اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی

محبوب عالم عبدالسلام

(سدھارتھ نگر، یوپی )

یہ دنیا عارضی اور ناپائیدار ہے۔ اس کی رعنائیاں اور دل فریبیاں صرف چند روزہ ہیں۔ اس وسیع و عریض کائنات کو زینت بخشنے والی تمام اشیاء خواہ وہ جاندار ہوں یا غیر جاندار، نباتات ہوں یا جمادات، فضاؤں میں اڑنے والے پرندے ہوں یا زمین کی تہوں اور دریاؤں کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ لگانے والی مخلوقات غرض انسان و جنات سمیت دیگر تمام مخلوقات کو اللہ رب العزت نے ایک مقررہ مدت کے لیے پیدا فرمایا ہے اور اُن کی روزی بھی مقرر کر دی ہے۔ خالق کائنات نے اس خوبصورت ترین دنیا کو وجود بخشنے اور اس میں انسانی آبادی کو قائم کرنے کا مقصد بھی قرآن حکیم میں بڑے ہی واشگاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (سورۃ الذاريات : 56) کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ ہمارا مقصدِ تخلیق صرف اور صرف خالقِ عز و جل کی عبادت و بندگی بجا لانا ہے۔ ہر طرح کی عبادت و ریاضت، دعا و استمداد، نذر، تمنا، قربانی، امید، خوف، بلکہ اپنے پورے وجود کو اس خالقِ حقیقی سے وابستہ کر لینا ہے۔ اندرونی حالات سے لے کر بیرونی معاملات تک، انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر زندگی کو رضائے الٰہی کے رنگ میں رنگ دینا ہے، کیوں کہ قرآن کریم کی رو سے یہی مقصود الٰہی ہے اور ہماری تخلیق کے پیچھے یہی حقیقی منشا ہے۔ اس آیت کریمہ سے واضح طور پر تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن و انس کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت و بندگی بجا لانا اور اس کو راضی و خوش کر لینا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم دنیا اور اس کے لوازمات سے بالکل کٹ جائیں، انسانی آبادی چھوڑ کر بیابانوں میں جا کر راہبانہ زندگی بسر کریں۔ قرآن کریم میں جا بجا آفاق و انفس میں غور کرنے اور تسخیر کائنات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ اگر ہم دینی فرمودات کو اپنی زندگی میں نافذ کر لیں، اسلامی نظریۂ حیات سے محکم وابستگی پیدا کر لیں تو دنیاوی ترقی کے جو معروضی اصول اللہ کی جانب سے مقرر ہیں، دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے وہ از خود حاصل ہوجائیں گے۔ دین پر کار بند رہنے سے ہم دنیا میں بھی ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہوسکتے ہیں۔

اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے کچھ دنیاوی تقاضے بھی ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں۔ نکاح شادی، آل اولاد، ایک دوسرے سے تعلقات و معاملات ہر ایک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان چیزوں کے لیے تگ و دو ضرور کریں، دنیاوی جھمیلوں میں ضرور رہیں، دنیاوی تقاضے بھی پورا کریں، لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی پیش پیش رہیں، مگر دنیا سے اتنا دھیان نہ لگا لیں کہ آخرت کو فراموش کر بیٹھیں، بعث بعد الموت سے منہ موڑ لیں۔ آج مادیت پرستی، زن، زر اور زمین کی حرص و ہوس میں انسانوں کی اکثریت اپنی زندگی کے حقیقی مقصد سے بے پروا ہو چکی ہے۔ دوسری قوموں اور مذاہب کے پیروکاروں کی تو خیر بات ہی الگ ہے۔ اسلام کے برعکس اُن کے اپنے عقائد و نظریات اور رسوم و رواج ہیں، حتی کہ موت و حیات کے تعلق سے بھی اُن کا اپنا علاحدہ فلسفہ ہے۔ اُن میں سے اکثر لوگ تو شرک کی غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے ہیں، دنیاوی چمک دمک اور دنیاوی ترقیاں ہی ان کا مطمحِ نظر ہیں، لیکن ہم کلمہ گو مؤحد مسلمانوں کا اس بات پر پختہ یقین و اعتماد ہے کہ یہ دنیا دار العمل ہے۔ یہاں ہمیں امتحان و آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس مختصر سی زندگی میں ہم جو کچھ بھی عمل کریں گے، میدان محشر میں جب رب ذوالجلال کی عدالت لگے گی تو اس کے دربار میں یہاں کے ایک ایک عمل بلکہ ذرے ذرے کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ ہمیں احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اُخروی زندگی کے تئیں اسی قدر حساس اور فکر مند ہیں، جس قدر دنیاوی زندگی میں بہتری کے لیے کوشش کر رہے ہیں ؟ یقیناً نہیں ! جس مقصد کے لیے اللہ نے اس عظیم الشان کائنات کو سجایا سنوارا تھا اور جس مقصد کے لیے جن و انسان کو اس دنیا میں بسایا تھا افسوس! ہم مسلمانوں کی اکثریت نے اس نصب العین سے منہ موڑ لیا ہے۔ ہماری ساری کد و کاوش، ساری دوڑ دھوپ دنیا اور اس کی لذتوں تک محدود ہوگئی ہے۔ دنیا کی محبت ہمارے دلوں میں رچ بس گئی ہے، ایمانی کمزوری کے ہم شکار ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ذلت و نکبت اور پسپائی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ دین و مذہب، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا رشتہ بس جذباتی سا ہوکر رہ گیا ہے۔ اپنے خالق و مالک کے احکامات کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ اُس کے حقوق کی کماحقہ پاسداری نہیں کرتے اور ہم نے اپنے مقصدِ تخلیق سے منہ پھیر لیا ہے۔ آپسی اخوت و محبت کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں اور باہم دست و گریباں ہیں، جب کہ ہمیں آپسی میل و محبت کو بڑھاوا دے کر اپنے خالقِ حقیقی کے حقوق ساتھ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے مقصدِ تخلیق پر غور و فکر کرتے ہوئے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے، اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ اب تک زندگی کے گزرے ہوئے ماہ و سال میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہمارے لیے یہ کام کرنا بہتر رہے گا یا بے سود؟ عبادات و اعمالِ صالحہ کے تئیں خود سے ہم کلام ہوکر یہ عہد کرنا چاہیے کہ یہ نیک کام ہمیں کرنا ہے تو کرنا ہے، یہ بری اور قبیح عادت ہمیں چھوڑنی ہے تو چھوڑنی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ آدمی کی پیدائش دو مرتبہ ہوتی ہے۔ ایک اس وقت جس دن وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور دوسرے اُس وقت جس دن اُسے یہ احساس اور شعور ہو کہ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا؟ ہماری تخلیق کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں ؟ ؂

احساس بڑھا دیتا ہے درد کی شدت کو
محسوس کروگے تو کسک اور بڑھے گی

اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو سہی! آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم سانس لے رہے ہیں، جب کہ ہمِیں جیسے ہزاروں لوگ پیدا ہونے کے بعد ہی آخرت کے لیے رختِ سفر باندھ لیتے ہیں، ہزاروں لوگ دنیا کی رنگینیاں اور رعنائیاں دیکھنے سے قبل رحمِ مادر میں ہی موت کا تلخ جام پی کر ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ ہزاروں افراد عنفوانِ شباب میں ہی سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر آخرت کی طرف سدھار لیتے ہیں کچھ تو خصوصیت ہمارے اندر ضرور پنہاں ہے کہ ربِ کائنات نے ہمارے وجود کو سلامت رکھا ہے کہ ہم سکون کی سانس لے رہے ہیں، دنیا کی لذتوں سے شاد کام ہو رہے ہیں، عقل و شعور کا استعمال کرکے زندگی کے لوازمات میں بہتری پیدا کر رہے ہیں۔

اللہ رب العالمین نے اس خوب صورت اور آرائش و زیبائش سے مزین دنیا کے لیے ہمارا انتخاب فرمایا ہے۔ ہمیں مسلم گھرانوں میں پیدا کرکے ہمارے اوپر احسانِ عظیم کیا ہے۔ تصور کیجیے کہ اگر ہم نے کسی غیر مسلم گھرانے میں اپنی آنکھیں کھولی ہوتیں تو آج توحید کی شمع سے بیگانہ ہوکر کفر و شرک کی عمیق گہرائیوں اور توہمات و خرافات کے دلدل میں پھنسے ہوتے، لاتعداد جھوٹے معبودانِ باطلہ کی پرستش کرتے، اپنے خالقِ حقیقی کے در کو چھوڑ کر غیروں کے در پر اپنی جبینِ نیاز کو خم کرتے اور رب العالمين کے پسندیدہ ترین دین، اسلام تک رسائی حاصل کرنا ہمارے لیے کتنا مشکل ترین مرحلہ ہوتا؟ کتنے ایسے نو مسلم بھائی ہیں کہ جنھیں اسلام کے آغوش میں آنے کے لیے، اسلام کی سنہری تعلیمات کو گلے لگانے کے لیے ذہنی و جسمانی اذیتوں سے دو چار ہونا پڑا ہے، طرح طرح کے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اپنے اہل و عیال سے رشتہ ناطہ توڑنا پڑا ہے، خاندان اور قبیلے والوں کے ظلم و ستم کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ زمین، جائداد، بینک بیلنس اور پُر تعیش زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا ہے تب کہیں جاکر اسلام کے دامنِ عفو میں اُنھیں سکون کی زندگی میسر ہوئی ہے۔ اس لیے ہمیں اس محدود اور فانی زندگی نیز اسلام اور اس کے سنہرے تعلیمات کی قدر کرنی چاہیے، زندگی کے ایک ایک لمحے کو، ایک ایک سانس کو اُس خالق کے حکم تابع کر دینا چاہیے، جس نے ہمیں یہ زندگی عنایت کی ہے۔

قارئین کرام!

آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں وہ بظاہر تو ترقی یافتہ دور کہلاتا ہے۔ انسان ترقیوں کے مدارج طے کر رہا ہے، خلاؤں میں اپنی کمندیں ڈال چکا ہے، نئی نئی حیرت انگیز چیزیں دریافت ہوکر انسانی زندگی میں سہولت پیدا کر رہی ہیں، دولت و ثروت کی بہتات ہے، زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر قسم کی آسائشیں میسر ہیں، غرض یہ کہ جسمانی راحت و سکون کی ہر چیز  وافر مقدار میں موجود ہے، مگر انسان کا وجود جو کہ جسم اور روح دو چیزوں سے مرکب ہے۔ یعنی جس طرح جسمانی نشو و نما کے لیے کھانا پینا، موسم کی تبدیلیوں کے اعتبار سے لباس پہننا، بھرپور نیند لینا اور آرام کرنا ضروری ہے، اسی طرح روحانی اور قلبی تسکین کے لیے تعلق باللہ، ذکر و اذکار، تلاوتِ قرآن، عبادت و ریاضت، صدقہ و خیرات، دعا و استغفار ضروری چیزیں ہیں۔
آج ہم جسمانی راحت کے لیے تو پوری تگ و دو کر رہے ہیں، دولت و ثروت کے حصول لیے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں، تاہم روحانی سکون کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں، اللہ سے لَو لگانے کے لیے ہمیں فرصت نہیں ملتی، لَو لگاتے بھی ہیں تو بس رسمی طور پر خانہ پری کے لیے یا اپنی نیک نامی ظاہر کرنے کے لیے۔ عبادت و بندگی، صدقات و خیرات، دعا و استغفار، انسانی ہمدردی و غم گساری، جن سے روح کو سکون ملتا ہے اس سے ہم کوسوں دور بھاگ رہے ہیں، نتیجتاً آج پوری انسانیت تباہی کے دہانے پر ہے، قلبی راحت و سکون کا فقدان ہے، انسان مادیت کے پھندے میں جکڑا ہوا ہے، اپنی سلطنت اور بادشاہی کے لیے، اپنی شان اور تمکنت دکھانے کے لیے انسانوں کا ہی خون کر رہا ہے، معمولی  اختلاف کی وجہ سے برسوں بغض و نفرت کی کاشت کرتا ہے اور مدتوں حسد کی آگ میں جلتا ہے، انسان دنیاوی گہما گہمی میں اس قدر گِھر چکا ہے کہ بعضوں نے تو خالقِ کائنات کا بھی انکار کر دیا ہے، الغرض روحانی طور پر کھوکھلا ہونے کی وجہ سے رحمتیں بھی زحمت بن گئی ہیں، آسائشیں بھی اذیت بن گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی وجود کی سلامتی اور سکون کے لیے جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی ناگزیر ہے۔ دونوں کی دستیابی اور توازن کے بعد ہی انسان حقیقی سکون سے آشنا ہو سکتا ہے۔

یاد رکھیں ! یہ مختصر سی زندگی رنگ رلیاں منانے، موج مستی کرنے، فخر و مباہات میں شرابور رہنے اور لہو و لعب میں منہک رہنے کا نام نہیں ہے کہ پیدا ہوئے، ہنستا کھیلتا بچپن گزارا، شباب آئی موج مستیاں کیے، شادی رچائی، بچے پیدا کیے، فلک بوس عمارتیں تعمیر کروائی، زمین جائداد خریدی، بینک بیلنس کیا، چمچماتی ہوئی گاڑیاں خریدی اور پھر بوڑھے ہو کر پیوندِ خاک ہوگئے۔ یہ زندگی حادثاتی اور اتفاقی طور پر بھی ہمیں نہیں ملی ہے کہ بس ایک حادثہ اور اتفاق تھا کہ ہم پیدا ہوگئے اور پھر ایک دن آئے گا کہ مر بھی جائیں گے۔ نہیں ہر گز نہیں ! یہ زندگی جو خالقِ کائنات نے ہمیں عنایت کی ہے اس کے پسِ پردہ خالقِ کون و مکاں کا ایک عظیم منصوبہ ہے، ایک وژن ہے، ایک پلاننگ ہے اور وہ پلانگ یہ ہے کہ ہم اِس زندگی کی اہمیت کوسمجھیں، اِس زندگی کے ڈور کو اپنے پیدا کرنے والے خالق کے ہاتھ میں دے دیں وہ جس طرف قدم بڑھانے کو کہے اسی طرف قدم بڑھائیں وہ جس طرف جانے سے روک دے اس سمت جانے سے باز آجائیں۔

یہ زندگی نہایت ہی مختصر بس چند روزہ ہے جو کہ امتحان و آزمائش کے لیے عطا کی گئی ہے۔ ہم جو بھی اچھا برا عمل اس زندگی میں کریں گے، موت کے بعد کا جو مرحلہ ہے یعنی آخرت کی دائمی زندگی اس میں اس دنیاوی زندگی کے ایک ایک لمحے کا ہمیں حساب دینا ہے۔ اگر ہم نے اس عارضی زندگی کو بامقصد گزارا، خالقِ حقیقی کی اطاعت و فرماں برادری میں گزارا تو جنت کی بیش بہا نعمتیں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہمارا مقدر ہوں گی اور خدانخواستہ اگر ہم نے اس دنیاوی زندگی کو یوں ہی بد مستیوں میں گزار دیا، رقص و سرود کی محفلیں آراستہ کرنے میں صرف کر دیں، رب کی نافرمانیوں میں ڈوبے رہے تو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ اور بدترین قسم کے عذاب سے دو چار ہونا طے ہے۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ موت کے بعد ہمیں ایک نئی زندگی میں قدم رکھنا ہے جو دائمی ہے، کبھی نہ ختم ہونے والی ہے، لیکن پھر بھی ہم غفلتوں کے دبیز چادر میں لپٹے ہوئے اللہ کے حکموں کی سرتابی کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے اور اس بات پر ایمان بھی ہے کہ موت کا تلخ جام پینے کے بعد دنیاوی زندگی کا سارا قصہ یکلخت ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ہمیں برزخ کی زندگی کے مرحلے کو عبور کرنا ہے، میدانِ حشر کی سختیوں کو برداشت کرنا ہے، رب کے سامنے حاضر ہوکر ذرے ذرے کا حساب دینا ہے، پل صراط سے گزرنا ہے؛ مگر افسوس یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم غفلت کی نیند سورہے ہیں، گناہوں کی آلائشوں میں لت پت ہیں، ہماری فکر و سوچ کا محور محض دنیا اور اس کی آسائشوں تک محدود ہوگیا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے :   ؎

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے  یہ شامِ  زندگی صبحِ  دوام  زندگی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  ((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ)) (صحیح بخاری : 6416) یعنی ’’دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو جیسے تم اجنبی ہو یا عارضی طور پر کسی راستہ پر چلنے والے مسافر ہو۔‘‘

اس حدیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیاوی زندگی کو اجنبی اور مسافر کی زندگی سے تعبیر کیا ہے۔ جس طرح ایک مسافر سفر کے دوران بس عارضی اور ضروری طور پر کہیں قیام کرتا ہے پھر اپنی اصل منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک مومن کو یہاں کی زندگی کو ایک عارضی قیام گاہ کے طور پر گزارنا چاہیے اور اصل منزل یعنی آخرت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ اللہ کے ذکر و شکر میں اپنی زبان تر رکھنی چاہیے، کیوں کہ اس ذاتِ کریم نے دولتِ اسلام کے ساتھ ساتھ ہمارے اوپر بے شمار نعمتوں کی بارش کی ہے، ہمیں صحیح سالم دل، دماغ، ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان اور ناک دیا ہے۔ جب کہ دنیا کے اندر بہتیرے لوگ اِن نعمتوں اور نوازشوں سے محروم ہیں۔ کچھ تو ایسی بیماریوں میں مبتلا ہیں کہ ہسپتال کے در و دیوار اُن کی دنیا ہے، دوائیں اُن کی غذا ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ اُن کے پاس دولت و ثروت کی ریل پیل ہے، مگر پھر بھی قلق و اضطراب کے شکار ہیں، ذہنی کوفت اور قلبی الجھن سے دوچار ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور ایک دن ہمیں اِس دنیائے دوں کے تمام سرمائے اور جمع پونجی کو چھوڑ کر رخصت ہونا ہے، اس لیے کیوں نہ ہم اپنے آپ پر غور و فکر کرکے اس مختصر سی زندگی کو با مقصد بنالیں، اپنے رب سے اپنا تعلق مضبوط کرلیں، سفرِ آخرت کے لیے نیکیوں کا توشہ تیار کرلیں، دوسروں کے لیے خیر کا باعث بن جائیں، دوسروں کو حقیر سمجھنے سے باز آجائیں، دنیا کو بھی خوش گوار بنالیں اور آخرت کو بھی سنوار لیں۔

جس دنیا کی آسائش و نِعم کو ہم دونوں ہاتھوں سے بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں، حرام و حلال کی کوئی پروا نہیں کرتے، مال و اولاد کی چاہت میں آخرت کو بھول بیٹھے ہیں، اس دنیا کی حقیقت و حیثیت کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ)) (جامع ترمذی : 2320، السلسۃ الصحیحہ : 686)’’اگر دنیا کی قدر و قیمت اللہ کے یہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو اس میں سے ایک قطرہ پانی بھی نہ پلاتا۔‘‘

آخر اس بے ثبات دنیا کے پیچھے ہم کب تک لگے رہیں گے؟ اس کی رنگینیوں میں کب تک کھوئے رہیں گے؟ ہماری زندگی میں وہ مسرت ساعت کب آئے گی کہ جب ہم سب کچھ بالائے طاق رکھ کر ایک اچھے انسان بنیں گے، ایک اچھے اور مفید شہری بنیں گے، ایک اچھے مسلمان بنیں گے اور اپنے خالق سے لو لگائیں گے؟ اس ذات سے اپنا رشتہ استوار کریں گے؟ ابھی بھی وقت ہے ہم اپنے گناہوں پر نادم ہوں، اللہ کے حضور روئیں، گڑاگڑائیں اور اُس سے اپنے کیے کی معافی مانگیں، اللہ ہمیں معاف کرنے کے لیے تیار ہے، اُس کی رحمت و بخشش کا دروازہ کھلا ہے، بس دیر اس بات کی ہے کہ ہم اُس کے سامنے سر بسجود ہوں۔ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھیں اور اسی کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔