال کے طور پر میں نے قبول کیا۔ تیس سال جس شخص نے گونگی زندگی گزاری ہو، اس کی قبر پہ بھی ایک عجیب وغریب سکوت پھیلا تھا۔ پورے احاطے میں گھاس پیڑ پودے اور چڑیوں کے معصوم بول سے ایک ایسی کیفیت سامنے آرہی تھی جیسے لگے کہ ہمارا انقلابی شاعراب خاموشی سے رومان پَروَر اور روحانی نغمے الاپ رہا ہے۔ احاطے سے ایک طرف متّصل مسجد ہے اور دوسری طرف بنگلہ دیش کا نیشنل میوزیم۔ مسجد کے سامنے ڈھاکہ یونی ورسٹی کی عظیم الشّان لائبریری۔ ہمارے میزبان نے نذرالاسلام کی ایک نظم کے بند پیش کیے کہ میں وہیں آرام کروں گا جہاں اذان کی آوازیں، پرندوں کی چہچہاہٹ اور لفظوں کے بول اَبول ملیں گے۔ نذرالاسلام کی قبر کا احاطہ اورڈھاکہ یونی ورسٹی کی مسجد کچھ اس طرح سے متّصل ہیں کہ باغی شاعر کی روحانیت اپنے آپ اُبھر کر سامنے آتی ہے۔

 نذرالاسلام کو بنگلہ دیش کے لوگ اپنا قومی شاعر مانتے ہیں۔ ان کے سلسلے سے باضابطہ ریسرچانسٹی چیوٹ ہیں جہاں سے متعدد زبانوں میں نذرالاسلام کی تحریریں شایع ہوتی ہیں۔ یونی ورسٹی میں جگہ جگہ قاضی نذرالاسلام کی موجودگی کا احساس ان کے اشعار اور تصویروں سے ہوتا رہا۔ چند ایسے ادیب اور نقّاد بھی ملے جو بنگلہ دیش میں ماہرِ نذرالاسلامیات تھے اور ان کی نذرالاسلام کے سلسلے سے بنگلہ میں کتابیں شایع ہوتی رہیں ہیں۔ بازار میں بھی قاضی نذرالاسلام اور روندرناتھ ٹیگور کی موجودگی نظرآتی تھی۔ نذرالاسلام کی تصویریں اور بنگلہ میں ان کی نظموں کے اشعار چھپے ہوئے ٹی شرٹ ہر دکان پر آسانی سے دستیاب تھے اور ڈسپلے میں بھی نظر آرہے تھے۔ اپنے شعرا کے اشعار ان کی ہینڈ رائیٹنگ میں چھاپ کر شال اور ٹی شرٹ دیکھنے کا لطف آیا اوراپنی زبان کے حوالے سے افسوس بھی ہوا۔ ہمارے پاس اپنے ادیبوں اور شاعروں کو اس طرح اپنی جان اور زندگی کاحصّہ بنانے کا چلن نہیں۔ جشنِ ریختہ میں بھی ابھی تک نئے عہد کے انداز کو اپناتے ہوئے عظیم شعرا کی تصویریں کپڑوں پر شایع کرنے اور ان کے اشعار، اقوال کو فیشن کا حصّہ بنا لینے کی طرف دھیان نہیں گیا ہے۔

  نذرالاسلام 1899ء میں پیدا ہوئے۔ بیس اکیس برس کی عمر میں وہ بنگلہ زبان کے نہایت مشہور شعرا میں شامل ہوچکے تھے۔ 1920ء میں کانگریس کے خصوصی اجلاس کے لیے مہاتما گاندھی جب کلکتہ پہنچے تو انھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ نذرالاسلام سے ان کے گھر جا کر ملیں۔ وہی دور ہے جب مہاتما گاندھی نے ابوالکلام آزاد کو کانگریس میں شرکت کی دعوت دی تھی اور آزاد دیکھتے دیکھتے ایک عالمِ دین اور جوشیلے صحافی کے دائروں کو توڑتے ہوئے وادیِ سیاست میں پہنچتے ہیں اور اب ایک نئے ابوالکلام آزاد  وُرود ہوتا ہے۔ اکیس برس کے نذرالاسلام پر گاندھی کا کیسا اثر ہوا ہوگا اسکا صرف اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن چونتیس گونگے برسوں میں (1942-76)نذرالاسلام کی زبان سے کوئی بات نکل اور لوگون نے سنا تو وہی ایک چھو ٹا سا فقرہ تھا:’’میں گاندھی جی سے ملونگا‘‘

 22برس کی عمر میں نذرالاسلام نے اپنی مشہور نظم ’’بِدروہی‘‘ لکھی۔ اس نظم کی جس رسالے میں اشاعت ہوئی، اس شمارے کو دوبارہ شایع کرنا پڑا۔ روندرناتھ ٹیگور نے اس نظم کو سن کر اپنے نوجوان شاعر کو دعائیں دیں۔ ’’اگنی بینا‘‘ شعری مجموعہ شایع ہوا اور پھر نذرالاسلام اپنی شہرت کی بلندی پر پہنچ گئے۔ بنگلہ زبان میں یہ کتاب کس طرح دھوم مچا رہی ہوگی، اس کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہیے کہ1923ء میں جب روندر ناتھ ٹیگور نے اپنا شعری ڈراما ’’بسنت‘‘ لکھاتوکا انتساب ’بدروہی ‘کے کوی نذرل کے نام ‘ کیا تھا۔ ایک چوبیس برس کے نوجوان شاعرکو اس عہد کا سب سے معتبر شاعر اس سے بڑھ کر اور کیا خراجِ تحسین پیش کر سکتا ہے۔ اس وقت پورے ایشیا میں ٹیگور پہلی ایسی شخصیت کے طَور پر ممتاز تھے جسے نوبل ایوارڈ دیا گیا ہو۔ ٹیگور نذرالاسلام سے عمر میں تقریباً چالیس برس بڑے تھے اس کے باوجود چوبیس برس کے ایک نو جوان شاعرکے نام اپنی کتاب کا انتساب کرنا قاضی نذرالاسلام کی شہرت اور عظمت کا حیرت انگیز اقبال ہے۔

 بنگلہ زبان اگر چہ بہت قدیم سرمایۂ ادب سے خالی ہے اور جدید ہند آرہائی زبانوں میں اس کی اہمیت جن چند شعرا اور ادبا کی وجہ سے ہے، ان میں نذرلاسلام ایک مستقل حوالہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں بنگلہ شاعری کا جمال ٹیگور کے یہاں ہے اور جلال نذرالاسلام کے یہاں۔ نذرالاسلام نے مختلف اصنافِ سخن پہ طبع آزمائی کی نظموں کے ساتھ بنگلہ میں غزل گوئی کا سلسلہ قاضی نذرالاسلام کی خاص دین ہے۔ بنگلہ زبان میں سنسکرت کے الفاظ کی شمولیت واضح ہے مگر عرَبی اور فارسی الفاظ کی شمولیت اور اس سے لسانی تجربہ کر کے الگ شناخت قائم کرنا نذرالاسلام کا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ ہر چند اس لسانی امتزاج کے لیے بعض محققین اورنقّادوں کی نگاہ میں معتوب رہے۔ نذرالاسلام نے صرف عربی فارسی الفاظ کو بنگلہ میں داخل کر کے ایک نئے لسانی مزاج کی پیش کش نہیں کی بلکہ وہ حافظ اور عمر خیام کے بنگلہ تراجم سے بھی زبان کے برہمنی نظام کو چیلینج کر رہے تھے شاید یہ بھی اسباب ہوں جن سے رفتہ رفتہ بنگلہ ادب میں نذرالاسلام کی قدرشناسی کے سلسلے سے بعض مسائل سامنے آئے ہوں۔

 نذرالاسلام کے مزار پر حاضری میں کئی باتیں یاد آنے لگیں۔ ان کی زندگی، شور، جدّوجہد، بغاوت سے عبارت رہی۔ شاعری، نغمہ نگاری، افسانہ نگاری، ناول نویسی، تراجم، صحافت، مضمون نویسی ہر صنف میں ان کی کتابیں موجود ہیں جہل سے لکھے خطوط، بچوں کا ادب، اورلوک گیت الگ ہیں۔ ان کے گیتوں کی تعداد ساڑھے تین ہزارہے۔ سیاسی مصروفیات بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مشقِ سخن اور چکّی کی مشقّت میں توازن کی گانٹھ ان کے سُریلے بول سے پڑتی ہے۔ شاعر سے الگ گایک کے طور پر نذرالاسلام اس زمانے میں کس طرح مقبول ہونگے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قاضی نذرالاسلام کے ایچ۔ ایم۔ وی کے گراموں فون ریکارڈس بازار سے خریدنے کے لیے لوگ قطار میں لگتے تھے۔

 مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 9جولائی 1942ء کو کلکتہ ریڈیو اسٹیشن میں ایک تقریر نشرکرتے ہوئے نذرالاسلام کی آواز ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ ذہن کی ساری قوت ختم ہوگئی اور ہندستان، پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش تینوں ملکوں کے ادیبوں، شاعروں اور حکمرانوں نے ان کے علاج کی کوشش کی۔ ملک سے باہر بھی علاج کے سلسلے سے پیش رفت ہوئی مگر چارہ گری نہ ہوسکی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد قاضی نذرالاسلام کو وہاں کی شہریت دی گئی۔ یہ بھی خوب ہے کہ چونتیس برس کے گونگے پن میں قاضی نذرالاسلام نے گاندھی کو یاد کیا تھا اور اسی طرح سے غالباً1970ء میں اچانک یہ جملہ کہا:

’’میں ڈھاکہ جا ؤنگا‘‘۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرّحمان نے بھی قاضی نذرالاسلام کے علاج کی نئے سرے سے کوششیں کیں مگر کوئی چارہ سازی ممکن نہ ہوئی۔ 1972ء میں اپنی بہوکے ساتھ ڈھاکہ پہنچے 1976ء کی جنوری میں انھیں بنگلہ دیش کی شہریت عطا ہوئی اور 29اگست کو یہ شمع ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ بیس بائیس برس کی جوادبی پونجی قاضی نذرالالسام نے جمع کی، اس نے چونتیس برس کی بیماری اور زباں بندی کے باوجود برِّ صغیر کے عظیم دماغوں میں اپنی جگہ متعیّن کی۔ وہ ڈھاکہ پہنچنا چاہتے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کی قبر ایسی جگہ ہو جہاں اذان کی آواز اور چڑیوں کی چہچہاہٹ ملتی رہے۔ خدا نے ان کی یہ آرزوپوری کی۔ بنگال کے گھر گھر میں ارو بنگلہ دیش کے ہر سانس اور دھڑکن پہ نذرل نذرل کی آوازیں صاف صاف محسوس کی جا سکتی ہیں۔ پچھلے زمانے میں اردووالے نذرالاسلام اور ٹیگور کیکارناموں سے بخوبی واقف تھے مگراب یہ رشتہ سست پڑ رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکوں اور زبانوں کی سرحدوں کو توڑ کر جو شاعر اور ادیب باہر آسکتا ہے، ان کا استقبال کیا جانا چاہیے اور اردو میں یہ ماحول قائم ہو کہ مترجمین کی فوج سامنے آئے اور نذرلالسلام یا دوسروں کے تراجم سے ہماری زبان کو عزّت ووقار بخشیں۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔