آنے والی ہولی کے رنگ ہی کچھ اور ہونگے!

حفیظ نعمانی

اتر پردیش کے تاریخ ساز الیکشن کے 7 ویں رائونڈ کے لئے آج شور ختم ہوچکا ہوگا۔ اور 8 مارچ کو جس نے جتنی محنت کی ہوگی اس کا پھل مشینوں میں بند ہوچکا ہوگا۔ اور 11 مارچ کو معلوم ہوجائے گا کہ ڈیڑھ مہینے تک جو الیکشن کمیشن کی ناسمجھی سے پورے اتر پردیش میں زہر برسایا گیا اور نفرت کی آگ سلگائی گئی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلا؟

ہر اخبار پڑھنے والے کی نظر سے یہ شعر گذرا ہوگا؎

شکست و فتح فتح مقدر سے ہے ولے اے میرؔ

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

یہ شعر ایسی شکست و فتح سے متعلق نہیں ہے جیسی دنیا نے پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم دیکھی تھی۔ بلکہ اس کا تعلق ایسی شکست اور فتح سے ہے جیسی ہندوستان میں 1952 سے 2016 تک بار بار دیکھی گئی ہیں ۔ جمہوریت کی آخری جنگ ملک میں 2014 میں ہوئی ہے جب 45 برس تک وقفہ وقفہ سے ملک پر حکومت کرنے والی کانگریس کو ایسی شکست ہوئی کہ اسے حزب مخالف کا درجہ اس لئے نہ مل سکا کہ اس کے پاس اتنے ممبر بھی نہیں رہے تھے جو حزب مخالف کا درجہ پانے کے لئے ضروری ہیں ۔ اور ہندوستان کے عوام کو مبارک باد دینا چاہئے کہ انہوں نے اتنے بڑے انقلاب کو خوشی کے ساتھ قبول کیا اور خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرنے دیا۔

اس وقت جو سیاسی اور انتخابی جنگ جاری ہے وہ مرکزی حکومت کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف ایک صوبہ اتر پردیش کے لئے ہے۔لیکن حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اس کی ہار جیت 2014 جیسے ہی نتائج قوم کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔وزیر اعظم مودی نے اسے بی جے پی، ایس پی اور بی ایس پی کے الیکشن کے بجائے ہندو مسلم الیکشن بنا دیا ہے۔ اور اس میں فتح کے لئے وہ کر رہے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں کیا۔ بلکہ آج کے مقابلے کے 10 ویں حصہ کی برابر بھی نہیں کیا انتہا یہ ہے کہ اسے نتیجہ کے صرف دو دن کے بعد آنے والی ہولی سے بھی جوڑ دیا اور ہزاروں کے مجمع میں ایک جگہ نہیں بلکہ ہر جگہ یہ کہا کہ 13 مارچ کو ہم فتح کی ہولی کھیلیں گے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ حضرت میرؔکے بقول جو چیز مقدر سے وابستہ ہے اس میں فتح بھی ہوسکتی ہے اور شکست بھی اس کے لئے صرف فتح کا ذکر کرنا اور یہ نہ کہنا کہ اگر شکست ہوئی تو ہم کیا کریں گے؟ کم رنگ کھیلیں گے یا رنگ کا بائیکاٹ کرکے یوم غم منا ئیں گے؟ اس کا کوئی اشارہ نہیں کیا۔

وزیر اعظم نے پورے اتر پردیش کے ہر شہر میں آتش بیانی کی ہے انہوں نے اپنی دو مخالف پارٹیوں کارشتہ مسلمانوں سے جوڑ دیا ہے جنہوں نے اپنی پارٹی کا ٹکٹ مسلمانوں کو دے کر ان سے رشتہ بنایا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کا ایک بھی ٹکٹ کسی مسلمان کو نہ دے کر الیکشن کو ہندو مسلم بنا دیا اور مزید ستم یہ کہ ہندوئوں کو بتایا کہ جس پارٹی کی اتر پردیش میں حکومت ہے وہ سرکارکی زمین مسلمانوں کو قبرستان بنانے کے لئے دے رہی ہے اور مودی اس حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ جب قبرستان کے لئے زمین دے رہے ہو تو شمشان کے لئے بھی زمین دو اور جب رمضان کے لئے بے انتہا بجلی دیتے ہو تو دیوالی کے موقع پر ہندوئوں کو بھی بجلی دو اور یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ پارٹی مسلمانوں کو زمین اور بجلی دے رہی ہے اور مسلمان اسے ووٹ دے رہے ہیں ۔ اب اگر وہ پارٹی جسے مسلمانوں نے ووٹ دیے جیت گئی تو اسے جتانے والے مسلمان ہوں گے اور مودی جی کو ہرانے کے ذمہ دار بھی وہی ہوں گے۔

ایسا ہندو مسلم الیکشن بنانے کے بعد اس کے نتیجہ سے ہولی کو جوڑ کر مودی جی نے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ہم اپنے ہندو بھائیوں سے اگر کہیں گے تو ان کی نظر میں اس کی وقعت کیا ہوگی؟ خود وزیر اعظم کی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ اور مشہور اداکار شترو گھن سنہا نے صرف بنارس کی سیٹوں کے لئے تین دن مودی کے بنارس میں رکنے اور صرف بنارس میں دو روڈ شو کرنے پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور وہاں کے بہت سے ذمہ دار اور سنجیدہ سیاسی لوگوں نے بی جے پی کو شرم دلائی ہے کہ اس نے وزیر اعظم کو روڈ شو کرنے پر آمادہ کیا۔ اور یہ تو آخری درجہ کی بات ہے کہ صرف ایک شہر میں دو روڈ شو؟ جبکہ 5 ویں رائونڈ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ہر جگہ کہا کہ ہم 5 رائونڈ میں بھر پور اکثریت حاصل کرچکے ہیں لیکن قول اور عمل کا یہ فرق چھٹے رائونڈ اور آخری رائونڈ میں انہوں نے اپنی پوری طاقت اور حکومت کے قیمتی تین دن ہی نہیں بلکہ بابا وشو ناتھ جی کا آشیرواد بھی ساتھ لے لیا انہوں نے پہلا روڈ شو باب کے مندر پر ہی ختم کیا اور وہاں کے ذمہ داروں نے انہیں وہ سب باری باری دیا جو فتح کے لئے ضروری تھا۔ لیکن وزیر اعظم نے شاید اسے بھی کم سمجھا اور ایک روڈ شو رات کی روشنی میں اور کیا۔

اب حقیر مشورہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کی فوج اور ان کے ماننے والے نتیجہ کے بعد کچھ بھی کریں مسلمانوں کو نہ کسی پارٹی کی فتح کے جشن میں شریک ہونا چاہئے اورنہ شکست کے غم میں آنسو بہانا چاہئے۔ وزیر اعظم ہر چند اسے ہندو مسلم الیکشن اور ہندو مسلم ہار جیت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ 8 مارچ کی شام کو 5 بجے اتر پردیش کے مسلمانوں کا کام ختم ہوجائے گا۔ ان کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ اس پارٹی اور اس امیدوار کو جاکر اپنا ووٹ دیدیں جسے وہ ملک کے لئے صوبہ کے لئے اور مسلمانوں کے لئے اچھا سمجھتے ہیں اس کے بعد کوئی بھی جیتے وہ مسلمانوں کا نہیں ہوگا۔ اگر وہ مسلمان کا دشمن اور اس کی روزی روٹی کا ذریعہ بند کرنے والا نہیں ہے تو کافی ہے۔ کیونکہ مسلمان کو تو اپنے کے لئے سب کچھ کرنا ہے۔ اور ہندوستانی مسلمانوں نے تو پاکستان نہ جاکر اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنا رشتہ صرف پاک پر ور دگار سے رکھیں گے اورجو مانگنا ہے اس سے مانگیں گے اس لئے کہ جن پر ہمارا حق تھا وہ پاکستان بنا کر وہاں جا بسے۔ اور اب جن کی حکومت ہے وہ کچھ کرتے ہیں تو شکریہ ، نہیں کرتے ہیں تو گلہ نہیں ۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہولی کے دن اگر کسی مسلمان پر رنگ پڑ جائے تو غصہ دکھانے کی ضرورت نہیں ۔ کوئی مسجد پر مزار پر یا دکانوں کے بورڈ پر رنگ ڈال دے تو پانی سے دھو کر اسے صاف کردیں اور کپڑے بدل کر نماز پڑھ لیں ۔ جاہلوں نے یہ مشہور کردیا ہے کہ جسم کے جس حصہ پر رنگ پڑ جائے وہ  (خدا نخواستہ) دوزخ میں جلے گا۔ جہاں تک رنگ کا تعلق ہے وہ ایک ہی ہے اسے شربت میں ڈال کر روزہ افطار کے وقت پیا جائے یا ہماری آپ کی بہنیں بیٹیاں رنگ سے دو پٹہ رنگ کر نماز پڑھیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ رنگ رنگ ہوتا ہے وہ نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان۔ جاہلوں نے ہرے رنگ کو مسلمانوں سے اور زعفرانی رنگ کو ہندوؤں سے جوڑ دیا ہے۔  جیسے کھجور کو مسلمانوں سے اور پیپل کو ہندو سے اور ستم یہ کہ شعر بھی کہہ دیا؎

ہر شخص کجھوروں کے تنے کاٹ رہا ہے

پیپل کے تلے کوئی دکھائی نہیں دیتا

یہ ذہنیت وہ ہے جسے مودی جی پر وان چڑھا رہے ہیں جبکہ خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز سب کی ہے وہ رنگ ہو یا پیڑ۔

وزیر اعظم نے اپنے کو یا پارٹی کو ہی نہیں حکومت کو بھی جھونک دیا ہے۔اور نہ جانے کتنی جگہ اعلان کرچکے ہیں کہ ہم جیت گئے۔ لیکن خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی شہر میں تین دن قیام اور دو روڈ شو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا تو 10 دن سے ممبئی میں اپنے وزیر اعلی کو شیو سینا کے خلاف تلوار لہراتے رہنے کا حکم دینے کے بعد اچانک انہیں ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے ہیں صرف اس ڈر سے کہ اگر اتر پردیش میں ہارے تو شیو سینا مہاراشٹر میں کانگریس اور پوار سے مل کر حکومت نہ گرا دے؟ کیونکہ میڈیا میں یہ خبر گشت کر رہی ہے کہ اگر جیتے تو راج ناتھ سنگھ یو پی کے وزیر اعلیٰ بنیں گے اور ہارے تو وہ وزیر اعظم اور مودی جی کی چھٹی۔

اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ ہارنے کا غم منائیں نہ جیتنے کی خوشی کیوں کہ ہار جیت وزیر اعظم او ر اکھلیش یادو یا مایاوتی کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔