آیت اللہ سید عقیل الغروی سے خصوصی انٹرویو

ڈاکٹرعبدالسلام صدیقی

(عالم اسلام اور عالم انسانیت کے اہم علمی اور عملی مسئلہ پرڈاکٹرعبدالسلام صدیقی کے ذریعہ لیے گئے انٹرویو میں اظہار خیال)

برطانیہ میں مقیم ہندوستانی نژاد معروف عالم دین،مفکر،مجتہد اورمصنف آیت اللہ سید عقیل الغروی سے عالم اسلام اور عالم انسانیت کو درپیش علمی اور عملی مسائل پر لیا گیاانٹرویو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔ آیت اللہ غروی ہندوستان کے تاریخی وتہذیبی شہر بنارس میں پیدا ہوئے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے گریجویشن کے بعد ایران و عراق میں رہ کرفلسفہ و اجتہاد کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعدایک عرصہ تک ہندوستان میں مجلہ ادبی کائنات،جامعتہ الثقلین اورعالمی ادارہ سفینتہ الہدایہ ٹرسٹ کی تعلیمی، تصنیفی اور فلاحی کاموں کی سرپرستی فرمائی۔عالم اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے مکتبہ کائنات، انجمن اعتدال پسند مصنفین، دارالتقریب بین المذاہب الاسلامی ،نوبل انٹلکچول برادر ہڈاور سہ ماہی مجلہ تقریب کی کاوشیں آپ کی یاد گار ہیں۔ اسلامی اتحاد اور تنظیم کے لیے آپ نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے اور وہاں منعقد سمینار اور کانفرنس میں شرکت کی ہے، نیز مشرق و مغرب کے حالات پر آپ کا مطالعہ و مشاہدہ بہت وسیع ہے۔ اسی تناظر میں ان سے کی گئی گفتگو کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں۔

 سوال۔مشرق و مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی نفسیات میں بنیادی فرق کیا ہے؟

جواب۔انسانی نفسیات پرجغرافیائی،معاشی ،سیاسی اورمعاشرتی حالات اثرانداز ہوتے ہیں ۔یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مشرقی قوموں میں بطور خاص مسلمانوں میں شاعرانہ کیفیتیں زیادہ طاری ہیں جبکہ مغربی قوموں میں ٹھوس سماجی حقائق اور معاشی مسائل زیادہ باری و حاوی ہیں ۔اسی اعتبار سے دونوں کی نفسیات بھی مختلف ہیں ۔مشرق کے رہنے والے ماضی میں بھی اورآج تک اپنی محدود سوچ سے باہر نہیں نکل پائے ہیں ۔ ان کی سوچ اور ان کی زندگی کے بڑے بڑے فیصلے شاعرانہ ہوتے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہیں۔

مغربی ملکوں میں رہنے والے دنیوی مسائل میں اپنی منصوبہ سازی اور منصوبہ بندی کے لیے ٹھوس سائنسی بنیادوں پر انحصار کرتے ہیں اس لیے وہ ترقی کر رہے ہیں۔

سوال ۔ترقی کیا ہے ؟

 جواب۔زندگی ایک وحدت ہے اور یہ ممکن نہیں کہ دنیوی مسائل ہمارے روحانی یا اخروی مسائل سے بالکل جدا ہوں اور ایک دوسرے پر اثر انداز نہ ہو! دنیا کو دین کے لیے اور دین کو دنیا کے لیے ترک نہیں کیا جاسکتا ہے ۔حدیث میں ارشاد ہے کہ جس کا معاش اچھا نہیں اس کا دین بھی اچھا نہیں۔ اس اعتبار سے اگر ہم دنیا میں صحیح طورپر ترقی کریں تو یہ ہماری ترقی ہمارے روحانی مسائل سے جدا نہیں ہوتے اور نہ ہی متصادم ہوتے ہیں ۔لیکن اگر دنیوی ترقی روحانی مسائل سے بالکل جدا ہوجائیں تو یہ ترقی ابد ی اور پائدار نہیں ہوگی ۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب دنیوی ترقی میں غیر صالح ،غیر فطری اور غیردیانتدارانہ رویہ اختیار کیا جائے ۔دیانتداری ،معاملہ کی درستگی، سچائی، صفائی یہ فطرت انسانی ہے۔ دین نے اسی کتاب فطرت کی شرح کی ہے۔دین نے متن فطرت پہ حواشی لکھے ہیں ۔دین نے متن فطرت پر تعلیقات میں اضافہ کیا ہے۔ اصل چیز فطرت ہے ،فطرت انسانی میں صلح جوئی ہے ۔فطرت انسانی میں صفائی ،نظافت ،طہارت اور نفاست ہے ۔فطرت انسانی میں صداقت ہے ،فطرت انسانی میں امانت ہے ،فطرت انسانی میں دیانت ہے۔اگر دنیوی معاملات صداقت اور امانت کے ساتھ آگے بڑھیں تو یہی انسان کی روحانی پونجی بن جاتی ہے اور اسی سے آخرت بنتی ہے۔جیساکہ عرفاء وارباب سیرو سلوک کہتے ہیں کہ آخرت در اصل باطن دنیا کا نام ہے۔اگر ہم دنیا کو صداقت اور امانت کے ساتھ قبول کریں گے تو ہماری آخرت بھی شاندار اور محفوظ ہوگی اور اگر ہم نے دنیا میں کذب اور خیانت کا سہارا لیا تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں خراب ہوگی ۔

 سوال۔مشرق کی نفسیات شاعرانہ ہیں اور مغرب کی نفسیات عمل پسندی کی جانب گامزن ہیں ۔مغرب جو خواب دیکھتا ہے وہ تعبیر تک پہونچ جاتا ہے ،ہم صرف خواب دیکھتے ہیں تعبیر سے ہمکنار ہونا ہماے لیے محال ہے ۔کیوں ؟

 جواب۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں منصوبہ سازی اور منصوبہ بندی نہیں ہے۔ہمارے یہاں سیاست میں وہ لوگ آگے بڑھ جا تے ہیں جو خطیب اچھے ہوتے ہیں ۔سیاست کے اسٹیج پر آکر اچھی خطابت کر کے عوام کے جذبات کا استحصال کرنا بہت آسان ہے لیکن ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کو آگے بڑھانا مشکل ہے ۔ہمارے ملک کو اچھے اقتصادی ماہرین Economist))کی ضرورت ہے نہ کہ اچھے خطیب (Orator)کی۔

 سوال۔جیساکہ آپ نے فرمایا دین و دنیا دونوں ایک ہیں اور انسانی ترقی کے لیے دونوں لازم و ملزوم ہیں تومغرب سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں اور مغرب ہم سے کیا سیکھ سکتا ہے ؟

جواب ۔اس کا جواب میرے پہلے جواب میں موجود ہے کہ مغرب میں جو فیوچرک اسٹڈیز(Futuric Studies)ہورہے ہیں وہ ٹھوس سائنسی بنیادوں پر ہورہے ہیں ۔ایسا نہیں کہ ان کے یہاں تخیل اور امیجینیشن (Imagination)نہیں ہے لیکن اس تخیل کی بنیاد تعقل پر ہے اور تعقل کی بنیاد تعلم پر ہے ۔ٹھوس ریاضی اور زمینی حقیقت ان کے سامنے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حال اور ماضی کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد مستقبل کی منصوبہ سازی کرتے ہیں ۔مشرقی قوموں کو ان سے یہی سیکھنا چاہیے کہ ہر منصوبہ سازی کی بنیاد ٹھوس زمینی اورسائنسی حقائق پر ہمیں رکھنا چاہیے ۔منصوبہ کوئی بھی ہو! تعلیمی منصوبہ ہو ،سیاسی منصوبہ ہو ،صحت سے متعلق منصوبے ہوں یا دینی منصوبے ۔جو بھی منصوبہ ہے ،پانچ سالہ منصوبہ، دس سالہ منصوبہ ،پچاس سالہ منصوبہ ،سوسالہ منصوبے، ہزار سالہ منصوبے،غرض قیامت تک کے آپ منصوبے بنائیں لیکن ان منصوبوں کی بنیاد شاعرانہ تخیل ،توہم ،خوف و حراس، آرزو، تمنا، حسرت اور غلامانہ ذہنیت پر نہیں ہونا چاہیے۔ غلامانہ ذہنیت بھی اسی وقت ختم ہوگی جب ہم ٹھوس حقائق پر انحصار کریں گے۔ اس سے ہمارے اندر علمی ذوق پیدا ہوگا جسے قرآن فقہی ذوق کہتا ہے۔ ملت اسلامیہ ،مسلم قوم ،مسلم معاشرہ میں بطور خاص جس چیز کو ڈولپ کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے ان کا فقہی و شرعی ذوق و شعور۔شرعی ذوق و شعور ہی در اصل سائنٹیفک ذوق و شعور ہے۔ہم زندگی کو ٹھوس قانونی اور علمی بنیادوں پر ریاضیاتی انداز میں لیکر چلیں نہ کہ جذبات و عواطف کے سہارے۔قرآن حکیم نے علمی بنیاد فراہم کرنے کے لیے باربار زور دیا ہے ۔چنانچہ ارشاد ہے ۔

 تم کسی چیز کا اقرار نہ کرو جب تک تمہیں اس کا علم نہ ہو ۔

 تم کسی چیز کا انکار نہ کرو جب تک تمہیں اس کا علم نہ ہو۔

تم کسی کو رہنما نہ بنائوجب تک اسے جان نہ لو۔

خود کسی کے رہنما نہ بنو جب تک کہ تمہیں اس کا علم نہ ہو ۔

 تابع نہ بنائو جب تک کہ علم نہ ہو۔

 تابع نہ بنو جب تک کہ علم نہ ہو۔

علم ،تفقہ،تدبراور تفکر پر قرآن نے زور دیا ہے۔

 کیوں زور دیا ہے؟

خود قرآن مجید نے فرمایا ہے ۔

 ہم نے اپنے رسول کو شاعری نہیں سکھائی ہے اور یہ اس کے شایان شان نہیں ہے۔

 شاعری بری چیز نہیں ہے ۔شاعری پر زندگی کی اساس رکھنا بری چیز ہے ۔دین کی اساس جذبات اور عواطف پر نہیں ہے۔شاعری پر نہیں ہے ۔تخیل پر نہیں ہے ۔واہمہ پر نہیں ہے ۔بلکہ دین کی اساس علم پر ہے ۔سائنس پر ہے ۔حقائق پر ہے ۔قرآن یا دین نے لوگوں کو عقائد کی طرف نہیں بلایا ہے بلکہ حقائق کی طرف بلایا ہے ۔

 قرآن ،توحید ایک حقیقت ہے نہ کہ عقیدہ ۔نبوت ایک حقیقت ہے نہ کہ عقیدہ ۔امامت امت ایک حقیقت ہے نہ کہ عقیدہ ۔عدل الٰہی ایک حقیقت ہے نہ کہ ایک عقیدہ۔نبوت ثابت ہوتی ہے معجزہ کے ذریعہ یہ ایک حقیقت ہے نہ کہ عقیدہ ۔قرآن حکیم یا اسلام میں آنے والے نبیوں نے چاہے وہ اول نبی حضرت آدم ہوں ،حضرت نوح،حضرت ابراھیم ،حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ سب نے معجزات دکھائے لیکن انہوں نے انسان کو ایک چیز سکھانے کی کوشش کی ہے کہ تم عمل بغیر علم کے نہ کرو۔تمہارے عمل کی بنیاد علم ہونی چاہیے۔ورنہ عمل عمل نہیں رہیگا بلکہ عبث ہوجائیگا ۔

 دو چیزوں نے ہمیں ڈبودیا۔ایک نری شاعری اوردوسری کھوکھلی خطابت۔حالانکہ بہت سے لوگوں پر یہ جملہ گراں گزریگا لیکن ناکامیوں کا بڑا راز یہی ہے کہ ہم نری شاعری اور کھوکھلی خطابت میں محو رہے ۔اگر فکری شاعری ہو ،حکیمانہ شاعری ہو ،عارفانہ شاعری ہو ،سچی شاعری ہو اور اس میں جذبات بھی صادقانہ ہو تو وہی شاعری تعمیری شاعری ہوتی ہے ۔

 ہم مغرب سے کیا سیکھیں گے کہ منصوبہ سازی علم کی بنیاد پر ہونی چاہیے ۔اور یہ در اصل مغرب سے نہیں قرآن سے ہمیں سیکھنا ہے ۔وہ نقطہ یہی ہے کہ علم کو سیکولر نہیں ہونا چاہیے یعنی علم کو ملحد نہیں ہونا چاہیے ۔ملحدانہ علمی کاوشیں بشریت کو نقصان پہونچارہی ہیں ۔عالم انسانیت کو جس چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہونچایاوہ ملحدانہ فکر ہے یعنی حقیقت توحید کا انکار ۔اس پر بحث کی ضرورت ہے ۔یہ ہمیں بھی سمجھناہے اور مغرب کو بھی سمجھانا ہے کہ ہمیں ماضی میں بھی ملحدانہ فکر سے سب سے زیادہ نقصان پہونچا ہے اور حال میں بھی اور مستقبل میں جو نقصان پہونچنے والا ہے وہ اسی ملحدانہ فکر سے جسے آپ کسی بھی خوب صورت نظریہ کے قالب میں ڈھال لیں ۔

 مغربی ملکوں کو مشرق سے سیکھنا ہے کہ کس طرح علم کو توحید حقیقی،توحیدواقعی اور توحید حق صمدی کے عملی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے ۔علم میں توحید اساساً ہے لیکن مغرب نے اسے اپنی ملحدانہ اور روحانیت کے ساتھ متعصبانہ فکر کی وجہ سے کھودیا ہے ۔یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر نہ صرف بحث اور گفتگو کی ضرورت ہے بلکہ اس کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔مغرب یا دنیا کے ملحدانہ ذرائع ابلاغ میں وہ تعصب کا الزام ہمیشہ مذہبی لوگوں پر رکھتے ہیں ۔یہ غلط ہے ۔آج مذہبی گروہوں میں تعصبات ہیں مگر آپ جب Intire human societyیعنی انسانی معاشرہ کی بات کریں گے تو انسانی اقدار کی سطح پر جو چیز معاشرہ کو نقصان پہونچارہی ہے وہ توحید حق صمدی کا انکار ہے ۔اس وقت معاشرہ انسانی کو جو چیلینجز در پیش ہے اس کا جواب دینے کے لیے اور انسانی درد کا مداوا کے لیے ان کے پاس ایک سخت تعصب یہ ہے کہ وہ اپنی عقل پر بھروسہ کرتے ہیں ،کومن پروویڈینس(common providence)کی بات کرتے ہیں ۔کومن پروویڈینس کی بنیاد کس پر ہونی چاہیے یہی مبہم ہے ۔بات یہ ہے کہ اگر ہم طبیب ہیں آپ طبیب ہیں اورآپ کے سامنے مریض ہے توکوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بھی صورت سے یہ مریض ٹھیک ہونا چاہیے ۔جتنے بھی وسائل اور امکانات ہیں اسے ٹھیک کرنے کے لیے سب لگادیے جائیں ۔تاکہ وہ شفایاب ہوجائے ۔لیکن اگر آپ نے تعصب برتا کہ ہمیں اس کے شفاء سے مطلب نہیں بلکہ اپنے نسخہ سے مطلب ہے تو یہ عصبیت ہے اور انسانیت کے لیے مہلک ہے ۔

سوال۔مغرب کو ہم سے سیکھنا چاہیے کہ علم ملحد نہیں ہوتا ۔علم خدا خوفی کا نام ہے ،علم میں توحید شامل ہے ،اسے منکشف کیسے کیا جائے ؟

 جواب ۔یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور بہت سے لوگوں پر روشن نہیں ہے ۔عام طور پر تعصب کا الزام (بلا تفریق مذہب و مسلک) مذہبی گروہوں پر لگایا جاتا ہے ۔وہاں بھی تعصب پایا جاتا ہے اس سے انکار نہیں ،لیکن تعصب کہیں بھی ہو برا ہے ۔حدیث میں ارشاد ہے ۔

 اللہ کی رحمت سے دور ہے وہ جو تعصب کرتا ہے یا جس کے لیے تعصب کرتا ہے ۔

 تعصب محبوب چیز نہیں ہے لیکن دنیا میں جوتعصبات ہیں ان میں ملحدانہ تعصب سب سے زیادہ خطرناک ہے جو پوری دنیا کو ایک عجیب رخDestinationپر لے جا رہا ہے ۔مثلاً ہماے ملک میں جو نظام قانون ہے وہ کون سا قانون ہے اور کن لوگوں نے بنایا ہے ؟یہ ہمارا کومن لاء (common law)برٹش لاء (British law)وغیرہ جو دو تین سسٹم پوری دنیا میں چل رہے ہیں بشمول ہندوستان وپاکستان میں جو نظام قانون ہے اس کی اساس اور بنیاد کیا ہے ؟جیورش پروڈینس Jurisprudenceسے آگے بھی ہمارے پاس سرچشمہء قانون کیا ہے ؟کہہ دیتے ہیں کہ کومن پروویڈینس پر ہماری بنیاد ہے جبکہ کومن پروویڈینس خود ایک مبہم اصطلاح ہے۔یہاں پر فلاں قانون داں ،فلاں جج،فلاں جسٹس کی بات کی جاتی ہے ،لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں یہ ہے تو کہتے ہیں کہ مذہب کی بات مت کیجیے ۔میں کہتا ہوں اگر انسانیت مجروح ہے اور انسانی معاشرہ کو مسائل درپیش ہیں تو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں ہر ممکن اور موجود نسخہ کو استعمال کرنا چاہیے ۔اگر اتنی وسعت نظر پیدا ہوجائے اور یہ ضد نہ ہوکہ جو لیگل سسٹم legal system ہے اسی پر انحصار کریں گے اور وحی کو، نبوت کواور مذہب کو تسلیم نہیں کریں گے تو یہ تعصب ہے ۔قرآن مجید نے انسانوں کے مسائل زیادہ بہتر طریقے سے حل کیے ہیں جو کہ توحید کی روشنی میں حل کیے ہیں ۔پرانا جملہ ہے کہ قرآن مجید کا اصل موضوع توحید ہے اور اس نے زندگی کے اور کائنات کے تمام مسائل کو توحید حق صمدی کی اساس پر حل کیے ہیں اور فصل کیے ہیں۔

قرآن مجید یا الہامی کتب توریت ،زبور ،انجیل و صحف انبیاء اور ہندوستان میں ویداز ،پران ،گیتا،اسمرتیاں وغیرہ جو روحانی ذخیرہ ہے (بغیر اس کے وہ تحریف شدہ ہے یا نہیں )اس سے کیوں نہیں استفادہ کرتے ہیں ؟اگر اس سے استفادہ کرکے ہم اپنا قانونی نظام ڈولپDevelop کریں ،سیاسی نظام کو ڈولپ کریں تو معاشرہ میں جومادی انتشار اور تصادم ہے وہ یقیناً ختم ہوگا اور کم سے کم تر ہوگا اور روحانی قربتیں بڑھیں گی اور اخلاقی قدریں زندہ ،پائندہ اور پائیدار ہوں گی ۔لیکن یہ ملحدانہ تعصب ہے کہ ہرگز جہاں لفظ خدا آیا،وحی آئی ،قرآن آیا ،نبوت آئی ،دین و مذہب کا نام آیا تو کہتے ہیں کہ اسے الگ رکھیے ۔یعنی یہ نظام قانون تو آپ کے نزدیک منزل من اللہ سے بڑھ کر ہے ،اور جو حقیقتاً منزل من اللہ ہے آپ اس سے استفادہ نہیں کرنا چاہتے ! اس تعصب کو کیا نام دیا جائے ۔

سوال ۔اس تعصب سے مغرب کیسے دور ہوسکتا ہے ،طریقہء کار کیا ہو ؟

جواب۔مغرب میں علمی ترقی بہت ہوئی ہے لیکن صحیح معنی میں ان کا علم اور ان کی علمیت ابھی تک بلوغت کے درجہ تک نہیں پہونچی ہے ۔ہمارے علماء کرام نے آج سے پانچ سو ،چھ سو ،ایک ہزارسال پہلے جس طرح پوری دنیا کی رہنمائی کی تھی وہی فرائض آج ہم پر عائد ہوتے ہیں ۔رسول کا ارشاد ہے :تم ہماری طرف سے پہونچائو اگرچہ ایک آیت ہی سہی ۔اگر ہم ایک درد انسانیت کا بھی مداوا کرسکیں تو انسانوں کو ایک مرتبہ جب ذوق پیدا ہوجائیگا ،چاشنی مل جائیگی ،مزا مل جائیگا ،درد کو سکون مل جائیگا تو اس سسٹم کی طرف رجوع ہوں گے جو منزل من اللہ ہے ۔

واشنگٹن میں امریکہ کی سپریم کورٹ کی عمارت کے ایک مخصوص ہال میں چیف جسٹس کی خاص نشست کے ٹھیک سامنے دیواروں پر سنگیں مرقعے ہیں اور اسکلپٹچربنے ہوئے ہیں ۔ان میں ایک حمورابی کا ہے ،ایک حضرت موسیٰ کا ہے ،ایک پیغمبر محمد کا ہے ۔دو مرقعے اور بنے ہوئے ہیں کل پانچ مرقعے ہیں ۔اور پیغمبر محمد کا مرقعہ اس طرح بنایا ہے کہ ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور دوسرے ہاتھ میں تلوار ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے ۔Law give us the mentalityیعنی یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے عالم بشریت کو قانون دیا ۔

  ہمیں بس اتنی سی بات سمجھانی ہے کہ اگر آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ان ہستیوں نے ہمیں قانون اور اخلاق دیے ہیں تواگرآپ یہ نسمجھیں کہ ان ہستیوں یعنی حضرت موسیٰ وحضرت محمد نے ہمیں بحیثیت انسان بحیثیت بشر اپنی ذہانت اپنے ویژن اپنی فراست اپنے تجربوں کی روشنی میں قانون دیا توآپ یہی سمجھیں گے کہ یہ قانون تو سینکڑوں اور ہزاروں سال پرانا ہوچکا ہے ،جبکہ آج کا انسان اور زندگی کا تجربہ بہت آگے بڑھ چکا ہے تو ہم آج جو سوچیں گے وہ اس سے زیادہ بہتر ہوگا ۔لیکن اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے بشری سطح پر رہتے ہوئے اپنے ذاتی علم اور تجربے سے یہ قانونی نظام نہیں دیا ہے بلکہ وحی کے ذریعہ سے جو ان پر نازل ہواتھاخالق کائنات کی طرف سے ،یہ وہ نظام قانون ہے تو وہ یقیناًآج کے نظام قانون سے بلند تر ہے ،اس لیے آپ کی نگاہ میں وہ عزت و قدر ہے۔

 آج علماء اسلام اور مشرق کے لوگوں کو جو کام کرنا ہے وہ یہ کہ ہم حقیقت توحید کو اس کے صحیح تعبیر و عبارت کے ساتھ ،صحیح جوہر کے ساتھ ،صحیح اسپرٹ کے ساتھ صحیح سینس کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں ۔یہ اس وقت پوری انسانیت کی ضرورت ہے۔

سوال ۔قرآن کہتا ہے کہ علماء ہی خوف خدا رکھتے ہیں ۔

 جواب۔علم جب بلوغ کی منزل پر پہونچتا ہے تو وہ راہ حق صمدی میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے ۔

سوال۔توحید کو مانے بغیر علم کی نجات نہیں ۔

جواب۔توحید کو مانے بغیر علم علم نہیں کہلاتا بلکہ ظن و گمان کہلاتا ہے ۔علم ظن و تخمین تک رہ جاتا ہے اگر وہ توحید کی منزل تک نہ پہونچے ۔

 سوال۔علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم کو مسلمان کرے ۔

 جواب ۔علم مسلمان ہوتا ہی ہے ،علم کو کافر ہونے سے بچائے رکھیں ۔

سوال ۔مغرب میں خاندانی نظام شکست و ریخت کا شکار ہے ،کیا مغرب کو یہ بات مشرق سے نہیں سیکھنا چاہیے ؟

جواب ۔ابھی تک ہم کلیا ت پر گفتگو کر رہے تھے ۔جب ہم زندگی کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کریں گے تو اس میں ہماری عائلی زندگی ،خانوادے کی زندگی اور معاشرتی زندگی میں سب سے پہلے یہ مسئلہ سامنے آئیگا کہ خاندانی قدریں انسانی قدریں ہیں ۔اس مسئلہ کا اگر عملاً تجزیہ کریں تو اس وقت اس کے بر عکس ہورہا ہے کہ مشرق کے لوگ مغرب سے سیکھ رہے ہیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ جو خاندانی نظام ہے اور خاندانی نظام کا تقدس ہے اور اس میں سچی محبت اور مودت کا رشتہ ہے ٹوٹ رہا ہے بکھر رہا ہے ۔خاندان بکھر رہا ہے وہ نظام بکھر رہا ہے ۔جدید طرز زندگی ،جدید معاشی حالات ،معاشرتی حالات اور اقتصادی حالات وغیرہ اور کچھ ایسا بھی لگتا ہے کہ مغربی دنیا میں جو نظام تعلیم اور نظام اقتصاد بن رہا ہے اس میں بنیادی طور پر ایک رجحان یہ ہے کہ خاندان کے ادارہ کو باقی نہ رکھا جائے ۔اس میں وہی ملحدانہ فکر اس رخ پر کام کر رہی ہے ۔یہ چیز انہیں مشرق سے سیکھنی ہے اور مشرق کو مغرب کے اس نقص سے اپنے کو بچائے رکھنا ہے ۔وہ خاندانی نظام کو ،حفظ مراتب کو ،اساس معاشرہ کو باقی رکھیں کہ معاشرہ کی بنیادی اکائی ہی خانوادہ ہے۔

 قرآن مجید نے ہر ہر مسئلہ کو توحید حق صمدی سے جوڑا ہے ۔وہ کس طرح ؟ جب رشتہ بنتا ہے تو ہم کیوں زور دیتے ہیں کہ نکاح کرو، شریعت کے مطابق نکاح کرو ۔یعنی یہ خیال رہے کہ ایک مرد اور ایک عورت ،ایک لڑکا اورایک لڑکی اللہ کے نام پر ایک ہورہے ہیں ۔وہاں زندگی میں تقدس کا جو پہلو آتا ہے اور جو روحانیت اور ایک بڑھ کر ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے ،وہ اس رشتہ میں پیدا نہیں ہوسکتا کہ جہاں خداکا کوئی تصور نہ ہو اور دو لوگ آزادانہ ایک ساتھ رہ رہے ہوں ۔اگر توحید حق صمدی کے ساتھ خاندان کی اساس رہے گی تو وہ خاندان محفوظ رہے گا ورنہ وہ انتشار کا شکار ہو جائے گا ۔یہ بھی معمولی بات نہیں ہے کہ جہاں نکاح پڑھے جارہے ہیں وہاں اس بات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ نکاح پڑھنے والے اور نکاح پڑھوانے والے کی نیت کیا ہے کہ ہم یہ رشتہ استوار کر رہے ہیں توحید حق صمدی کے تقاضوں کے ساتھ ۔اس کے نتیجہ میں جو اولاد ہوگی اور رشتے بنیں گے ہر رشتہ کے ساتھ وہ روحانیت باقی رہے گی۔وہ تقدس باقی رہے گا ۔وہ رشتہ ماں کو تقدس دیتا ہے۔ جہاں توحید حق صمدی کے ساتھ رشتہ باقی ہو ،برقرار کیا جائے ۔ورنہ دنیا میں کتنے بچے ہیں جوماں کے رشتہ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں ۔اب ماں کا وہ رشتہ وہ تقدس اور وہ احترام باقی نہیں ہے کیوں ؟ اس لیے کہ اصل میں جب رشتہ قائم ہوا تھا وہ اس تقدس اور طہارت کے ساتھ رشتہ قائم نہیں ہواتھا ۔جب آغاز اگر تقدس و احترام کے ساتھ نہیں ہوگا تو اختتام میں تقدس و احترام کیسے ہیدا ہوجائے گا ۔تو خاندان کی قدریں ہوں ،ایک محلہ کے معاشرہ کی قدریں ہوں ،ایک شہر کا معاشرہ ہو ،ایک قوم ہو ،ایک امت ہو،ایک ملت ہو ،بین الاقوامی مسائل ہوں ،سب میں اگر توحیداوراس کے تقاضے پیش نظر رہیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ یہی دنیا انہی گناہ گار ہاتھوں سے بہشت بن جائے گی ۔یہی مغرب کو مشرق سے سیکھنا ہے اور مشرق کو خود پہلے اس ظرف کے سانچے میں اپنے کو ڈھالنا ہے ۔

سوال ۔نیکی اور بدی کا جو تصور ہے وہ واضح ہونا چاہیے ۔مغرب میں نیکی اور بدی کا تصور ابھی تک واضح نہیں ہوا ۔کیا ایسا ہے؟

جواب ۔ نیکی اور بدی کا تصور بنیادی طور پر فطرت انسانی میں موجود ہے ۔امریکہ سے آسٹریلیا تک بہت سے ممالک کا سفر کیا ہے اور بہت سی قوموں ،نسلوں اور ملت کے لوگوں کو دیکھا ہے ،نیکی اور بدی کا شعور سب میں ہے ۔جیسا کہ میں نے کہا علم بنیادی طور پر مسلمان ہوتا ہے اسے کافر و فاجر اور فاسق ہونے سے بچانا ہے ۔اسی طرح خیروشر کا تصور اپنے انتہائی معصومانہ معیار کے ساتھ فطرت انسانی میں موجود ہے چاہے گوروں کی فطرت ہو یا کالوں کی ۔ہمیں اس کو مسخ ہونے سے بچاناہے ۔پریگمیٹک اپروچ Pragmatic approachنے اسے مسخ کیا ہے ۔اچھائی برائی ،نیکی بدی،خیروشر ،حسن و قبح چار بنیادی حقائق ہیں ۔ان بنیادی حقائق سے انسان کا ذہنی رویہ اور رشتہ تبدیل ہوجاتا ہے اس کے نظام کے تبدیل ہونے سے ۔اگر ہم اشتراکی نظام میں ہوں گے تو ہمارے خیروشر اور حسن و قبح کا معیار کچھ اور ہوگا ۔اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام میں ہوں گے تو ہمارے لیے خیروشر کی بنیاد کچھ اور ہوگی اور حسن و قبح کا تصور کچھ اور ہوگا ۔یہ وہ حقیقتیں ہیں جو چہرہ بدل دیتی ہیں یا ہم ان کو مسخ کر دیتے ہیں ۔اگر ہمارے پاس توحیدی نظام ہوگا ،جوکہ فطری نظام ہے اور فطرت انسانی سے قریب تر ہے توپھر خیروشر کا آفاقی تصور ہوگا جوکہ مشرق میں خیر ہے تو مغرب میں بھی خیر ہے ،جو مغرب میں شر ہے وہی مشرق میں بھی شر کہلائے گی۔حسن کا معیا ر بھی وہی ہوگا اور قبح کا معیار بھی وہی ہوگا ۔اب تو وہ دور آچکا ہے جس کے بارے میں رسول نے اپنے اصحاب کے سامنے فرمایاتھا :اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تم چھوڑ دوگے ! اصحاب نے فرمایا ۔یا رسول اللہ وہ زمانہ بھی آئے گا ! آپ نے فرمایا ۔اس سے بھی بدتر زمانہ آئے گا جب تم معروف کو معروف اور منکر کر منکر نہیں سمجھوگے ۔انہوں نے حیرت سے کہا کیا یہ زمانہ بھی آئے گا ؟کہا کہ اس سے بھی بدتر زمانہ آئے گا جب تم معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھنے لگوگے ۔انہوں نے کہا یا رسول اللہ ایسا بھی زمانہ آئے گا ! رسول نے فرمایا ہاں !اور اس کے بعد تم منکر کو منکر جانتے ہوئے امر کروگے اور امر کو امر جانتے ہوئے نہی کروگے ۔یہ زمانہ آچکا ہے ۔جنوں کا نام خرد رکھ دیا اور خرد کا جنوں ،جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔کرشمہ سازی مادی مغرب اور جدید دنیا کی ہے اور یہ مہلک ہے ۔اس لیے کہ ہم توحید کی حقیقت سے کٹ چکے ہیں ۔

 سوال ۔عالم اسلام کے تناظر میں جدید اقتصادی اور معاشی مسائل کا متبادل کیا ہے؟

جواب ۔سرمایہ دارانہ نظام اب اپنے اختتام کو پہونچ رہاہے ۔ہمارے پاس قرآن موجود ہے اور قرآن کی اساس پر فقہ اسلامی موجود ہے ۔یہ فقہ اسلامی اس لیے کہلاتی ہے کہ یہ صرف مسلمانوں تک محدود ہے ۔اگر انسان اس کی افادیت کو سمجھ کر قبول کر لے تو یہی فقہ اسلامی فقہ انسانی ہے ۔اسلام میں سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل موجود ہے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے نظام سیاسی قوی نظام سے جڑے ہوئے ہیں ۔وہ سیاسی اقتدار ہمارے نظام کو بروئے کار لانے نہیں دے رہے ہیں ۔جس دن یہ کمزور ہوجائیں گے اور ہمارانظام بروئے کا آجائے گا ،ہم اس پر عمل پیرا ہوجائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مکمل طور پر ماضی کی تاریخ کی میوزیم میں نظر آئیں گے۔اور اسلامی نظام انسانی معاشرہ کے لیے صحت مند نظام بن جائے گا ۔اسلامی نظام مرتب ہے ،اسے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے ۔اس کے نفاذ کی ضرورت ہے ۔

 سوال ۔آپ نے ہمیشہ اتحاد کی بات کی ہے ۔آپ اکثر فرماتے ہیں کہ آپس میں مسلمانوں کو اس لیے بھی نہیں لڑنا چاہیے کہ ہماری لڑائی سے دشمن کو فائدہ ہوتاہے ،اسے ہم طاقت فراہم کررہے ہیں ۔آج امت مسلمہ کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے ؟

 جواب ۔ توحید اور اتحاد ۔دونوں الفاظ کا روٹ ورڈ Route wordایک ہے ۔صرفی اعتبار سے جو بھی مناقشہ کیاجائے لیکن اشتقاقی اعتبار سے روٹ ورڈ ایک ہے ۔حقیقت توحید کو منکشف کرکے ہمیں متحد ہونا ہے ،بغیر اس کے ممکن ہی نہیں کہ ہم آگے بڑھ سکیں، نہ دنیا میں نہ آخرت میں ۔اب تک امت مسلمہ توحید کے کلامی تصور تک محدود ہے ۔توحید کا کلامی تعریف یہ ہے کہ اللہ ایک ہے ۔ہمیں توحید کی عرفانی تعریف تک پہونچنا ہے ۔عرفانی تعریف یہ نہیں کہ اللہ ایک ہے بلکہ یہ کہ تم اللہ کے ساتھ ایک ہوجائو۔ہمارا اگلا قدم یہ ہونا چاہیے ۔

تبصرے بند ہیں۔