اچھے دن کی تلاش میں عام آدمی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

انڈیا ٹی وی کے پاپولر شو’ آپ کی عدالت ‘ کی پرانی ویڈیو نظر سے گزری۔ جس میں با با رام دیو شرکاء  سے پوچھ رہے ہیں کہ انہیں کیسی سرکار چاہئے۔ جو پیٹرول ستر، اسی روپیہ میں دے یا پھر تیس، چالیس روپے میں۔ جو گیس سلنڈر تین سو، ساڑھے تین سو میں دے یا پھر سواچار سو اور بغیر سبسڈی والا بارہ سو میں۔ بے تحاشہ مہنگائی کو روکنے کیلئے ہی با با را دیو جیسے حضرات نے عام لوگوں کو بی جے پی کا ہمنوا بنایا۔ شاید انہیں بھاجپا کے اقتدار میں آنے سے عام زندگی کے بہتر ہونے کی امید رہی ہوگی۔ کیونکہ عوام ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری اور کرپشن سے پریشان تھے۔ سرکار انہیں مطمئن نہیں کر پارہی تھی۔ اس کے برخلاف بی جے پی روزگار مہیا کرانے، مہنگائی دور کرنے، ٹیکس کم کرنے، کسانوں کو ان کی پیداوار پر لاگت سے دوگنا قیمت دلانے، کالی دولت ملک واپس لانے اور کرپشن ختم کر کے گڈ گورننس کا جواب دکھا رہی تھی۔ 2014 کے الیکشن میں بھاجپا کی ٹیگ لائن ہی’اچھے دن آنے والے ہیں ‘ تھی۔ جسے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے سے کور کیا گیا تھا۔

سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ اور اچھے دن کا خواب سب پر بھاری پڑا۔ عوام نے بی جے پی کی فرقہ وارانہ شبیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اِسے تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ پارلیمنٹ میں اسے جتنی نشستیں حاصل ہوئیں، اس کی خود بھاجپا کو امید نہیں تھی۔ بی جے پی نے مانا تھا کہ اس کامیابی میں مسلمانوں کا بھی حصہ ہے۔ پندرہ فیصد مسلم ووٹ ملنے کا اعتراف کیا گیا تھا۔ حلف برداری کے بعد وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندرمودی کی پہلی تقریر بہت امید افزا تھی۔ اس سے عام آدمی کو بھی لگا تھا کہ اس کی زندگی میں بہتری آئے گی۔ اس نے بھاجپا کو چن کر کوئی غلطی نہیں کی ہے، لیکن بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ اس کا انتخاب غلط تھا۔ بی جے پی نے حکومت بنتے ہی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ لو جہاد، کیرانہ (مظفر نگر) سے ہندوؤں کی نقل مکانی کاشور، گھر واپسی اور گائے کے نام پر ہجومی تشدّد نے مہنگائی، روزگار، کسانوں کے مسائل، کرپشن اور کالی دولت کے سوالوں کو پیچھے کر دیا۔

الیکشن میں تو یہاں تک کہا گیا تھا کہ کالی دولت آئے گی اور ہر شہری کے کھاتہ میں پندرہ لاکھ جمع ہوں گے۔ بعد میں اسے چناوی جملہ کہہ کر بات کو ٹالنے کی کوشش کی گئی۔ نئے روزگار پیدا کرنا تو دور 2014 کے بعد ریلوے میں دو لاکھ نوکریاں کم کر دی گئیں۔ رہی سہی کسر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے پوری کردی۔ اس سے کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ کئی کمپنیاں اور صنعتی ادارے بند ہو گئے۔ نوٹ بدلنے میں 125 لوگوں کی جان گئی وہ الگ۔ نوٹ بندی کے وقت کہا گیا تھا کہ نکسل واد اور دہشت گردی کو روکنے کیلئے یہ قدم ضروری ہے۔ اس سے غریبوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ان کے حق میں لیا گیا فیصلہ ہے۔ آگے چل کر انہیں ہی اس کا فائدہ ملے گا۔ نوٹ بدلنے سے نہ دہشت گردوں، نکسلیوں کے حملے رکے اور نہ ہی گھروں میں رکھا ہوا کالا دھن باہر آیا۔ البتہ بہت سے مزدوروں کا روزگار ضرور چلا گیا۔ کئی کو تو ابھی تک مستقل کام نہیں مل سکا ہے۔ 2014 کے بعد سے اب تک سرحد پر جتنے فوجی ہلاک ہوئے ہیں، اس سے پہلے کبھی اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔

روزگار فراہمی میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے پکوڑے تلنے اور پان لگانے کو روزگار کا نام دیا گیا۔ کسانوں کے مسائل حل کرنے میں بھی سرکار کی پیش رفت دھیمی رہی۔ اس کی دلچسپی کسانوں کی پریشانیاں دور کرنے کے بجائے ان کی اراضی تحویل میں لے کر کارپوریٹ کے حوالے کرنے میں زیادہ دیکھی گئی۔ حکومت نے سردار پٹیل اور شیواجی کی مورتیوں پر جتنے پیسے خرچ کئے، اس سے بہت کم میں کسانوں کو قرضوں سے نجات دلائی جا سکتی تھی۔ کرناٹک میں ایک 35 سالہ کسان نے اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ حال ہی میں قرض کی تاب نہ لاکر خود کشی کر لی۔ ملک میں قرض یا فصل برباد ہونے کی وجہ سے کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جس سے بھاجپا کے کسان دوست ہونے کے دعویٰ کی قلعی کھلتی ہے۔

موجودہ حکومت میں بھوک سے موت کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے، جو سرکار کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اس میں جھارکھنڈ سب سے آگے ہے۔ جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ سہولیات کیلئے آدھار کے ناگزیر ہونے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء تھا۔ اس کے باوجود جھارکھنڈ میں راشن تقسیم کار کارڈ کے ساتھ آدھار کو لنک کئے بغیر راشن دینے کو تیار نہیں تھے۔ اسی کی وجہ سے بھوک سے مرنے والوں میں اضافہ ہوا۔ جبکہ بی جے پی اپوزیشن میں رہتے ہوئے آدھار کو لاگو کرنے کے خلاف تھی۔ اتنا ہی نہیں وہ تو منریگا کو بھی جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھی، لیکن بعد میں اس نے منریگا کو جاری رکھا۔ بھاجپا نے حکومت میں آنے کے بعد صحت اور تعلیم کے بجٹ میں بھی کمی کر دی۔ اس کی وجہ سے دونوں شعبوں کی حالت پتلی ہے۔ البتہ ہیلتھ ٹورزم میں اضافہ ہوا ہے۔ اور عام علاج اور تعلیم مہنگی ہو گئی ہے۔ پرائیویٹ اسکول اور اسپتال من مانی قیمت وصول رہے ہیں۔

سماج کے آپسی روابط اور یکجہتی کی بات کریں تو اس میں بہتری کے بجائے گراوٹ آئی ہے۔ نفرت کی کھائی اور چوڑی ہوئی ہے۔ گائے کے نام پر ہجومی تشدد اسی کا نتیجہ ہے۔ طبقاتی تشدد میں 2014 کے بعد غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ اس کا شکار دلت، کمزور، صحافی اور دانشور بھی ہوئے ہیں۔ سوامی اگنی ویش تک اس سے نہیں بچ سکے۔ اختلاف میں اٹھنے والی ہر آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ واجپئی صاحب کے زمانے میں بھی بیف کا ایکسپورٹ بڑھا تھا اور پچھلے چار سال میں بھی اس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ سماج میں نفرت اس حد تک بڑھی ہے کہ شک کی بنیاد پر ہی لوگ کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دے رہے ہیں۔ انہیں پولیس، انتظامیہ کسی کا بھی ڈر نہیں ہے۔ دلتوں کے ساتھ زیادتی کا حال یہ ہے کہ دلت مریضوں کو ایمبولینس تک نصیب نہیں ہو رہی ہے، کسی کو اپنی اہلیہ کی لاش کو کندھے پر رکھ کر آٹھ کلومیٹر چلنا پڑا، تو کوئی سائیکل پر لاد کر اپنے مردے کو لانے کیلئے مجبور ہوا۔ ایسے واقعات کا یہ ملک گواہ بنا ہے جو انسانی قدروں کے خلاف ہیں۔ سماجی ہی نہیں اخلاقی گراوٹ نے بھی اس دوران اپنی ساری حدیں پار کر دی ہیں۔ اناؤ سے لے کر کٹھوا تک اس کا مظاہرہ ہوا۔ جہاں بی جے پی زانیوں کی حمایت میں کھڑی نظر آئی۔ پھر بھی وہ سب سے بہتر ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔

کالی دولت ملک واپس لانا تو دور بنکوں سے قرض لے کر جو بھاگ گئے یا بھاگ رہے ہیں ان کو بھی حکومت نہیں روک پارہی ہے۔ کہاں تو یہاں تک جا رہا ہے کہ انہیں بھگانے میں خود بھاجپا سرکار کی مدد شامل رہی ہے۔ رافیل لڑاکو جہازوں کی خرید کو لے کر جو تفصیلات آرہی ہیں وہ بھی بی جے پی کو کٹہرے میں کھڑی کرنے والی ہیں۔ اس سے کرپشن فری حکومت دینے کے بھاجپا کے دعویٰ پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ شاید اسی لئے با با رام دیو این ڈی ٹی وی کے یوتھ کانکلیو میں بی جے پی سے اپنا پلا جھاڑتے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی مودی سرکار کو مہنگی پڑے گی۔ وہ بی جے پی کیلئے تشہیر کریں گے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں سیاست سے دستبردار ہو چکا ہوں، میں سب کے ساتھ ہوں اور میں آزاد ہوں۔ عام آدمی تو اب بھی اسی انتظار میں ہے کہ اس کے اچھے دن کب آئیں گے، آئیں گے بھی یا نہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔