اکبر اگر صحافی ہی رہتے تو شاید یہ گھٹا نہ برستی

حفیظ نعمانی

ہر آدمی کے اپنے اپنے طور پر سوچنے کے طریقے ہوتے ہیں مشہور صحافی ایم جے اکبر صاحب پر ایک لڑکی نے الزام کیا لگایا گویا دبستاں کھل گیا اور یہ تعداد بڑھ کر 14  ہوگئی ہے۔ اخبار کی مانیں تو نہ یہ ایک وقت کی بات ہے، نہ ایک سال کی اور نہ ایک اخبار کے دفتر کی۔ بتایا جاتا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے کسی کا تعلق بھی نہیں نہ یہ ایک مذہب یا ایک شہر یا کسی ایک سیاسی پارٹی سے متعلق ہیں۔ ان کے الزام کا جواب تو یہ تھا کہ اکبر صاحب یہ ثابت کرتے کہ یہ بازار میں بکنے والی چیز ہیں اور اعلان کرتے کہ ایک متعین وقت میں وہ سب کا کالا اور سفید کردار قوم کے سامنے رکھ دیں گے۔ اس کے بجائے انہوں نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے اور ان میں سے بعض لڑکیوں نے اس مقدمہ کا سامنا کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

کانگریس کے بعض لیڈروں نے اپنے طور پر وزیراعظم کو آواز دی ہے کہ اتنے اہم مسئلہ میںوہ خاموش کیوں ہیں؟ کہنے  والوں نے ان کے نعرے بیٹی بڑھائو اور بیٹی پڑھائو کو یاد دلایا ہے اور بیٹیوں کی حفاظت کے اعلان یاد دلائے ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ وزیراعظم کے اوپر آج کل پانچ ریاستوں کے الیکشن سوار ہیں۔ اور جب ان پر الیکشن سوار ہوجاتے ہیں تو وہ مذہبی ہوجاتے ہیں۔ اور ان کا مذہب وہ ہے جو آر ایس ایس کہے اور اس نے کہہ دیا ہے کہ ہم جنسی جرم نہیں غیرفطری عمل ہے یعنی یہ قابل سزا نہیں ہے اگر کسی کو کوئی لڑکا اچھا لگے تو وہ شوق پورا کرلے۔ اور سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بینچ نے کہہ دیا کہ اگر کسی شادی شدہ عورت کا دل چاہے تو وہ اپنی پسند کے مرد کے ساتھ اپنی جنسی پیاس بجھا سکتی ہے۔ ان دونوں فیصلوں کے بعد کسی مرد کا اپنی پسند کی لڑکی سے چھیڑچھاڑ اتنا بڑا جرم کہاں رہ جاتا ہے کہ اگر وزیر ہے تو استعفیٰ دے یا معافی مانگے؟

ایم جے اکبر صاحب نے اپنی مرضی سے یا جس کے مشورہ سے ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہے انہیں بعد میں اندازہ ہوگا کہ انہوں نے غلط کردیا اگر ہمارے ساتھ ایسا ہوا ہوتا یا ہم اُن کے خیرخواہ ہوتے تو ہرگز نہ کرنے دیتے۔ اس لئے کہ جس عزت کو بچانے کے لئے وہ عدالت گئے ہیں وہ تو گئی۔ اب اگر وہ تمام لڑکیاں یہ بھی کہہ دیں کہ ملازمت کے دوران انہوں نے ہمیں سب کے سامنے بے عزت کیا تھا یہ اس کا بدلہ لیا ہے۔ ورنہ وہ تو بھگوان ہیں تب بھی زبان سے کوئی کچھ کہے نہ کہے دل میں یہی مانے گا کہ یا خرید لیا یا حکومت کی دھمکی یا گھر بھر کی قربانی پر بات آئی تو زبان بدل دی۔ عزت تو صرف اس وقت محفوظ رہ سکتی ہے جب ماتحت کام کرنے والی لڑکیوں کی طرف نگاہ بھر کے دیکھا بھی نہ جائے اور یہ صرف خوفِ خدا سے تو ہوسکتا ہے دوسری کسی چیز سے نہیں۔ اب اگر عدالت بیان کی نوبت آتی ہے تو جس نے چھیڑنے پر زبان کھولی ہے وہ ان کاموں کو بھی بیان کرسکتی ہے جو نہ ہوئے ہوں۔

کسی اخبار کا ایڈیٹر کسی محکمہ کا افسر کسی کالج کا پروفیسر اور کسی کارخانہ کا مالک اس آزمائش میں پورا نہیں اترتا ہر جگہ لڑکیوں سے ملازمت کی قیمت وصول کی جاتی ہے اور سب جاننے کے باوجود خاموش رہتی ہیں۔ ایم جے اکبر صاحب سر پر قرآن پاک رکھ کر بیان دیں تب بھی ان کے اوپر لگے الزام دُھل نہیں سکتے۔ یہ بات مودی جی کی نہیں سب کی ہے کہ انہیں صرف وہ مسلمان پسند ہیں جن کی بیوی ہندو ہو بی جے پی کے سکندر بخت، سید شاہ نواز حسین، مختار عباس نقوی اور ایم جے اکبر سب اس معیار پر پورے اترتے ہیں یہ اس کا پیمانہ ہے کہ ان کے نزدیک مذہب دوسرے درجہ کی چیز ہے اور وہ نام تک کافی ہے۔ ایک زمانہ میں اندراجی کو جب وہ وزیراعظم تھیں تو خیال آیا کہ سیکولرازم کا تاج سر پر رکھنے کیلئے یہ بھی کرنا چاہئے کہ کسی صوبہ کا وزیراعلیٰ مسلمان کو بنایا جائے۔ انہوں نے مہاراشٹر کا وزیراعلیٰ عبدالرحمن انتولے کو، بہار کا عبدالغفور کو، راجستھان کا برکت اللہ چوہان کو اور آسام کا انورہ تیمور کو بنا دیا ان میں تینوں کی بیوی ہندو تھیں اور جب سارے ملک میں ہائے ہائے مچی تو چھ مہینے میں ہی سب کو الزام لگاکر رخصت کردیا۔

وزیراعظم کے اوپر مضبوط دلیلوں کے ساتھ اعتراض کیا جارہا ہے کہ انہوں نے ملک کو ہر اعتبار سے کمزور کردیا اس میں کوئی شک نہیں کہ روپئے کی ناقدری ڈیزل پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اتنا اچھال کہ جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا اور گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ مسلسل وعدہ خلافی اور اب نئی فصل میں ان کے ساتھ فریب کی تیاری۔ اور فصلوں کے بیمہ کے نام پر بیمہ کمپنیوں کو اندھا فائدہ اور کسانوں کی خودکشی کا نہ ختم ہونے والے سلسلہ نے وزیراعظم کی زبان پکڑلی ہے۔ ورنہ وہ اتنے بڑے اور شرمناک معاملہ میں اتنے چپ نہ رہتے۔ مودی جی اترپردیش کے یوگی کی طرح ایسے نہیں پھنسنا چاہتے جیسے وہ اُنائو کے ایم ایل اے کی حمایت کرکے پھنس گئے ہیں۔ مودی جی کے لئے تو لوک سبھا کے داغی ممبر ہی پانچ سال سے جان کا عذاب بن چکے ہیں راجیہ سبھا کے اکبر کو اپنی حمایت دے کر کہاں گردن پھنسائیں گے۔

جن لوگوں کی انگریزی اچھی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنی انگریزی کی تراش خراش کے لئے ملک کے سب سے نامور صحافی کو وزارت خارجہ میں لے لیا تھا۔ لیکن اکبر جیسے عظیم صحافی کے لئے عزت شہرت اور دولت کی کیا کمی تھی کہ وہ مودی جی کی وزارتی ٹیم کے کھلاڑی بن گئے اور اپنی کھال کو اتنا نازک بنالیا جس تک ہر ہندوستانی کا ہاتھ پہونچ سکتا ہے۔ صحافی عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا وہ ماسٹر ہوتا ہے وزیر تنخواہ دار عوام کا نمائندہ ہوتا ہے ان سے ان رشتوں کے بارے میں آج جس لہجہ میں عام آدمی سوال کرسکتا ہے اس لہجہ میں اس وقت نہیں کرسکتا تھا جب وہ صحافیوں کے امام تھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔