ایمونائزیشن کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی

ملک کا مستقبل اس کے نونہالوں پر ٹکا ہوتا ہے۔ نئی نسل جتنی تندرست اور مضبوط ہوگی، ملک بھی اتنا ہی ترقی کرے گا۔ ترقی یافتہ ممالک اس کی مثال ہیں ۔ انہوں نے بچپن میں ہونے والی بیماریوں سے اپنے شیرخواربچوں کی حفاظت کی، اس لئے وہ دوسرے ممالک سے آگے نکل گئے۔ پیدائش اور اس کے بعد ہونے والے امراض سے بچوں کی حفاظت ٹیکہ کاری کے ذریعہ ممکن ہے۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ایمونائزیشن دنیا بھر کا آزمایا ہوا کفایتی اور انتہائی مؤثر طریقہ ہے۔

بچے کلیوں کی طرح کومل اور کمزور ہوتے ہیں ۔ وہ ہوا میں تیرتے وائرس اور بیکٹیریا کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ بھارت میں بچوں کی موت ڈائریا، نمونیا، چیچک، خسرہ روبیلا، ملیریا، ہپٹیائٹس بی، ڈپ تھیریا(گل گھوٹو، کالی کھانسی) جیسی بیماریوں سے ہوتی ہے۔ ٹیٹنس اور پولیو بھی بچوں کے اپاہج ہونے یا مرنے کی وجہ بنتے ہیں ۔ یہ ایسی بیماریاں ہیں جن سے بچوں کو ٹیکہ کاری کے ذریعہ بچایا جاسکتا ہے۔ تمام ٹیکے سرکاری اسپتالوں ، ہیلتھ سینٹرس اور آنگن واڑی مراکز میں بچوں کو مفت فراہم کئے جاتے ہیں ۔ یہ مراکز زچہ بچہ کی دیکھ بھال ، ان کی ضروری جانچ اور ویکسی نیشن کا کام کرتے ہیں ۔ بچے کو پہلی مرتبہ ٹیکہ دینے کے ساتھ ہی ٹیکوں کا کارڈ دیا جاتا ہے۔ اس میں یہ تفصیل درج ہوتی ہے کہ بچے کو کب کونسا ٹیکہ دیا جانا ہے، تاکہ والدین وقت پر اپنے بچوں کو ٹیکے دلواسکیں ۔

ایمونائزیشن جدید طب کی کامیاب کہانی ہے۔ اس کی وجہ سے چیچک جیسی بیماری کا دنیا سے خاتمہ ہوا، جبکہ اس بیماری نے دنیا کے کئی حصوں میں مہا ماری کی شکل اختیار کی تھی۔ اس کی روک تھام کیلئے دنیا نے آگے بڑھ کر ایمونائزیشن کا ساتھ دیا لیکن ٹیکہ کاری میں انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب 1974 میں عالمی ادارہ صحت WHOاور یونیسیف کا قیام عمل میں آیا۔ چیچک سے بچائو کیلئے بڑے پیمانے پر بیداری اور ٹیکہ کاری کی مہم چلائی گئی۔ اسی کے نتیجہ میں دنیا کو اس مہلک بیماری سے نجات ملی۔ عالمی ادارہ صحت نے یونیسیف کے تکنیکی سپورٹ اور سرکار کے ساتھ مل کر ایکسپنڈڈ پروگرام آن ایمونائزیشن (ای پی آئی) بنایا۔ اس کے تحت بچپن میں ہونے والی چھ بیماریوں ڈپ تھیریا، کالی کھانسی، گل گھوٹو، پولیو، ڈائریا، خسرہ اور ٹٹنس کے ٹیکے مفت فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔

ای پی آئی کے تحت دیئے جانے والے ٹیکے اسکول جانے والے بچوں کو تو آسانی سے مل جاتے تھے لیکن باقی بچوں تک ان کی پہنچ دشوار تھی۔ بہت سے بچے ٹیکوں سے محروم رہ جاتے تھے۔ اس لئے بھارت میں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ لاکھوں بچے اپنی پہلی اور کتنے ہی بچے پانچویں سالگرہ نہیں دیکھ پاتے تھے۔ اس صورت حال کے پیش نظر 1983میں پہلی قومی صحت پالیسی وجود میں آئی۔ اسی کے بعد بھارت سرکار کی وزارت صحت نے 1985 میں یونیورسل ایمونائزیشن پروگرام (یوآئی پی) شروع کیا۔ سرکار نے پرائمری ہیلتھ سینٹر، سب سینٹر، ضلع اسپتال، آنگن واڑی مراکز کو اس پروگرام کے ساتھ جوڑا۔ قومی صحت پالیسی کی وجہ سے شعبہ صحت کے عملہ کے ساتھ کنٹریکٹ پر صحت کارکنوں کی مدد لینا آسان ہوگیا۔ جس کے بعد آشا ورکر، متانین، آنگن واڑی کارکنوں اور صحت سے جڑے رضاکاروں کی مددسے ملک میں ایمونائزیشن پروگرام کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانا ممکن ہوگیا۔ انہیں سب کی محنت کے نتیجہ میں عالمی ادارہ صحت نے فروری2014 میں بھارت کو پولیو فری ملک ہونے کے خطاب سے نوازا۔

مرکزی وزارت صحت میں یوآئی پی کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر ایم کے اگروال کے مطابق اس وقت ملک میں گیارہ بیماریوں سے لڑنے کے ٹیکے موجود ہیں ۔ ان میں ڈی پی ٹی، بی سی جی، پولیو،ٹیٹنس، ہپٹائٹس بی، پنیٹا ویکسین اور خسرہ روبیلا (ایم آر) خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ حمل کے دوران ٹی ڈی اے پی، ہپٹائٹس بی اور ایم ایم آر کے ٹیکے دیئے جاتے ہیں ۔ بچہ کی پیدائش کے وقت بی سی جی، اوپی وی کی خوراک دی جاتی ہے تاکہ بچہ ٹی بی، پولیو، پیلیا اور ماں رحم کے کینسر سے محفوظ رہ سکے۔ بچہ جب 6ہفتہ کا ہوجاتا ہے، تب ڈی پی ٹی۔1، اوپی وی۔1، ہپٹائٹس بی تین ٹیکے دیئے جاتے ہیں ۔ ڈی پی ٹی بچے کے بائیں کولہے پر لگایا جاتا ہے۔ اس میں کالی کھانسی، نموٹیا اور ٹٹنس سے محفوظ رکھنے کی دوا ہوتی ہے۔ اوپی وی پولیو سے بچے کی حفاظت کرتی ہے جو بچے کو پلائی جاتی ہے۔ ہپٹائٹس بی کا ٹیکہ دائیں کولہے پر لگایا جاتا ہے۔ عام طورپر اس سے بچے کو بخار آجاتا ہے۔ بخار آنے کی صورت میں گھبرانا نہیں چاہئے۔ یہ دو تین دن میں خود ٹھیک ہوجاتا ہے۔15 ہفتہ میں ڈی پی ٹی، او پی وی اور ہپٹائٹس بی کی دوسری پھر14 ہفتہ میں تیسری خوراک دی جاتی ہے۔

خسرہ کا ٹیکہ9 ماہ پر دیا جاتا ہے اور وٹامن اے کی خوراک پلائی جاتی ہے۔ دوسری خوارک24-16 ماہ پر۔ اسی وقت ڈی پی ٹی، او پی وی کی بوسٹر خوراک دی جاتی ہے۔ اسی دوران متاثرہ اضلاع یا صوبوں میں جے ای کا ٹیکہ فراہم کیا جاتا ہے۔ پانچ سال پر ڈی پی ٹی کی بوسٹر خوراک دی جاتی ہے۔دس سال اور 16 سال پر بچوں کو ٹی ٹی کے ٹیکے دیئے جاتے ہیں تاکہ کھیل کود میں لگنے والی تھوڑی بہت چوٹ کا ان پر کوئی اثر نہ ہو۔ ملک نے ایمونائزیشن میں اتنی ترقی کی ہے کہ وائرس اور بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہم اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔

بھارت میں ہر سال 2.6 کروڑ بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان میں سے 13 فیصد نمونیا اور 10 فیصد ڈائریا سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دنیا بھر میں خسرہ روبیلا سے ہونے والی اموات میں 39 فیصدا موات صرف بھارت میں ہوتی ہیں ، جو تقریباً30 سے 35 ہزار ہیں ۔ سرکار نے خسرہ روبیلا سے بچائو کے لئے ایم آر ٹیکہ لانچ کیا ہے۔ جو 9 ماہ سے 15سال تک کے سبھی بچوں کو دیا جائے گا۔ خسرہ روبیلا کا وائرس 15 سال تک کے بچوں پر اثر انداز ہوتاہے۔ اس لئے جو بچے خسرہ کا ٹیکہ لے چکے ہیں ، ان کیلئے بھی اسے لینا ضروری ہے۔ کیوں کہ سرکار نے پولیو کی طرح خسرہ روبیلا کو بھی 2020 تک ملک سے باہر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایک بار سبھی بچوں کو یہ ٹیکہ دیئے جانے کے بعد اسے معمول کی ٹیکہ کاری کا حصہ بنا دیا جائے گا۔

تمام کوششوں کے باوجود اب بھی لاکھوں بچے ٹیکوں سے دور ہیں ۔ ایسے بچے جو ٹیکہ کاری کیمپوں تک نہیں پہنچ پاتے ان تک ٹیکے پہنچانے کیلئے مشن اندر دھنش کی مدد لی جارہی ہے۔ مشن اندر دھنش کے تحت اینٹ کے بھٹوں ، تعمیراتی سائٹوں ، کارخانوں ، فیکٹریوں ، کھیت کھلیانوں اور دہاڑی پر کام کرنے والی خواتین کے بچوں کو ٹیکے دینے کا منصوبہ ہے۔ ہر ماہ کی سات تاریخ کو سات بیماریوں سے حفاظت کیلئے ٹیکے دیئے جاتے ہیں ۔ وائرس اور بیکٹیریا سے ہونے والی بیماریوں کے ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس لئے صحت سے جڑے سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ان بیماریوں سے حفاظت کیلئے سو فیصد ٹیکہ ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک بھی بچہ چھوٹ جاتا ہے تو بیماری کے واپس آنے کا خطرہ بنارہتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔