ایم جے اکبر کے نام رویش کمار کا خط

قابل احترام اکبر صاحب، آداب۔

عید مبارک۔ آپ ملک کے وزیر خارجہ بنے ہیں، یہ بات بھی کسی عید سے کم نہیں ہے۔ ہم سب صحافیوں کو بہت خوش ہونا چاہئے کہ آپ بھارتی جنتا پارٹی کے ترجمان بننے کے بعد رکن پارلیمان بنے اور پھر وزیر بنے ہیں۔ آپ کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے۔ اس کے بعد سیاست سے لوٹ کر پھر ایڈیٹر بھی ہوئے۔ بعد ازاں ایڈیٹر سے ترجمان بنے اور وزیر بھی۔ شاید میں یہ کبھی نہیں جان پاؤں گا کہ آپ لیڈر بن کر صحافت کے بارے میں کیا سوچتے تھے اور صحافی بن کر پیشہ ورانہ اخلاقیات کے تعلق سے آپ کا کیا خیال تھا؟ کیا آپ کبھی اس طرح کے اخلاقی بحران سے گزرے ہیں؟ ہر چند کہ صحافت میں کوئی خدا نہیں ہوتا، تاہم کیا آپ کو کبھی ایسے بحران میں خدا کا خوف آتا تھا؟

اکبر صاحب، میں یہ خط قدرے تلخی سے بھی لکھ رہا ہوں۔ مگر اس کا سبب آپ نہیں ہیں۔آپ تو میرا سہارا بن سکتے ہیں۔ گزشتہ تین سال سے مجھے سوشل میڈیا پر دلال کہا جاتا رہا ہے۔ جس سیاسی تبدیلی کو آپ جیسے بڑے صحافی ہندوستان کے حق میں عظیم گردانتے رہے ہیں، اسی تبدیلی کا شاخسانہ ہے کہ ہر خبر کے ساتھ دلال اور بھڑوا کہنے کا کلچر بھی ساتھ آیا ہے۔ یہاں تک کہ میری ماں کو طوائف تک لکھا گیا اور حالیہ دنوں بھی اسی طرح میری والدہ کے بارے ناشائسہ کلمات استعمال کیے گئے، جو کبھی اسکول نہیں جا سکیں اور جنہیں پتہ بھی نہیں ہے کہ اینکر ہونا کیا ہوتا ہے؟ پرائم ٹائم کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کبھی این ڈی ٹی وی کا سٹوڈيو تک نہیں دیکھا ہے۔ وہ بس اتنا ہی پوچھتی ہیں کہ بیٹا، ٹھیک ہو نا۔اخبار بہت غور سے پڑھتی ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ مجھے اس طرح سے گالیاں دی جاتی ہیں تو گھبراہٹ میں کئی راتیں سو نہیں پائیں۔

اکبر صاحب، آپ جب صحافت سے سیاست میں آئے تھے تو کیا آپ کو بھی لوگ دلال کہتےتھے؟ گالی دیتے تھے؟ سوشل میڈیا پر منہ کالا کرتے تھے، جیسا میرا کرتے ہیں؟ خاص کر سیاہ اسکرین والے واقعے کے بعد سے۔ پھر جب کانگریس سے صحافت میں آئے تو کیا لوگ یا خاص کر مخالف ٹیم، جس میں ان دنوں آپ ہیں، آپ کی ہر تحریر کو دس جن پتھ یا کسی پارٹی کی دلالی سے جوڑ کر دیکھا کرتی تھی ؟ ان حالات میں خود آپ کو کن دلائل سے تقویت اور تشفی ملتی تھی؟ کیا آپ مجھے وہ سارے دلائل دے سکتے ہیں؟ مجھے آپ کا سہارا چاہئے۔

میں نے صحافت میں بہت سی رپورٹیں خراب بھی کی ہیں۔ کچھ تو انتہائی شرمناک تھیں۔ البتہ تین سال پہلے تک کوئی نہیں بولتا تھا کہ میں دلال ہوں۔ ماں بہن کی گالی نہیں دیتا تھا۔ اکبر سر، میں دلال نہیں ہوں۔ بٹ ڈو ٹیل می وہاٹ شڈ آئی ڈو ٹو بكم اکبر؟ باجپئی حکومت میں مرلی منوہر جوشی جی جب وزیر تھے تب تعلیم کے بھگوا کرن پر خوب تقریریں کرتا تھا۔ تب آپ کی پارٹی کے دفتر میں مجھ سے کوئی نفرت سے بات نہیں کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب تو انٹرویو کے بعد چائے بھی پلاتے تھے اور مٹھائی بھی پوچھتے تھے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ تم کانگریس کے دلال ہو اس لئے یہ تمام سوالات پوچھ رہے ہو۔ بہ سببِ درازیٔ عمر ، جوشی جی غصہ بھی کرتے تھے لیکن کبھی انکار نہیں کیا کہ انٹرویو نہیں دوں گا اور نہ ایسا اشارہ دیا کہ حکومت تم سے چڑھتی ہے۔ بلکہ میں اگلے دن ان کے دفتر سے خبریں اڑا کر انہیں دوبارہ کرید دیتا تھا۔

اب سب بدل گیا ہے۔ سیاسی کنٹرول کا نیا کلچر آگیا ہے۔ ہر رپورٹ کو سیاسی جانب داری کے پیمانے پر پرکھنے والوں کی جماعت آگئی ہے۔ یہ جماعت دھواں دھار گالی بکنے لگی ہے۔ گالی بکنے والے آپ کے اور ہمارے وزیر اعظم کی تصویر لگائے ہوئے رہتے ہیں اور کئی بار آر ایس ایس سے وابستہ علائم  کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی وزراء کی پیروی کرتے ہیں اور کئی کی پیروی وزراء۔ یہ بعض صحافیوں کو بی جے پی مخالف کہتے ہیں اور باقی کی تعریف کرتے ہیں۔

یقینی طور پر صحافت میں گراوٹ آئی ہے۔ اس دور میں بالکل نہیں آئی تھی جب آپ انتخابات لڑے ،جیتے، پھر ہارے اور پھر سے ایڈیٹر بنے۔ وہ صحافت کا دورِ زریں رہا ہوگا، جسے بجا طور پر دورِاکبری کہا جا سکتا ہے، اگر ان گالی دینے والوں کو برا نہ لگے تو۔ آج کل بھی صحافی ترجمان کی ایک غیر اعلانیہ توسیع بن گئے ہیں۔ کچھ اعلانیہ توسیع بن کر بھی لائق پرستش ہیں۔ مجھ سےغیر جانبداری کی توقع رکھنے والی گالی دینے والوں کی جماعت ان اعلانیہ مخالفین کو کبھی دلال نہیں کہتی۔ حالانکہ اب رد عمل میں انہیں بھی دلال اور نہ جانے کیا کیا گالی دینے والی جماعت آ گئی ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو سمرتی ایرانی کو troll کرتی ہے۔

آپ وزارت خارجہ میں معاون کے طور پر جنرل وی کے سنگھ سے ملیں گے جنہوں نے صحافیوں کو ‘پروسٹی ٹیوٹ’ کہا تھا۔ ان ہی کی حامی و متفق جماعت ہندی میں ہمیں ‘پریشيا’ کے لقب سے نوازتے ہیں۔ چونکہ میں این ڈی ٹی وی سے وابستہ ہوں تو ‘این ‘ کی جگہ ‘آر’ لگا کر ‘رنڈی ٹی وی’  بولتے ہیں، جس کے کیمروں نے آپ باتوں کو بھی دنیا تک پہنچایا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ جب صحافی سخت سوال کرتے ہیں تو وہ کسی پارٹی کی دلالی کرتے ہیں؟ کون سا سوال کب دلالی ہو جاتا ہے اور کب صحافت، اس پر بھی کچھ روشنی ڈال سکیں تو آپ جیسے ایڈیٹر سے میں کچھ سیکھ سکوں گا۔ نوجوان صحافیوں کو کہہ سکوں گا کہ رويش کمار مت بننا، بننا تو اکبر بننا کیونکہ ہو سکتا ہے اب رويش کمار بھی اکبر بن جائے۔

میں تھوڑا جذباتی آدمی ہوں۔ ان حملوں سے ضرور مضطرب ہوا ہوں۔ تبھی تو آپ کو دیکھ کرلگا کہ یہی وہ شخص ہے جو مجھے سہارا دے سکتا ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران ہر رپورٹ سے پہلے یہ خیال بھی آیا کہ وہی حامی جو ہندوستان کے تہذیبی احیا کی برتری کا نقارہ بجا رہے ہیں، مجھے دلال نہ کہہ دیں اور میری ماں کو رنڈی نہ کہہ دیں۔ جبکہ میری ماں تو اصل اور بے مثل مادر وطن ہے۔ ماں کا ذکر اس لیے بار بار کہہ رہا ہوں کیونکہ آپ کی پارٹی کے لوگ ‘ایک ماں کی بھاونا’ کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ماں کا نام لیتے ہی بحث آخری دیوار تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے۔

اکبر صاحب، میں یہ خط بڑی امید سے لکھ رہا ہوں۔ آپ کا جواب مستقبل کے صحافیوں کے لئے نظیر بنے گا۔ جو ان دنوں دس سے پندرہ لاکھ کی فیس ادا کر کےصحافت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ میری نزدیک اتنا پیسہ دے کر صحافت پڑھنے والی نسل کسی کباڑسے کم نہیں لیکن آپ کا جواب ان کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے۔

جب آپ سیاست سے لوٹ کر صحافت میں آتے تھے تو لکھتے وقت کیا دل ودماغ پر اس سیاسی پارٹی یا نظریے کی خیریت کی فکر ہوتی تھی؟ کیا آپ غیر جانبدار رہ پاتے تھے؟ غیر جانبدار نہیں ہوتے تھے تو اس کی جگہ کیا ہوتے تھے؟ جب آپ صحافت سے سیاست میں چلے جاتے تھے تو اپنے لکھے پر شک ہوتا تھا؟ کبھی لگتا تھا کہ کسی انعام یا صلے کی امید میں یہ سب لکھا ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم صحافی اپنے وقت کے سیاق کے دباؤ میں لکھ رہے ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ چند سال بعد اپنا لکھا خود ہمیں بیکار لگنے لگے۔ لیکن کیا آپ کی نگارش میں کبھی سیاسی وفاداری حاوی ہوئی ہے؟ کیا وفاداری کا تبادلہ کرتے ہوئے اخلاقی بحران سے آزاد رہا جا سکتا ہے؟ آپ رہ سکے ہیں؟

میں ٹوئٹر کے troll کی طرح گجرات سمیت ہندوستان کے تمام فسادات پر لکھے گئے آپ کے مضمون کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف ذاتی حیثیت میں یہ سوال پوچھ رہا ہوں۔ آپ سے پہلے بھی متعدد اداروں کے ذمہ داران راجیہ سبھا گئے ہیں۔ آپ تو کانگریس سے لوک سبھا کا انتخاب لڑے اور بی جے پی سے راجیہ سبھاکا۔ بہت سے لوگ دوسرے طریقوں سے سیاسی جماعتوں سے رشتہ نبھاتے رہے۔ صحافیوں نے بھی یہی کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے کانگریسی حکومتوں کی اس دین کو برقرار رکھا ہے۔ ‘بھارتی سنسکرتی’  کی عظمت کا بگل بجانے والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ہر دلعزیز اٹل جی خود صحافی تھے اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اپنے اخبار ‘ويرارجن’  پڑھنے کا شوق ترک نہ سکے۔ کئی دیگر نظیریں آج بھی مل جائیں گی۔

مجھے لگا کہ اب اگر مجھے کوئی دلال کہے گا یا ماں کی گالی دے گا تو میں کہہ سکوں گا کہ اگر اکبر عظیم ہے تو رويش کمار بھی عظیم ہے۔ ویسے میں نے ابھی سیاست میں قدم نہیں رکھے ہیں۔ آ گیا تو آپ میرے بہت کام آئیں گے۔ اس لیے آپ یہ بھی بتاتے جائیے کہ صحافیوں کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا انہیں انتخابات لڑ کر، وزیر بن کر دوبارہ صحافی بننا چاہئے؟ تو کیا اس صورت میں وہ صحافت کر پائیں گے؟ کیا صحافی رہتے ہوئے ملک کی خدمت کے نام پر سیاسی امکانات تلاش کرتے رہنا چاہئے؟  ‘یو کین سے سو مینی تھنگس آن جرنلزم، ناْٹ وَن سر!’

میں امید کرتا ہوں کہ غیر جانبداری کی توقع میں گالی دینے والے آپ کا خیر مقدم کر رہے ہوں گے۔ انہیں پھول برسانے بھی چاہئیں۔ آپ کی قابلیت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ آپ ہم سب کے ہیرو رہے ہیں۔ جو صحافت کو مذہب سمجھ کر نبھاتے رہے مگر یہ نہ دیکھ سکے کہ آپ جیسے لوگ مذہب کو فریضہ سمجھ کر نبھانے میں لگے ہیں۔ چونکہ آج کل اینکر ٹی آر پی بتا کر اپنی اہمیت جتاتے ہیں تو میں صفر ٹی آر پی والا اینکر ہوں۔ ٹی آر پی میٹر بتاتا ہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھتا۔ اس لحاظ سے چاہیں تو آپ اس خط کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مگر وزیر ہونے کی حیثِیت میں آپ ہندوستان کے ہر شہری کے تئیں اصولی طور پر جواب دہ ہو جاتے ہیں۔اسی کی فلاح و بہبود کی خاطراتنی قربانیاں دیتے ہیں۔ اس تعلق سے آپ جواب دے سکتے ہیں۔ نمبر وَن ٹی آر پی والا آپ سے نہیں پوچھے گا کہ زیرو ٹی آر پی والے صحافی کا جواب ایک وزیر کیسے دے سکتا ہے وہ بھی وزیرریاست برائے وزارت خارجہ۔ وَنس اگین عید مبارک سر۔ دل سے۔

آپ کا،  احقر

رويش کمار

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔