آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

حفیظ نعمانی

یہ بات ایک مہینہ پہلے بھی شکایت کے طور پر لکھیم پور سے ہی آئی تھی کہ ایکھ کے کھیتوں میں پالتو گائے، بیل، بھینس، سانڈ دندناتے پھر رہے ہیں اور گنے کی پیڑیوں کو برباد کررہے ہیں۔ کسانوں کی شکایت یہ تھی کہ نیل گائے تو آدمی کو دیکھ کر بھاگ جاتی ہیں لیکن یہ گائیں اور بیل پلے ہوئے ہیں انہیں جب تک نہ مارو یہ کھت نہیں چھوڑتے۔ ان ہی دنوں میں بارہ بنکی کے مشہور گائوں کھجنہ میں ایک زمین دیکھنے کے لئے میرے بیٹے اور نواسے کو جانا پڑا۔ وہاں بھی دیکھا کہ ہر کھیت کے چاروں طرف بانس گڑے ہیں اور رسیاں بندھی ہیں۔ خیال ہوا کہ نیل گائے کے ریورڑ آتے ہوں گے۔

جب مقامی لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ نیل گائے کو تو ہم لوگ بھگا دیتے تھے۔ یہ نیا عذاب ہے جو گھروں کا پروردہ ہے اور جب تک لاٹھی نہ مارو ہلتا ہی نہیں۔ اور یہ مسلمانوں کا گائوں ہے یہاں  گائے کو لاٹھی کون مارے؟

اور آخر کار وہ خبر آگئی جو پہلے آنا چاہئے تھی کہ لکھیم پور کے بلاک نکہا موضع سلیتھو  میں مقامی لوگوں نے ایک سرکاری اسکول کے کیمپس کو باڑہ بناکر سیکڑوں آوارہ جانوروں گائے، بیل، بھینس اور سانڈوں کو بند کردیا۔ پڑھنے والے بچوں کو گھر بھیج دیا اور پڑھانے والوں کو اسکول کے باہر بٹھا دیا گائوں کے کاشتکار ان آوارہ جانوروں کے جو ہر کھیت کو اپنا کھیت سمجھ کر کھارہے ہیں مستقل حل کرانا چاہتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی انسانوں میں گذری ہے یہ نہ آدمی کو دیکھ کر بھاگتے ہیں اور نہ آواز سے ڈرتے ہیں۔ آس پاس نہ کوئی کانجی ہائوس ہے اور نہ سرکاری گئوشالہ۔

ایک زمانہ تھا کہ نیل گائے کو بھی ہندوئوں نے گئوماتا کی رشتہ دار کہنا شروع کردیا تھا جب سیکڑوں بیگھا کھیت برباد ہوئے تو وہ نیل گھوڑا ہوگیا۔ پہلے اس کو مارنے کو جرم قرار دیا پھر حکومت نے شکاریوں کو بندوق بھی دی اور کاراتوس بھی اور تھوک میں انہیں مروانا شروع کیا اور جہاں سرکار نے انہیں ختم نہیں کیا وہاں کاشتکاروں نے شکاریوں کو کارتوس یا پیسے دیئے کہ ہمارے علاقہ میں نیل گائیں مارا دو اور گوشت مسلمانوں میں بانٹ دو۔

آج صورت حال یہ ہے کہ چھتیس گڑھ جہاں کے گول مٹول وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ جو گائے کاٹے اسے پھانسی کی سزا ہونا چاہئے اس کے صوبہ میں گئوشالوں میں 500  گائیں بھوک سے مری ہیں۔ اس ملک کا جو ہندو گائے کو ماں کہتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اسی مسلمان کے ہاتھ میں ہو تو وہ ماں، ماتا اور دیوی ہوجاتی ہے۔ یہ حکومت بے وقوف بنانے کیلئے کروڑوں کا بجٹ گئوشالوں کا رکھتی ہے۔ اور یہ بجٹ اتنا ہوتا ہے کہ ہر گائے صحت کے اعتبار سے وزیر اعلیٰ سے زیادہ گول ہو لیکن گئوشالوں کا وزیر اور اس کے کرتا دھرتا گایوں کو دس فیصدی بھی نہیں دیتے کیونکہ جانتے ہیں کہ انہیں  بہرحال مرنا ہے۔ وہ کھاکے مریں یا بھوک سے مریں پھر ان کے اوپر خرچ کرنے سے کیا فائدہ؟

ہم نے لکھیم پور سے بات شروع کی تھی کہ وہاں کے کاشتکاروں نے عاجز آکر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس وقت اٹھایا ہے جب درجنوں کسانوں کی پوری پوری فصل منٹوں میں صاف کردی۔ انہوں نے مجبور ہوکر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب  تک کوئی مستقل حل نہیں نکلے گا ان سیکڑوں جانوروں کو اسکول میں بند رکھیں گے۔ حکومت نے ہر شہر میں سلاٹر ہائوس بند کردیئے اب ان آوارہ جانوروں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ حکومت کو یہ قانون بنانا چاہئے کہ جو گائے بیل یا بھینس پالے وہ ناکارہ ہونے کے بعد بھی اس کے پاس رہے یا حکومت کوئی ایسا باڑہ بنائے کہ گائے اور بھینس والا جاکر اسے داخل کرے اور رسید لے کر آئے کہ اس نے جمع کردیا۔

یہ صرف ایک بلاک کی کہانی ہے اور ابھی تو یوگی سرکار کو چھ مہینے ہوئے ہیں۔ یہ جب پورے پانچ سال کرے گی تو صوبہ کا سب سے اہم مسئلہ نہ بجلی ہوگی نہ پانی نہ سڑکیں ہوں گی نہ گھر صرف اور صرف آوارہ جانور ہوں گے جن سے شہر کی سڑکیں بھری ہوں گی اور ہر گائوں میں کسان کے ہاتھوں مرے ہوئے جانور۔ ہر کسان اور باغ کے مالک کا ایک مزاج ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسان سے گنا مانگے تو وہ خود توڑکر اچھے سے اچھا گنا دے دے گا۔ لیکن اگر کوئی کھیت میں گھس کر ایک گنا توڑلے تو کسان لاٹھی مارکر ہاتھ توڑ دے گا۔ یا آم کے باغ میں آپ مانگ کر کھائیں تو دس آم کھلا دے گا۔ لیکن آپ نے خود توڑلیا تو آپ کا سر بھی ٹوٹ جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ایک اسکول کے چاروں طرف بانس بلی گاڑکر سیکڑوں جانوروں کو بندھک بنالیا ہے اور افسروں کو اطلاع کردی ہے۔ ابھی تک کسی افسر کے آنے کی اطلاع نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ افسر آکر کیا کریں گے؟ وہ جانور نہ پولیس کے محکمہ کے ہیں نہ محکمہ تعلیم کے۔ اور جنہوں نے انہیں گھر سے نکالا ہے وہ اس لئے نکالا ہے کہ اب وہ کس کام کے؟ کہتے ہیں کہ گائے کا مو ٗت اور گوبر ہر مرض کا علاج ہے۔ اگر ایسا ہے تو انہیں نکالا کیوں؟ یہ مسئلہ وہ ہے کہ جب کبھی گائے اور بیل کی قربانی پر پابندی کی بات اٹھی ہے تو ہوشمندوں نے کہا ہے کہ پھر شہروں میں انسان کا چلنا ناممکن ہوجائے گا بھوک ایسی چیز ہے جس کی تکلیف سے آدمی پاگل ہوجاتا ہے تو جانور کیوں نہیں ہوگا؟ اور یہی لکھیم پور کے گائوں والوں کا کہنا ہے کہ جب ہم انہیں کھیتوں سے بھگاتے ہیں تو وہ مارانے کو دوڑتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف امت شاہ اور یوگی جی کا ہے یوپی میں لاکھ دو لاکھ جتنے بھی جانور ہیں ہر دن ان میں اضافہ ہوگا وہ اسکولوں میں، اسپتالوں میں اور سرکاری دفتروں میں بند کرنا پڑیں گی۔ وزیر اعلیٰ نے تو کہہ دیا کہ چھٹا جانوروں سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور پریشانی ہورہی ہے۔ اس کا حل نکالنا ہوگا۔ لیکن اس کیلئے ہم سبھی کو اس کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ وزیر اعلیٰ نے آوارہ جانوروں کے بارے میں آڈیٹوریم میں موجود نوجوانوں سے سوال کیا کہ گائے کا دودھ پینے کے بعد اسے چھوڑنا کہاں تک مناسب ہے؟ ہمارے پاس اس کی شکایت آتی ہے اور ممبران اسمبلی کے گائوں کی سطح پر گئوشالہ بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دودھ تم پیو اور گئوشالہ، ان کا چارہ اور گوبر کا انتظام حکومت کرے؟

یہ بات آج کی نہیں، آج سے پہلے جب موٹر سائیکل ایجاد نہیں ہوئی تھی تو ہر صاحب حیثیت کے پاس سواری کا گھوڑا یا گھوڑی تھی ہر تھانہ میں گھوڑوں کے تھان ہوتے تھے۔ قدرت کا نظام ہے کہ موٹر سائیکل کے ایجاد ہونے کے بعد اس نے گھوڑوں کی جگہ لے لی اور اب صرف فوج میں گھوڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں گائے کا بدل بھینس موجود ہے۔ لیکن دونوں میں اتنا فرق بھینس گائے کی طرح نہیں پالی جاسکتی۔ اسی لئے جب گائے ہو یا بھینس دودھ دینا بند کردیتی ہیں تو ان کے مالک انہیں فروخت کرکے اور اس رقم میں مزید ملاکر دوسری گائے خرید لیتے ہیں۔ لیکن اس کی فروخت اور خرید پر حکومت نے پابندی لگادی ہے تو پھر اس کا ہر انتظام اسی کو کرنا پڑے گا۔ اور اب اسے انجام نظر آرہا ہے تو گائے، بیل، بھینس کے مالک کو لکھ کر اجازت دی جائے کہ وہ جس کے ہاتھ چاہے فروخت کرے اور جو خریدے وہ اس کا جو جی چاہے کرے۔ حکومت پابندیاں لگائیں گی تو اسے حق نہیں ہے کہ عوام سے کہے کہ ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا۔ جو برسہابرس سے اس ملک میں ہورہا تھا اس وقت بھی ہندوئوں کی حکومت تھی اور کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب بھی مسئلہ کا وہی حل ہے بار بار معلوم کرنے سے کوئی نیا حل نہیں نکل سکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔