اگر بات وعدہ پر آئے تو ہم تیار نہیں ہیں

حفیظ نعمانی

بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کو حل کرنے والی وہ کمیٹی جو سپریم کورٹ کی ہدایت پر تصفیہ کی جستجو کررہی ہے اس کے کسی رُکن نے سنی وقف بورڈ کے چیئرمین اور بعض ذمہ دار مسلمانوں سے ان کی رائے معلوم کرنا چاہی ہے۔ ہم نے گذشتہ سال اس مسئلہ پر ایک مضمون لکھا تھا اسے اودھ نامہ میں چند روز پہلے پھر شائع کرایا گیا ہے تاکہ اس سے بھی کوئی روشنی لی جائے۔ ہمارے علم میں بعض ذمہ دار مسلمانوں کا یہ فیصلہ آیا ہے کہ اگر بابری مسجد سے مسلمان دستبردار ہوجائیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس کے بعد ان مسجدوں سے دستبرداری کا مطالبہ شروع نہیں ہوگا جن پر انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں ہی مقدمے چلے ہیں اور ان کے فیصلے مسجدوں کے دروازوں پر چسپاں ہیں؟

بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ وشوہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس نیز شیوسینا اگر لکھ کر دے دیں تو ان پر بھروسہ کرلینا چاہئے۔ بیشک یہ ان تنظیموں کے نام ہیں جو اس معاملہ میں پیش پیش ہیں لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ جو صدر یا جنرل سکریٹری اس کی ضمانت دیں ان کے انتقال یا ان کے الگ ہونے کے بعد جو دوسرے صدر ہوں گے وہ بھی اس کے پابند ہوں گے؟

ہمارے سامنے 1942 ء سے 1947 ء تک کانگریس کے ہندو لیڈروں کا کردار ہے وہ جمعیۃ علماء ہند اور نیشنلسٹ مسلمانوں کے سگے بھائی بنے ہوئے تھے اور مسلم لیگ کی مخالفت میں جتنے مسلمان پیش پیش تھے ان کے آگے پیچھے چھوٹے بھائیوں کی طرح لگے رہتے تھے لیکن جب الیکشن ہوا اور نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ صرف دس فیصدی ان کے ساتھ ہیں باقی 90فیصدی پاکستان بنانے کے حق میں ہیں تو اس فیصلہ کے بعد ہر ہندو لیڈر کی آنکھ میں نفرت کا بال آگیا تھا اور سب سے پہلے یوپی میں کانگریسی حکومت نے اردو کا سرقلم کردیا وہ اردو جو پوری جنگ آزادی میں ترجمان کا فرض ادا کررہی تھی۔ ملک کی تقسیم کے بعد جو جنگ آزادی پر فلمیں بنیں ان میں ہر کسی نے دیکھا ہوگا کہ مجاہدین آزادی جو روپوش تھے ان کو جو بھی کھانا اور اخبار پہنچاتا تھا وہ ہر اخبار اردو کا ہوتا تھا جبکہ فلم کا ٹائٹل ہندی ہوتا تھا۔ اور مسلم لیگ کی مخالفت میں جتنی تقریریں کی جاتی تھیں یا مضامین لکھے جاتے تھے وہ سب اردو میں ہوتے تھے۔ اور جنہوں نے حکومت سے اردو کی لڑائی لڑی ان میں سب سے جو نام اوپر تھے وہ پنڈت سندر لال، پنڈت برج موہن دتریہ کیفیؔ، پنڈت کشن پرشاد کول، ڈاکٹر ذاکر حسین خاں اور حیات اللہ انصاری کے تھے جو کانگریس کے اخبار کے ایڈیٹر تھے۔

آزادی کے فوراً بعد جو سب سے پہلے اعلان ہوا وہ یہ تھا کہ سہ لسانی فارمولہ سے اردو ہٹادی گئی ہے اور سنسکرت اس کی جگہ پڑھائی جائے گی اُترپردیش کے وزیراعلیٰ پنڈت گوبند بلبھ پنت اس کے خلاف کوئی بات سننے پر تیار نہیں تھے وزیرتعلیم ڈاکٹر سمپورنانند نے کہہ دیا کہ اردو کوئی زبان نہیں بولی ہے اور ہندی کی شیلی ہے۔ اردو والوں کو بتایا گیا کہ اگر 20  لاکھ دستخط سے صدر جمہوریہ کو میمورنڈم دیا جائے تو وہ اردو کو اس کا مقام واپس دلا سکتے ہیں۔ اردو کے متوالوں نے 22  لاکھ دستخط جمع کئے اور وہ لے کر صدر جمہوریہ کے پاس گئے انہوں نے روکھا جواب دیا کہ میں تو ایک دستوری صدر ہوں جو وزیر کہیں گے وہ کروں گا۔ اور اسے جواہر لعل نہرو کے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ جواہر لعل جو سب کے محبوب تھے ان سے وفد کے سربراہ ڈاکٹر ذاکر حسین خاں خود ملنے گئے اور اردو کا پورا مقدمہ ان کے سامنے رکھا اور یہ اُمید ہوگئی کہ کچھ نہ کچھ اردو کو ضرور مل جائے گا لیکن اُترپردیش کی حکومت نے وزیراعظم کو اشارہ دے دیا کہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ ہوا تو یوپی میں بغاوت ہوجائے گی۔ اس زمانہ میں وزیراعظم ایسے نہیں تھے جیسے بعد میں اندرا گاندھی ہوئیں یا اب نریندر مودی ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ جواہر لعل کے چاہنے کے باوجود اردو کو کچھ نہیں ملا۔

دنیا بہت بدل گئی ہے اور اب نام جمہوری حکومت کا ضرور ہے لیکن حکومت پوری طرح صرف ایک مٹھی میں ہے اور وہی انداز ہے جو آزادی کے ملتے ہی کانگریس کے ہندو لیڈروں کا ہوگیا تھا۔ آج ملک میں 2014 ء کے بعد ہر بات بدلی ہوئی ہے۔ گذشتہ برسوں میں جسے دیکھو وہ گائے کی پوجا میں لگا ہوا تھا ہر لوفر گئورکشک بنا ہوا تھا اس کے دیوانوں پر نام کی سختی ہوئی تو اب صرف بولو جے شری رام کسی کو ٹرین میں اکیلا پایا تو اس سے بلوایا جے شری رام اور بنگال میں جسے ممتا بنرجی کا جھنڈا لئے دیکھا اس سے کہا جے شری رام اور زیادہ جوش سوار ہوا تو جے ہنومان اور جو نہ بولے اس کے ساتھ بدتمیزی۔

اور یہ ہے جمہوری حکومت کہ جو جھارکھنڈ یا راجستھان کے بارے میں کچھ کہے تو وزیراعظم بھی بول پڑیں کہ بھئی صوبہ کے وزیراعلیٰ کو یا حکومت کو نہ کہو بس برے کو برا کہہ دو۔ وزیراعظم کو یہ کہتے ہوئے یاد نہیں آتا کہ 2014 ء کے الیکشن میں جب کانگریس کے ہاتھ سے حکومت چھین کر ان کو دینے کا ولولہ اٹھا تھا تو مسلمان ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ یہ وہی انداز ہے جو آزادی کے بعد کانگریس کے ہندو لیڈروں نے اپنایا کہ

؎   کیسی آنکھیں پھیرلیں مطلب نکل جانے کے بعد

اور ہم اسی تلخ تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کوئی گرم توے پر بیٹھ کر سمجھے یا اپنے خون میں قلم ڈبوکر لکھے کہ ہم بابری مسجد کے بعد کسی اور مسجد کا مطالبہ نہیں کریں گے اس کا کم از کم ہم تو یقین نہ کریں گے اور نہ یقین کرنے کا مشورہ دیں گے رہے دوسرے تو ہم کسی کو پابند نہیں کرسکتے۔

ہندو بھائیوں کو یہ نہ بھولنا چاہئے کہ رویندر ناتھ ٹیگور ہی نہیں اور بھی ایسے بہت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ رام چندر جی کا کوئی وجود نہیں تھا وہ برائی پر اچھائی کی ایک کہانی ہے۔ اور ہم نے ایک بہت بڑے وکیل کو ایک بہت بڑے عالم سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فلاں انگریز نے لکھا ہے کہ رام چندر جی پیغمبر تھے مولانا نے فرمایا ہم کیا کہہ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے ’ولکل قومٍ ہاد‘ ’ہم نے ہر قوم میں ہادی بھیجے‘ اس سے زیادہ نہیں معلوم یہ ہے مسلمان عالم کا جواب۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔