‘آویدن،  نویدن اور پھر دنادن’ کا پر تشدد رحجان

ڈاکٹر سلیم خان

ملک کے رہنما عوام کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ جس ملک کی باگ ڈور مودی و یوگی اور شاہ و پرگیہ  جیسے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے وہاں تشدد کے رحجان کا بڑھنا ایک فطری عمل ہے۔ تشدد کی ذہنیت کا اظہار مختلف انداز میں ہوتا  ہےمثلاً آکاش وجئے ورگیہ کا علی الاعلان یہ کہنا ‘  آویدن(درخواست)، نویدن(گزارش) اور پھر  دنادن۔ یہ ہماری لائن آف ایکشن ہے’۔ یعنی یہ کوئی جذباتی یا وقتی غصہ  نہیں بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ ملک کی برسرِ اقتدار جماعت کے قومی سکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ کےفرزند ارجمند نے یہ بیان ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے دیا ہے۔ اپنے بیٹے کی بہترین تعلیم و تربیت کے بعد کیلاش نے اسے رکن اسمبلی بنادیا۔ وہ تو خیر مدھیہ پردیش میں بی جے پی ریاستی انتخاب ہار گئی ورنہ بعید نہیں کہ آکاش وجئے ورگیہ کو کوئی اہم وزارت کا قلمدان تھما دیا جاتا  لیکن اس کے باوجود سنسکار تھوڑی نہ بدلتے ؟معاملہ صرف اتنا سا تھا کہ میونسپل کارپوریشن نے انتہائی مخدوش عمارتوں کو توڑنے کا ارادہ کیاکیونکہ وہ  اس میں رہائش پذیرلوگوں  کے لیےپر خطر ہوگئی تھیں۔  اس کارروائی کے دوران  اندور کے رکن اسمبلی آکاش وجے ورگیہ  نےوہاں پہنچ کر بلدیہ ملازمین کو ۱۰ منٹ میں نکل جانے کی  دھمکی دی اور پھران پر آگ بگولہ ہوکرکرکٹ بیٹ سے ٹوٹ پڑے۔ اس کے بعدجب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو  وہاں سے فرار ہوگئے۔ آکاش کے خلاف فوراً دفعہ 353،294، 506، 147، 148 کے تحت معاملہ درج کرلیا گیا۔

مدھیہ پردیش میں ۱۵ سالوں تک بی جے پی برسرِ اقتدار رہی ۔ آکاش کو جب اس کے۱۱ ساتھیوں کے ساتھ دھر دبوچا گیا تو ان کے سر سے  وہ نشہ  اترا۔ ان دہشت گردوں کو میونسپل اہلکاروں کے ساتھ مارپیٹ کے معاملے میں گرفتار کر کے مجسٹریٹ گورو گرگ کی عدالت میں پیش کردیا گیا۔ اس وقت پرگیہ ٹھاکر تو بھوپال سے نہیں آئیں مگر وجے ورگیہ کے سیکڑوں حامیوں نے مہاتما گاندھی روڈ تھانے کا گھیراؤ کردیا اور رکن اسمبلی کو تھانے سے عدالت لے جانے کے دوران جم کر ہنگامہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام آکاش کو سزا دلانے کے لیے احتجاج کرتے لیکن وہ تو اس کو چھڑانا چاہتے تھے اس لیے  سخت سکیورٹی میں اس کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ سارے اہم دروازوں کوحفاظت کے پیش نظر بند کرنا پڑا ورنہ ممکن تھا یہ بدمعاش جج صاحب سے بھڑ جاتے۔ عدلیہ قابلِ مبارکباد ہے کہ اس  نے اس غنڈہ گردی کے باوجود  ضمانت دینے سے انکار کرکے ۷ جولائی تک جیل بھیج دیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر صوبائی  اقتدار میں تبدیلی نہیں ہوئی ہوتی تو یہ فیصلہ اس قدر آسان نہ ہوتا۔

 کیمرے کے سامنے سینہ پھلا کر دنادن بیان دینے والے آکاش کی ساری ہیکڑی عدالت کے کمرے میں غائب ہوگئی۔وہ بولا میں بہت غصے میں تھا۔ میں نے کیا کردیا مجھے نہیں پتہ۔ بلدیہ کے افسر نے  ایک خاتون کے ساتھ گالی گلوچ کی اور ہاتھ پکڑا۔جس سے مجھے غصہ آگیا۔ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی خاتون کے ساتھ بدسلوکی کا بہانہ بنانا شرمناک ہے۔ بلدیہ کے افسردھیریندر بیاس سے جب اس الزام کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ‘‘میں بھلا ایسے مکان میں کیوں جاوں جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ اس حملے سے قبل وہاں پولس اور میڈیا موجود تھی۔ میں نے اگر ایسی کوئی حرکت کی ہوتی تو وہ کیمرے میں قید ہوجاتی’’۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ ایک کنارے کھڑے فون پر بات کررہے تھے جب آکاش نے بیٹ سے ان پر اچانک حملہ کردیا حالانکہ وہ انہیں جانتا تھا اور بیاس جی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ یہاں پر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہاں موجود میونسپل کارپوریشن کے کئی ملازمین‎ نے اپنے مظلوم افسرکو بچانے  کے بجائے ظالم ایم ایل اے کا ساتھ دیا اور ان میں سےمیں اکیس اہلکاروں کو معطل کرنا پڑا۔ دھیریندر بیاس سے جب سوال کیا گیا کہ کیا آپ ڈرے ہوئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا میں اور میرے  بھائی دونوں خوفزدہ ہیں اور رکن اسمبلی رکن اسمبلی کے ساتھ حملہ کرنے والے غنڈہ عناصر تھے اور وہ  کچھ بھی کرسکتے ہیں ’’۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جس ملک کا وزیر اعظم ساری دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اس کی پارٹی کے ارکان  وقانون ساز اپنے ہی سرکاری افسران کو مارپیٹ کر خوفزدہ کررہے ہیں۔

  آکاش کا دماغ میں  فی الحال اقتدار کی ہوا بھری ہوئی اس لیے وہ  آسمان پر ہے۔  مارپیٹ کے لیے استعمال کی جانے والی بیٹ    اگراس افسر کو دے کر سرِعام  انتقام  لینے کی اجازت دی جائے توآ کاش  کا دماغ  اپنے آپ دھرتی پر آجائے گا لیکن یہ موجودہ  جمہوریت میں نہیں بلکہ  دور فاروقی میں ہی ممکن ہے۔ آکاش وجئے ورگیہ کو یکے بعد دیگرے دو عدالتوں میں پیش کیا جہاں  ان کے  ضمانتی عرضیاں خارج  ہوگئیں مگر بھوپال کے اندر تیسری میں  اپنا سیاسی رسوخ استعمال کرکے باپ نے بیٹے کی ضمانت حاصل کرلی۔ چوری اور اس پر سینہ زوری دیکھیں کہ آکاش کے وکیل نے پولیس پر ایم ایل اے کے خلاف جھوٹا معاملہ درج کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ سچائی پریشان ہوسکتی ہے لیکن شکست نہیں کھاسکتی۔ اس طرح گویا بلہ سے افسر کو مارنا حق ہے اور حملہ آور کی گرفتاری باطل ہے۔

بی جے پی کی ‘ چال،  چرتر اور چہرہ ’ آکاش نے نہیں بلکہ کیلاش نے کھول کر پیش کردیا۔ ان سے جب  فون پر ایک ٹی وی اینکر نے بیٹے کی غنڈہ گردی پر سوال کیا اور کہا کہ آپ کو اس واقعہ کی مذمت کرنی چاہیےتواس معمولی سے مطالبے  پر  کیلاش وجے ورگیہ بھڑک گئے اور جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کرنے لگے۔ انہوں نے پوچھا ‘‘آپ جج ہیں کیا؟ آپ ایسے فیصلہ نہیں دے سکتے، ہو آر یو؟ کیا ہے آپ کی حیثیت؟ کیا آپ کسی رکن اسمبلی کے بارے میں فیصلہ کریں گے ؟اپنی اوقات دیکھیے پہلے؟’’ یہ کہہ کر کیلاش  نے  فون کاٹ دیا اور بھاگ کھڑے ہوئے لیکن اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ان کی  حیثیت اور ان کے بیٹے کی اوقات  کیا ہے؟ وہ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں؟  عوام نے دھوکے میں آکر اقتدار کیا دے دیا کہ انہیں اپنا غلام سمجھنے لگے۔ کوئی شخص اگر رکن اسمبلی منتخب ہوجائے تو کیا قانون سے اونچا ہوجاتا ہے اور اسے من مانی کی اجازت مل جاتی ہے؟ جن لوگوں کے اندر اپنی فاش غلطیوں کو تسلیم کرنے کا ظرف نہ ہو انہیں  حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟ وزیراعظم نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوے کہا تھا کہ کانگریس اپنی فتح اور شکست دونوں کو ہضم نہیں کر پاتی۔ آکاش اورکیلاش کے اس قابلِ مذمت رویہ  کی روشنی میں بی جے پی کو اپنے  دامن میں جھانک کر یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اس  کو پارلیمانی انتخاب میں کامیابی اور مدھیہ پردیش کے ریاستی الیکشن میں ملنے والی ناکامی ہضم ہوسکی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو بابا  رام دیو سے پاچن شکتی بڑھانے والا کوئی مجرب نسخہ لکھوا کر اپنے ارکان پارلیمان و دیگر عہدیداران کو کھلانا چاہیے۔ موجودہ سیاسی نظام کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قانون توڑنے والے انتخاب جیت کرقانون ساز بن جاتےہیں اور سرکاری خرچ پر عیش کرتے ہیں۔

 انتخابی اصلاحات کے لیے سرگرمِ عمل  تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس کے مطابق گزشتہ ایوان  پارلیمان میں ۳۳فیصد ارکان کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ درج تھا۔ اب  نئی پارلیمان میں میں 7 فیصد اضافہ کے ساتھ یہ تناسب 40 فی صد سے زیادہ ہوگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے منتخب شدہ 303 ارکان میں سے 116  کومختلف نوعیت کے مقدمات کا سامنا ہے جب کہ ایک کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بھی درج ہے۔کانگریس کے 52 ارکان پارلیمان میں سے 29 پر مقدمات درج ہیں۔ ریاست کیرالہ کے قانون ساز دیان کوریا کوس قتل اور ڈکیتی سمیت 204 مقدمات میں ملوث  ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایسے جرائم پیشہ ارکان کی تعداد دوگنا ہوگئی ہے۔ان میں سے کے 11 کے خلاف قتل، 30 پر گلا کاٹنے اور تین پر عصمت دری  کا الزام ہے۔ ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی  ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں 185 ارکان کے خلاف جو  مختلف نوعیت کے مقدمات تھے ان میں سے  کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی  اس کا نتیجہ یہ ہوا  کہ ان میں سے کئی  دوبارہ کامیاب ہو کرپھر سےایوان  پارلیمان کا حصہ بن گئے۔ ایسے میں  آکاش جیسے لوگوں کی غنڈہ گردی میں اضافہ  کا قوی  امکان  ہے۔

تشدد اور قانون سے کھلواڑ کا معاملہ  صرف خواص تک محدود نہیں ہے بلکہ عام لوگ بھی ہاتھ صاف کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ مثلاً ابھی حال میں بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ایک بے قابو کار نے سڑک کنارے فٹ پاتھ پر سو رہے 4 بچوں کو روند دیا۔ اس حادثہ میں 3 بچوں کی موقعہ وارادت  پر دردناک موت ہو گئی۔ ایکسیڈنٹ کے بعد فرار ہونے کی کوشش میں  گاڑی بجلی کے کھمبے سے ٹکرا گئی اور وہ بدمعاش ڈرائیور بھیڑ کے ہتھے چڑھ گیا۔ حادثے  سے ناراض بھیڑ  نے کار ڈرائیور کی زبردست پٹائی کر دی اور نتیجتاً وہ بھی مارا گیا۔ حیرت کی بات  یہ ہے کہ  رات تقریباً 2 بجے بھی لوگ اس  کام کے لیے موجود تھے۔ اس مشتعل بھیڑ نے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے سوار کو بھی نہیں بخشا حالانکہ وہ پوری طرح بے قصور تھا۔ خوش قسمتی سے اس کی موت واقع نہیں ہوئی اور نازک حالت میں اسپتال کے اندزیر علاج ہے۔ ایسے معاملات میں بھیڑ کے اندر شامل لوگوں کو پکڑنا ایک مشکل کام ہوتا ہے اس لیے پولس محکمہ بھی اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔اس  معاملے میں  پولس نے موت کی وجہ پٹائی نہیں بلکہ حادثہ میں  زخمی ہونابتادیا۔ اب اس کے لیے اس بجلی کے کھمبے پر مقدمہ قائم ہونے سے رہا جو ڈرائیور کے راستے میں آکر کھڑا ہوگیااور اس کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ انتظامیہ کی یہ سہل پسندی  اور عافیت کوشی تشدد کے رحجان کی آبیاری کررہی ہے۔ ان کو خوابِ غفلت سے جگاکر اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی پر آمادہ کرنا عدم تشدد کو پروان چڑھانے اور مہذب پرامن معاشرہ قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔