اک دستوری آزادی کے لئے میدان عمل میں آنا ہو گا

نہال صغیر

 مادر وطن کی آزادی کی لڑائی کئی دہائیوں پر محیط رہی- تمام مذاہب کے لوگوں نے کندھے سے کندھا مل کر یہ لڑائی لڑی۔ صرف برہمن وادی، منو وادی اس سے دور رہے۔ بلکہ انگریز سامراج کا ساتھ دیا۔ مجاہدین آزادی کے خلاف انگریزوں کے خبری بنے۔ مگر آج یہ سب سے بڑے خودساختہ محب وطن بنے ہیں، وقت بدلا تو قدریں بھی بدل گیئں، اتنا ہی نہیں یہ خودساختہ محب وطن، اپنے کرم و عمل سے دھرتی کے لئے  بوجھ بنے ہیں۔ اک طرف وہ دلتوں کے اول ترین دشمن ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں سے بھی کم بیر نہیں ہے

 یہ مسلمانوں کو غیر ملکی دوسرے درجے کا شہری مانتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کو ہندووں کے رحم وکرم پر رہنا ہو گا۔ اور ملک مین، مسلمان کسی بھی قسم کی رعایت مانگ نہیں سکتے۔ مسلمانوں کو کتا، ملیچھ کہنے میں انہیں عار نہیں  ہے- شریعت کا قانون ملک میں نہیں چلے گا۔ یہ یکساں سیول کوڈ کی بات کرتے ہین۔ مسلمانوں کو چڑانے کے  لئے رام زادے، حرام زادے، غداروطن، پاکستان چلے جاو کی دھمکیاں دیتے رہنا ان کا کام ہے، لوجہاد، گھر واپسی جیسے، ان کے پروگرام مسلمانوں کو ہزیمت دینے کے لئے ہی ہے۔ یہ وہ نام نہاد محب وطن جنہیں ہندوستان کے دستور اور آئین سے نفرت ہے۔ اسے بدلنے کی بات کرتے ہین۔ مذہب کی بنیاد پر وطنیت کو مانتے ہیں۔ دستور ہند کے تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ اس میں اپنا کچھ نہیں یعنی ہندووں کی مذہبی کتابوں سے دستور ہند بنانا  چاہیئے۔ منو سمرتی اور شاستروں سے آئین ہند کو مزین کیا جائے

آر ایس ایس کا قیام 1925 میں ہوا اپنے روز قیام سے ہی یہ ملک میں ہندو راشٹرا کے لئے کوشاں ہے۔ جمہوریت سے اسے دلچسپی نہیں۔ ہٹلر اور مسولینی جیسے ظالم و جابر ان کے ہیرو ہیں۔ پہلے جن سنگھ اور اب بی جے پی آر ایس ایس کا اک سیاسی بازو ہے- ہندو مذہب  کے منطق اور فلسفہ کے لحاظ سے ہندو مذہب چاردرجوں میں تقسیم ہے- آخری درجہ شدر  کا ہے جو سب کی خدمت کرے گندے  کام یہ کرے، صاف صفائی غلاظت صاف کرنا اس کا کام، اک دلت جس کا اخلاق اونچا ہو اعلیٰ تعلیم اوصاف کا  ہو  اس کے ساتھ بھی ہندو مذہب میں سینکڑوں سال سے اسے بھی اچھوت مانا جاتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اک شخص کو اپنے اعلیٰ انسانی تعلیمی سماجی اقدار کے باوجود اس کی قدر نہ کی جائے۔ اسے بھی سماجی سطح پر دھتکاراجائے۔ اسے بھی انسان نہیں، حیوان سے بد تر مانا جائے۔ ملک کےاور ہندو دلتوں کے لیڈر بابا صاحب امبیڈکر، بچپن ہی سے انتہائی ذہین، پڑھنے لکھنے میں ہوشیار اور اعلی اخلاق کے تھے۔ دوران طالب علمی کلاس میں انکے بیٹھنے پر ان کے ساتھ چھوا چھوت، ان کے ہم مذہب ہندووں کے ہاتھوں ہوا کرتا تھا۔ جبکہ خود بابا  صاحب ہندو تھے۔ ہندو مذہب کاحصہ ہونے کے باوجود ہندو دلتوں کے ساتھ، صدیوں سے، ہندووں کا ناروا سلوک جاری ساری ہے-   ہندو فلسفہ کے لحاظ سے دلت پیدائشی طور پر ہی دلت ہے- یہ برہمن وادی منہ سے تو دلتوں کو اپنا بھائی تک مانتے ہیں، مگر اسے شہری حقوق دینے کو تیار نہیں۔ آخر جب کسی بھی انسان کے لئے مذہب ہی کفن بن جائے۔ زندگی کی ہر صبح اس کے لئے اذیت کا پیغام لائے، تو عزت نفس اور خود داری ہر انسان کا فطری و پیدائشی حق ہے۔ یہ اگر اسے حاصل نہیں تو وہ ایسے مذہب کو خیر باد کر دے گا۔ چاہے اسے کتنی ہی لالچ دی جائے

ہندو دلتوں کے لیڈرڈاکٹربابا صاحب امبیڈکر نے کہا  کہ میں ہندو پیدا ہوا ہوں ہندو مرنا نہیں چاہتا  اورانہوں نے  اپنے لاکھوں معتقدین کے ساتھ ہندو مذہب کو، چھوڑ دیا۔ بودھ مذہب قبول کر لیا۔ ہمیشہ، ہندو دلتوں کو حصول حق وانصاف کے لئے راستہ دکھلا گئے۔ حیدرآبادیونیورسٹی کا اعلیٰ درجہ کا اک  انتہائی  ذہین اور بااخلاق دلت طالبعلم ، روہیت ویمولہ نے اپنے اوپر ہونے والے ستم، ناروا سلوک کی بناء پر خودکشی کر لی۔ اپنی خود کشی کے نوٹ میں اس نے تحریر کیا کہ اس کی خودکشی کا سبب اس کا ہندو دلت ہونا ہے۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے گھر والوں نے ہندو دھرم چھوڑ کر بدھ دھرم اختیار کر لیا

برہمن وادیوں نے اپنے ہی مذہب کے ایک طبقہ کو اپنے جیسا نہیں سمجھا۔ صدیوں سے ان پر ستم ڈھاتے رہے ہیں، تو مسلمانوں کی ان کے نزدیک کیا گنتی

ملک کی بد قسمتی ہے کہ آج ملک میں ان منو وادیوں  برہمن وادیوں کی حکومت ہے۔ آر ایس ایس، بی جے پی برہمن واد، منو واد کے پجاری ہیں۔

اس ملک کے لئے مسلمانوں کی بھی بڑی خدمات ہیں جس کی اک تاریخی حقیقت ہے۔ کوئی اسے جھٹلا نہیں سکتا-  افسوس

 جب وقت پڑا گلستان میں تو خون ہم نے دیا

 اب بہار آئ تو کہتے ہیں کہ تیرا کام نہیں

ملک کے تئیں مسلمانوں کی خدمات ملک کے چپہ چپہ ذرہ ذرہ پر ہے۔ ملک کو انگریز سامراج سے آزاد کرانے میں، جنگ آزادی میں مسلمان صف اول میں تھے۔ اوروں کے لئے جنگ آزادی ملکی فریضہ تھی مگر مسلمانوں کے لئے مذہبی فریضہ تھی۔ انگریزوں نے پہلے ملک میں آکر تجارت شروع کی پھر ملک کو غلام بنا دیا۔ وہ ہمارے ملک کے حکمراں بن گئے۔ صرف اتنا ہی نہیں مغربی تہذیب و کلچرل کی بھی یلغار پورے ملک میں شروع کر دی۔ اصل نشانہ مسلمان تھے۔ مذہب اسلام کو اس سے خطرات محسوس ہوئے- عیسائی مشنریاں بڑے زوروں سے انگریز سرکار کی مدد سے عیسائیت کی تبلیغ اور مسلمانوں کے ارتداد کے لئے میدان میں آگئیں۔ ان کے ایمان کو کمزور کرو یہ ہی مسلمانوں کی اصل طاقت ہے۔ ایسا انگریز کرنے پر اتر آئے، عالموں کو خریدنے لگے۔ مسلمانوں میں پھوٹ و انتشار ہو، جس کی بناء پر یہ کمزور ہو جائیں، ان کی ہوا اکھڑ جائے- غلام قادیانی اک عالم، انگریزوں کا زر خرید غلام تھا۔ اپنے آپ کو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور بھی علمائے دین کو خرید کر انگریز منظم سازش کے ساتھ مسلمانوں پر شبخوں مارنے لگے

اج بھی ملک عزیز ہی میں نہیں پوری اسلامی  دنیا  میں  زر خرید غلاموں اور منا فقین کی کمی نہیں

ضمیر زر کے ترازو میں تل رہے ہیں یہاں

کہاں کا زہد و تقدس کہاں کا علم وہنر

مسلمان  متعدد دور میں، اپنی طاقت کی بناء پر اک زمانہ میں سر خرو ہو کر رہا- وہ طاقت کیا تھی۔ وہ ایمان کی طاقت تھی۔ اسی ایمان کامل کی بناء پر   وقت کی سپر پاور قیصر وکسریٰ کو دین اسلام کے آگے سرنگوں ہونا پڑا

 یونان مصر وروماسب مٹ گئےجہاں سے

 باقی ہے اب تک  مگر نام و نشاں ہمارا

ماضی میں متعدد بارمسلمانوں کے ہاتھوں عیسائیوں کوشکست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے ملک میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ان سے ہی، عیاری مکاری سے، حکومت چھین کر انگریز، ملک کے حکمران بن گئے۔ ان کو مسلمانوں ہی سے ڈر تھا کہ وہ  پھر اپنی حکومت چھین سکتے ہیں۔ مسلمان کے لئے سب سے بڑھ کر دین اسلام  ہے، ایمان ہے-اس کے مقابلہ اسے دنیا کی کوئی شئے عزیز نہیں۔ ایمان کی خاطر، اپنی جان بھی لٹا سکتا ہے

علمائے دین کے نزدیک اہم ترین بات ملک کو انگریزون کی غلامی سے، آزادی کے ساتھ ساتھ دین ایمان کو بچانا بھی ضروری تھا

اوروں کے لئے ملک کی آزادی ملکی فریضہ تھی، مسلمانوں کے لئے مذہبی فریضہ تھی۔ ملک کی آزادی اور دین اسلام کی حفاظت کے لئے علمائے دین نے جہاد کا اعلان کردیا۔ مولاناشاہ عبدالعزیزرحمت اللہ علیہ اک عالم تھے۔ اللہ نے ان کو فراست مومنانہ عطاکی تھی۔ انہوں نے محسوس کر لیا، انگریز فرنگیوں کے ارادے  خطرناک تھے- یہ ہم سے فقط ہماری دنیا ہی چھین لینا نہیں چاہتے بلکہ ہمارا دین بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ 1772 میں مولانا  شاہ عبدالعزیزؒ نے انگریز فرنگیوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا۔ ان کو ملک سے نکالواور آزادی حاصل کرو کہ یہ مسلمانوں کے لئے فرض ہے۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیاگیا۔ مسلمان بذات خود ہر اول دستے میں رہے-اس فتوی کے بعد آزادی کی جتنی تحریکیں چلیں۔ وہ اسی فتوی کا نتیجہ تھیں۔ متعدد تحریکیں، تحریک ریشمی رومال، تحریک جنگ آزادی، تحریک ترک موالات، تحریک بالا کوٹ وہ سب کے سب اس فتوی کا نتیجہ تھیں۔ مسلمانوں کے اندر انگریزوں سے ملک کو آزاد کرنے کا اک زبردست جوش و جذبہ پیدا ہوا-1792 میں ٹیپو سلطانؒ نے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی۔ میر صادق نامی اک منافق کی بناء پر ٹیپو سلطانؒ کو شہادت نصیب ہوئی۔ کچھ عرصہ  بعد سراج الدولہ نے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی، یہاں بھی میر جعفر نے سراج الدولہ کی فوج میں رہ کر انگریزوں کے لئے مخبری اور منا فقت کی۔ جنگ پلاسی میں انگریز غالب رہا۔ منافق کہاں نہ تھے اور کہاں نہیں ؟

 جحفر از بنگال، صادق ازدکن

 ننگ دین ننگ ملت ننگ وطن

 ہزاروں علمائے دین نےملک کی آزادی اور لاکھوں مسلمانوں نے صعوبتیں جھیلیں  ہزاروں علماء کو پھانسی دی گئیں کہ نماز جنازہ کے لئے کوئی عالم نہیں ملتا تھا۔ مسلم مجاہدین آزادی کو اس قدر جیلوں میں اذیتیں دی جاتی تھیں کہ زخموں سے جسم چھلنی و زخمی ہو جاتا کہ اگر ان کا انتقال ہو جاتا تو میت کو غسل دینا بھی بھاری پڑ جاتا

ملک کے خود ساختہ محب وطن 56 انچ کا سینہ پھیلانے والے یہ سب کیا جانیں

ہمارےخون کی رنگت بھی اس مین شامل ہے

یہ کیسے کہتے ہو فقط گلشن تمہارا ہے  انگریزوں کے خلاف اک لمبی لڑائی کےبعد ہمارا ملک، 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ آزادی  یوں ہی تھالی میں سجی سجا ئ نہیں  ملی۔ اس میں مسلمانوں کا بڑا کرداررہا۔ ہم نے ملک کے آزاد  ہونے پر خواب بنے۔ سبھی کے ساتھ عدل وانصاف ہوگا مساوات برابری ملے گی، شہری آزادی ہوگی، مذہبی و سماجی آزادی ہر اک کو ملےگی وغیرہ وغیرہ  افسوس کہ خواب تھا جو کچھ سنا اک افسانہ تھا، ہر چند کہ ہمارے ملک کو چلانے کے لئے دستورو آئین انسانی اقدار سے انتہائی اعلیٰ اورارفع بنایا گیا- سبھی کو عدل انصاف مساوات برابری سماجی مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئ 26 جنوری 1950سے ہمارا دستور نافذ ہوا۔ ملک کے حکمران، قانون ساز اداروں کے ممبران کو دستور پرایمانداری سے چلنے کی قسم لینا قانونا ضروری قرار دیا گیا۔ 26 جنوری 1950 سے سیاست دانوں نے دستور کے ساتھ حلف وفاداری لینے کے باوجود آج تک، کھلواڑ کرتے ہی آئے ہیں۔ ملک آزاد ہوا انگریز جلے گئے  گویا دوسرے حکمران آئے، جنہوں نے عوام کو غلام بنا دیا  جو آج تک دھڑلے سے جاری ہے

سب سے برا حال دلتوں مسلمانوں اقلیتوں کسانوں کمزوروں کا ہوا۔ قانوناً دلتوں کو سہولتیں راحتیں دی گئیں، مگر ان کے ساتھ  سماجی سطح پر، کھلواڑ ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک جاری ہے-  دلتوں کے ساتھ چھوا

چھوت جاری ہے۔ شہروں، گاوں گاوں  ان کی عزت نفس، خودداری کے ساتھ ناروا سلوک جاری ہے۔ ملک کے ہندو لیڈران نے، ہندو دلتوں پر ظلم و ستم پر اصلاحی تحریکیں بھی چلائیں سرکاری سطح پر دلتوں کو مراعات سہولتیں بھی دی گئیں۔ دلتوں پر ستم کم نہیں ہوتے

ملک میں مرکز میں ہندو وادی مودی کی سرکار آتے ہی ملک میں ہندوتوا وادی بڑھ چڑھ کر سر اٹھانے لگے- آتے ہی پہلے مسلمانوں کے ساتھ ظلم شروع ہو گیا۔ برس ہا برس ملک میں کانگریس کی حکومت رہی جو خود بھی جمہوریت سیکولرازم کے نام پردکھا وے کرتی رہی، مذہبی کارڈ بھی  کھیلتے  رہی-مسلمانوں کی تنزلی میں خود شامل رہی ورنہ ملک کی آزادی کے بعد سے اس قدر فرقہ وارانہ فسادات نہ ہوتے

ہندوتواوادیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع، کانگریس کے راج میں خوب ملا۔ اسی سبب آج کانگریس پورے ملک میں حآشیے پر چلی گئ، ورنہ آر ایس ایس اور مودی آج مرکز میں اقتدار میں نہ آتے کہ جن کی وجہ سے ظلم و ستم کی انتہا ہو گئ ہے- کانگریس آج بستر مرگ پر ہے- شخصیتوں سے اپنی بقا کے لئے، آکسیجن ڈھونڈ رہی ہے۔ راج  ببر، غلام نبی آزاد اور پرینکا گاندھی سے  آنے والے یو پی اسمبلی الیکشن میں ہونے والی ”مہا  بھارت ” کو  جیتنا چاہتی ہے- عوام ہوشیار ہیں۔ پرانے لوگوں کا  پرانا ری کارڈ دیکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کریں گے۔ ابھی تو کانگریس کو اپنے کئ سالہ نا کام حکمرانی کا مزہ چکھنا ہے۔ آج پورے ملک میں  اقلیتوں، دلتوں، مسلمانوں، کسانوں کا جینا حرام ہو چکا ہے۔ جس کی گونج پوری دنیا میں ہے۔ پورے ملک میں قانون عمل پر  بجا آواری کے لئے، دو پیمانے چل رہے ہیں۔ جس کے ٹھوس ثبوت بھی ہیں، اس کے ساتھ نرمی اور محض جھوٹے الزامات میں شک کی بنیادوں پر، وہی کام کرنے پر، دوسرے کا جینا حرام کر دیا گیا ہے- ریزرویشن کے نام پر جاٹوں نے ہریانہ، راجستھا ن میں ہفتوں احتجاج کیا۔ عوامی زندگی کو بے انتہا اتھل پتھل کر دیا۔ احتجاجی، مردوں کے ساتھ ہی  نہیں، خواتین کو بھی انتہائی ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑا

مرکزی بی جے پی  حکومت نے  جاٹ، احتجاجیوں  سے نپٹنے میں نرمی کا سلوک کیا۔ کشمیر میں بھی کئ ہفتوں سے عوامی احتجاج جاری ہے۔ احتجاجی جاٹوں سے بڑھ کر، پولیس اور فوج، کشمیری اجتجاجییوں کے ساتھ، سختی، درندگی اور سلوک کررہی ہے۔ ایسے اسلحہ اور گولیاں استعمال کی جا رہی ہیں .جن کو عام طور پر عوامی تحریک کو سرد کرنے میں دیکھنے کو نہیں ملتا کیا کشمیریوں کے ساتھ یہ ظلم اس لئے کیا جا رہے کہ وہ مسلمان ہیں ؟کشمیر ہمارا ہے کیا  کشمیری ہمارے نہیں ؟ مرکزی ہندوتوا وادی مودی سرکار کا

احتجاجی کشمیریوں کے ساتھ غیر معیاری سلوک اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے کشمیری ہمارے نہیں۔ پورے  ملک میں معصوم مسلمانوں کے ساتھ پولیس کی درندگی اور ہندوتوا وادی حکمرانوں سیاست دانوں کے ساتھ  جو مسلمانوں، دلتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ ملک کا محکمہ قانون وا نصاف چپ کیوں ہے؟ کیوں یہ لگام دیتا نہیں ؟ایسا لگتا ہے، اس ملک میں دو قانون ہیں، ہندو تووادیوں کے لئے الگ، اقلیتوں، دلتوں، مسلمانوں، کمزوریوں کے لئے الگ۔ ملک کی ترقی بقا اسی میں مضمر ہے کہ آئین ہند پر ایمانداری کے ساتھ  چلنے کی قسم کھانے والے سیاست دان  حکمران پہلے خود اپنا محاسبہ  کریں کہ  جس روش پر وہ چل رہے ہیں وہ دستوری ہے؟ اقتدار کے نشہ  نے ہندوتواوایوں کی عقلوں کو سلا  دیا ہے تو جو اللہ اس ساری دنیا کا حاکم ہے وہ ان کو سبق ضرور سکھلائے گا  جس کا کوئی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے۔ آج پورے ملک میں گائے بیل بیف کے نام پر مسلمانوں  دلتوں  معصوموں کی جو حالت زار ہے، وہ انتہائ ناقابل برداشت ہے-

آج پندرہ اگست کو لال قلعے پر ہمارا قومی ترنگا لہرا ئے گا اس پر ہمیں خوش ہونا لازمی ہے اک یوم آزادی کی بنا پر دوسرے یہ کہ لال قلعہ کا بنانے والا اک مسلمان بادشاہ تھا۔ ملک کے لئے ہماری خدمات کی اک لمبی داستان ہے جو ہمارے آبا و اجداد نے احسان سمجھ کر نہیں فرائض سمجھ کر کیں۔ یہ اک ہمارے زندہ قوم ہونے کی علامات ہیں۔ ہمارے زندہ قوم ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں

یہ وقت خاموشی کا نہیں ہے.  میدان عمل میں آنا ہو گا  دلت، مسلمان، عیسائی، کسان، آدی واسیوں کی زندگی اجیرن ہے۔ یہ آزاد ملک میں ہو رہا ہے- جس کی آزادی کے لئے خاطر خواہ پیمانے پر مسلمانوں نے لڑائی لڑی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، سبھی لوگ ملک کی آزادی کی لڑائی میں شامل تھے-آج پھر ہمیں مادر وطن کے لئے، دستوری آزادی کی خاطر  میدان عمل میں آنا ہو گا۔ مسلمان  اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اقلیتوں کا جینا دوبھر ہے۔ مظلوم  اپنے پر ہونے والے ستم  کی روک تھام کے لئے .مسلمانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مسلم قیادت  اس وقت انتہائی نا کارہ ثابت ہو رہی ہے. ہر چند کہ پورے ملک میں کہیں کہیں مسمان اور انگلیوں پر گنے جانے والے لیڈران دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ  ظلم وستم کے خلاف لڑتے نظر آرہے، جو خوش آئند بات ہے۔ مگر پورے ملک میں اجتماعی حیثیت سے یہ بات نہیں ہے

مولانا سجاد  نعمانی، مولانا ولی رحمانی ، مولانا سلمان ندوی وغیرہ انتہائی عمدہ اور معیاری طریقہ سے دلتوں، مظلوموں، کمزوروں کے ہمراہ. انسانیت پسندوں کے ساتھ، ملک میں بڑھتی عدم رواداری کے خلاف، عوامی تحریک جاری رکھے ہیں  یہ مادر وطن کے لئے خوش آئند بات ہے

روہیت ویمولہ اک دلت ذہین طالب علم تھا۔ اس کا قصور کیا تھا ؟ وہ منو واد-برہمن واد کے خلاف تھا انسانی اقدار  کی بات کرتا تھا-  مظفر نگر فسادات کی مذمت کرتا تھا، انسانیت کے نام پر  یعقوب میمن کی پھانسی پر، متعدد دانشوران  قوم کی طرح مذمت کر رہا تھا۔ اسے خود کشی کے لئے مجبور کردیا جاتا ہے- پم  مسلمان روہیت ویمولہ کی موت پراجتجاج کرنے کس قدر نکلے ؟ ابھی تازہ تازہ دلتوں پر ہونے والے مظالم پر ممبئ کے آزاد میدان کے احتجاجی جلسے میں کس قدر تھے، جبکہ آزاد میدان سے لگ کر قریب میں . مسلمانوں کی بڑی آبادی رہائش پذیر ہے

وقت ہے کہ نکلتا جا رہا ہے-  تاریخ میں ہمیں اپنا مقام بنانا ہے. جیسے ہمارے آبا و اجداد نے بنایا ہماری مسلم قیادت چاہے وہ سیاسی ہو کہ سماجی یا مذہبی پورے ملک میں ہندوتوا کی گرم لہر چلی ہے۔ ظلم و ستم کا بازا ر ہے کہ  گرم ہے۔ ہم دوسروں پر ستم پر مذمت کرنا تو کجا ہم  اپنے اوپر ظلم و ستم کی روک تھام کے لئے میدان عمل میں نہیں آرہے۔ آخر خواب غفلت سے کب جا گیں گے

ہمیں اک واضح حکمت عملی، صبر استقامت کی ضرورت ہے- ملک کی انسانیت سے خالی ہوتی زمین ہمیں پکار رہی ہے مظلوموں کی آہ وبکا  بیواوں کی چیخ  معصوموں کی  یادیں کیا ہمیں سنائی نہیں دیتیں اٹھیے، سارے مظلوموں کی قیادت، ظالموں کے خلاف  عدل وانصاف قائم کرنے کے لئے۔ ورنہ روز حشر میں خدا کو کیا جواب دیں  گے۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمین پر

خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر

ہم اس وقت چوک گئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔