اٹھو، وگر نہ حشر نہیں ہوگا اب کبھی

وصیل خان

۲۰۱۹ کے پارلیمانی انتخابات کا وقت جیسے جیسے نزدیک آتا جارہا ہے سیاسی پارٹیوں میں ابال بھی تیزہوتا جارہا ہے۔ گذشتہ دنوں کانگریس پارٹی کا ۸۴واں اجلاس دہلی میں منعقد ہوا جس میں صدر کانگریس راہل گاندھی، سونیا گاندھی،سابق وزیراعظم منموہن سنگھ اور دیگر سینئرلیڈران نے پرجوش تقریریں کیں اور تقریباً سبھی نے کانگریس کے شاندار ماضی کو فخریہ بیان کیا۔ راہل گاندھی نے اپنے خطاب کے دوران فرقہ پرستوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’ ہزاروں سال قبل جب کروکشیترکے میدان میں کورواور پانڈو کے درمیان مہا بھارت چھڑی تو کورو اپنے اقتدار اور دولت کے نشے میں اس قدر چور تھے کہ وہ کسی کوبھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔

 اس کے برعکس پانڈو نرم دل اور حق پرست تھے، ان کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن ظلم و ستم کے خلاف سینہ سپررہتے تھے،امن و انصاف ان کی سرشت میں شامل تھا۔ بالآخر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے یعنی حق اور سچائی کی جیت ہوئی اور ظالموں کا خاتمہ ہوا۔

 راہل نے کانگریس کا موازنہ پانڈؤں سے کرتے ہوئے بی جے پی کو غیراصولی پارٹی اور ظالم بتاتے ہوئے اسے کورؤں کی جماعت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کیلئے کس قدر المناک بات ہے کہ بی جے پی نے ایک قتل کے ملزم کو اپنی پارٹی کا صدر بنادیاپھربھی سیکولرازم کی بات کرتی ہے۔ جنگ آزادی کے دوران گاندھی جی کے ساتھ بیشمار کانگریسی مجاہدین جیل گئے اور طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئےسزائیں کاٹیں ، اس کے برعکس بی جے پی اور آرایس ایس کے آئیڈیل رہنما وکرم ساورکر نےانگریزوں سے رہائی کی بھیک مانگی اور پوری زندگی ان سے وفاداری کا دم بھرتے رہے۔

 پورا ملک جانتا ہے کہ لاکھوں کانگریسی رہنماؤں نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی اور صرف پنجاب میں ۱۵؍ہزار کانگریسی کارکنان شہید ہوئے ایسی کوئی ریاست نہیں جہاں کانگریس کے کارکنان شہید نہ ہوئے ہوں ۔ سونیا گاندھی نے بھی کچھ اسی طرح کی باتیں کیں ، کانگریس کی خوبیوں اور کارکردگیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پارٹی نہ صرف ملک سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے بلکہ ہمارا تعلق ایسی عظیم جماعت سے ہے جو روز اول سے ہی سیکولرازم،یکساں انصاف اور عوامی ترقیات پر یقین رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اب بھی کانگریسمحض پارٹی ہی نہیں ایک تحریک کی طرح موجودہے جو مسلسل امن و انصاف اور ملک کی خوشحالی کیلئے کوشا ں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی موجودہ معاشی و اقتصادی حالت انتہائی طور پر ابتر ہوچکی ہے جبکہ یوپی اے کے دور حکومت میں اس کی ترقیاتی رفتار بے حد تیز تھی۔

ہم یہ مانتے ہیں کہ راہل گاندھی اور دیگر کانگریسی رہنماؤں کی باتو ں میں بڑی حد تک صداقت ہے لیکن حالات جس طرح کروٹ لے رہے ہیں اور ملک کی جو موجودہ صورتحال ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں آخر کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کیوں ہونا پڑا، اس کے اسباب کیا تھے، کیا کانگریس ابھی تک اس سے بے خبرہے؟ غضب یہ بھی کہ اس نے کبھی بھی سنجیدہ ہونے کی ضرورت بھی نہیں محسوس کی۔ کانگریس اپنے قو ل و عمل  کےتضاد او ر شدید بے عملی کے نتیجے میں اقتدار سے باہر ہوئی اور بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت اس پر حاوی ہوگئی۔

کون نہیں جانتا کہ ۲۰۱۴ سے پہلے جب کانگریس برسراقتدار تھی تو عوام مہنگائی اور کرپشن سے بے حد پریشان تھی ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ سے جب سوال کیا گیا کہ حکومت مہنگائی پر قابو حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہے تو انہوں نے دوٹوک جواب دیا تھا کہ حکومت کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہےکہ وہ بڑھتی مہنگائی کو روک لے، بدحال عوام اس جواب کی متحمل نہیں ہوسکی،ان کی مایوسی اتنی بڑھی کہ انہوں نے سرکارہی تبدیل کردی۔ شکر کی بے تحاشا بڑھتی قیمتوں پر جب وزیر زراعت شرد پوار سے سوال کیا گیا تو انہوں نے دلاسا دینے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ بارش کم ہونے کے سبب گنے کی کاشت مزید کم ہوجائے گی اور شکر کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔ اس بیان سے تاجروں کے حوصلے مزید بڑھ گئے انہوں نے ذخیراندوزی شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے شکر کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی اور حکومت محض تماشائی بنی رہی۔

اسی طرح بابری مسجد مقدمےکے غیرضروری التواسےصرف انصاف کا قتل ہوا، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فرقہ پرستوں کیلئے وہ سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔ ایسے میں محض ماضی کی شاندار روایات گنوانا نہ تو دانشمندی ہے نہ ہی بہادری، اسے اپنی خامیوں کا احتساب کرنا ضروری ہے۔ موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ایسا ٹھوس لائحہ ٔ عمل تیارکیا جائے جو بہر صورت ملک اور عوام کو موجودہ فاشسٹ حکومت کے قہر و غضب سے نجات دلاسکے۔ گذشتہ دنوں اترپردیش اور بہار کی تین پارلیمانی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست فاش اس بات کا اعلان ہے کہ وقت ایک جیسا کبھی نہیں رہتا وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اس تبدیلی میں غور و فکر اوردرست حکمت عملی کا بڑا دخل ہوتا ہے۔

یوپی میں ایس پی اور بی ایس پی کے محض جزوی اتحاد نے فرقہ پرستوں کی نیندیں حرام کردیں اور ان حلقوں سے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکا جو اترپردیش کے وزیراعلیٰ کا خاص پارلیمانی حلقہ تھا جہاں سے وہ پانچ مرتبہ پارلیمانی الیکشن جیت چکے تھے اسی طرح پھول پور کی وہ سیٹ بھی بی جے پی سے چھین لی گئی جہاں سے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ ایم پی رہ چکے ہیں ۔ بہار کی ارریہ سیٹ بھی بی جے پی کے جبڑے سے راشٹریہ جنتا دل نے نکال لی۔ بی ایس پی کی سپریمو مایاوتی نے اگرچہ ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ یہ اتحاد جزوی ہے دائمی نہیں لیکن اب انہوں نے بھی محسوس کرلیا ہوگا یہ اتحاد جزوی نہیں دائمی ہی ہونا چاہیئے۔

 خیر جو بھی ہو فی الحال بی جے پی اور آرایس ایس کو اکھاڑ پھینکنا تمام سیکولر جماعتوں کا اولین مقصد ہونا چاہیئے۔ بی ایس پی، ایس پی اور راشٹریہ جنتادل نے تو اس سلسلے میں عملی پیش قدمی شروع کردی ہے بائیں محاذ کی جماعتوں کی شمولیت بھی آسان دکھائی دیتی ہے، اس تعلق سے کانگریس کو آگے آکر ایک ایسا مثالی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے،ایک ایسا اتحاد جو ۱۹۷۱کی ایمرجنسی کے بعد لوک نائک جے پرکاش نرائن کی قیادت میں قائم ہوا تھا  اس سےکم کا کوئی اتحاد کارگر نہیں ہوسکتا، فی الحال یہی واحد راستہ ہے فاشسٹ جماعتوں اور ان کے ظلم و ستم سےآزادی کا۔  ورنہ یاد رکھیئے۔۔۔۔۔۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔