ایڈز: قدرتی آفت یا حیاتیاتی ہتھیار؟

تحریر: ڈیوڈ گائی آ ٹ، ترجمانی: احید حسن

ایڈز ایک مہلک بیماری ہے۔ یہ انسان کے مدافعاتی نظام کو تباہ وبرباد کر ڈالتی ہے جس سے انسان دوسری جراثیمی بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کا شکار ہو جاتا ہے۔بعض ماہرین کے مطابق ایڈز پہلی بار 1970 ء کے عشرے کے وسط یا اواخر میں افریقہ میں ظاہر ہوا جب ایڈز سے متاثرہ ایک سبز بندر نے ایک مقامی فرد کو کاٹا۔ اس کے بعد یہ آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔
اس وقت ایڈز سے متاثرہ افراد کی دنیا میں تعداد تیس ملین ہے۔ روزانہ ایڈز سے ایک ہزار افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایڈز سے متاثر افراد کی نوے فیصد تعداد سیاہ فام افریقیوں اور جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ درحقیقت ایڈز، غریب ترین تیسری دنیا پر حملہ آورہے۔

ایڈز کے وسیع پھیلاؤ سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ امیر صنعتی ممالک نے تیسری دنیا کے ممالک کی آبادی کو کم کرنے کے لیے ایڈز وائرس کو جینیاتی طریقوں سے خفیہ طور پر اپنی تجربہ گاہوں میں تیار کیا۔ اس پر تحقیق کرنے والوں کے مطابق کئی حکومتی دستاویز اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک امریکہ کا نیشنل سکیورٹی میمورنڈم (این ایس ایس ایم۔ 2000 ) ہے جسے 1970 ء کے عشرے کے اوائل میں امریکی سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لکھا (یاد رہے کہ مذکورہ ہنری کسنجر یہودی تھے)۔ یہ دستاویز1990 ء میں منکشف ہوئی۔ یہ ایک بھیانک انکشاف تھا۔ اس دستاویز کے مطابق:

” تیسری دنیا کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم جزو ان کی آبادی کم کرنا ہونا چاہیے۔ ان ممالک میں آبادی کی شرح کم کرنا امریکی قومی دفاع کا لازمی جزو ہے کیونکہ امریکی معیشت کو کئی قسم کی معدنیات اور وسائل بیرونی ممالک خصوصاً پسماندہ ممالک سے ھاصل کرنے ہوتے ہیں۔ اس طرح ان ممالک کی آبادی کو کم کرنا امریکی معیشت کے مفاد میں ہے۔”

کسنجر کی یہ بھیانک دستاویز زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ تیسری دنیا کے افراد کو ہمیشہ سست اور بیکار افراد سمجھا گیا ہے۔ کئی سال پہلے 1932 ء میں کار نیلیس روڈزنے، جو کہ راک فیلر انسٹیٹوٹ کا بنیادی پتھالوجسٹ تھا، پور ٹور یکو کے کئی افراد پر کینسر کے تجربات کے لیے ان کو جان بوجھ کر کینسر سے متاثرکیا جن میں سے تیرہ کی موت واقع ہو گئی۔ روڈز نے اس پر درج ذیل تبصرہ کیا۔
” پورٹوریکو کے باسی اس زمین پر آج تک رہنے ولاے انسانوں میں سے سب سے زیادہ غلیظ، سست او ربیکار انسان ہیں۔ میں نے ان میں سے آٹھ کو مارنے اور دیگر کئی میں کینسر کے خلیے (سیلز) داخل کر کے انکی نسل مٹانے کے عمل کو بڑھانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ تمام فزیشن ان بدقسمت افراد کو اذیت دے کر خوش ہوتے ہیں۔ "

حیران کن بات یہ ہے کہ اس بھیانک انکشاف کے بعد روڈز نہ صرف سزا سے بچ گیا بلکہ اسے جنگ عظیم دوم کے دوران کے کئی کیمیائی ہتھیاروں کے منصوبوں کا انچارج بھی بنایا گیا۔ اسے اٹامک انرجی کمیشن کارکن بھی مقر کیا گیا اور اس کے ساتھ اسے لی جن آف میرٹ کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔

سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے مشہور یہودی خاندان راک فیلر سے قریبی تعلقات تھے۔ اسی بنیاد پر اسے امریکی صدر نکسن کے دور میں امریکہ کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مقر کیا گیا۔ یو ایس نیوز او رورلڈ رپورٹ کے مطابق:

” ایسا گورنر راک فیلر کی ہدایت پر کیا گیا جس کے مطابق ہنری کسنجر اس عہدے کے لیے سب سے زیادہ مناسب تھا۔”

1970 ء میں امریکی شعبہ دفاع نے سینٹ کمیٹی کو ایک ایسے حیاتیاتی ہتھیار کے لیے فنڈ جاری کرنے کی درخواست جو انسان کے مدافعاتی نظام پر حملہ آور ہو سکے۔ سینٹ کمیٹی کے سامنے امریکی آرمی کے حیاتیاتی ہتھیاروں کے ماہر ڈاکٹر ڈونلڈ میک آرتھر نے کہا۔

” اگلے پانچ سے دس سالوں میں ایک ایسا خوردبینی جراثیم بنانا ممکن ہو جائے گا جو اپنی خصوصیات میں دیگر تمام جراثیموں سے مختلف ہو گا۔ اس کی سب سے اہم بات یہ ہو گی کہ یہ ان تمام مدافعاتی نظاموں اور عوامل کو ناکارہ کر دے گا جوکہ ایک انسان کو متعدی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس پر تحقیق کا منصوبہ پانچ سالوں میں دس ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہو گا۔ ”
اس منصوبے کے لیے امریکی حکومت نے درج بالا لاگت جاری کر دی تھی۔

پروفیسر جیکب سیگل اور انکی بیوی للی دونوں کو یقین ہے کہ ایڈز وائرس کو میری لینڈ کی فورٹ ڈیٹرک لیبارٹری میں تیار کیا گیا جوکہ امریکی کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے منصوبوں کا مرکز ہے۔ سیگل، جو کہ روس میں پیدا ہوئے اور مشرقی جرمنی کی ہمبولڈ یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسرر ہے، نے کہاکہ ایڈز وائرس امریکی جراثیمی ہتھیاروں کے منصوبے کا نتیجہ تھا۔ سیگل اور انکی بیوی نے اپنے خیالات 1986 ء میں ایک پمفلٹAIDS; USA Home-made evil میں شائع کیے۔ انہوں نے کہا کہ ایڈز وائرس کافی حد تک دوسرے دو وائرس، وسنا وائرس (جو بھیڑ کا مہلک وائرس ہے) او رایچ ٹی ایل ون (ہیومن ٹی سیل لیو کیمیاوائرس) سے کافی ملتا جلتا ہے۔

سیگل نے مزید کہا کہ فورٹ ڈیٹرک لیبارٹری (امریکہ) شیپ وسنا وائرس او رایچ ٹی ایل ون (ہیومن ٹی سیل لیو کیمیا وائرس) کے ملاپ سے ایڈز جیسا تباہ کن وائرس تخلیق کرنے کی ذمہ دار ہے۔ سیگل کے مطابق ایڈز وائرس 1977 ء کے اواخر اور 1978 ء کے موسم بہار کے دوران تخلیق کیا جا چکا تھا۔ سیگل کے مطابق فورٹ ڈیٹرک لیبارٹری اپنے تجربات قیدیوں پر کرتی پر کرتی جو اپنی رہائی کے لیے اپنے آپ کو ان تجربات کے لیے پیش کر دیتے تھے۔ چونکہ چھ مہینے تک بیماری کی کوئی علامات ظاہر نہ ہوئیں، اس لیے ان قیدیوں کو معاہدے کے مطابق رہاکر دیا گیا۔ چونکہ ان میں سے کئی ایک ہم جنس پرست تھے، اس لیے وہ بغیر جانے نیو یارک میں دوسرے ہم جنس پر ستوں کو اس بیماری سے متاثر کرتے رہے۔ یہیں ایڈز کی بیماری کی پہلی اطلاع آئی اور جلدہی یہ پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گئی۔

بعض لوگوں نے ان انکشافات پر سیگل کو روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کارکن قرار دیا۔ ڈاکٹروں نے ان کے انکشافات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ تفصیلات جاننے کے لیے فورٹ ڈیٹرک لیبارٹری کے نمائندے سے بات کی گئی تو اس نے بھی اسے روسی پروپیگنڈہ قرار دیا مگر اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایڈز پر ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر کام کر چکے ہیں اور ایسا انہوں نے امریکی عسکری افراد کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا۔

اس کے باوجود سیگل یہ انکشاف کر نے والے اکیلے فردنہیں ہیں جن کے مطابق ایڈز وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا گیا۔ ڈاکٹر ولیم کیمپ بیل ڈگلس، جو اعلیٰ امریکی فزیشن او رایوی ایشن اور سپیس میڈیسن میں کام کر چکے ہیں او رسابقہ امریکی نیوی سرجن بھی تھے، کے مطابق بھی ایڈز وائرس انسان کا بنایا ہوا ہے او رایسا جینیاتی طریقون (جینیٹک انجینئرنگ) کے اصولوں سے کیا گیا۔ ڈگلس کے مطابق روسی جاسوس اعلیٰ خفیہامریکی لیبارٹریوں میں سرایت کر کے ان میں بیس سال سے کام کر رہے تھے اورایڈز کے بارے میں ان کا بھی یہی کہنا درست تھا۔ اس حوالے سے وہ مارچ 1986 ء کے اومنی میگزین کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کا رلٹن گیجوسک (فورٹ دیٹرک لیبارٹری کا ایک افسر) کے اس قول کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق فورٹ ڈیٹرک میں ” وفادار ” امریکی اور چینی سائنسدان بھی کام کرتے تھے۔

ڈگلس کو یقین ہے کہ ایڈز کی ابتدا افریقہ میں ہوئی لیکن ایسا کسی بندر کے انسان کو کاٹنے سے نہیں بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی مصنوعی چیچک ویکسین میں ایڈز وائرس کو ملا کر یہ ویکسین افریقیوں کو لگائی گئی۔ اس خیال میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ امریکہ میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ (جس کی ڈبلیو ایچ او ایک ذیلی شاخ ہے) راک فیلر (مشہور یہودی خاندان) اور ان کے سرمایہ کاروں نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قائم کی تھی۔
ایڈز کے حوالے سے اہم ترین تجزیہ نگار ڈاکٹر رابرٹ سٹریکر ہیں جو امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ ایڈز کو ایک لیبارٹری میں حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا۔ اس کی تصدیق کے لیے وہ کئی ایسے امریکی حیاتیاتی ہتھیاروں کے منصوبے بیان کرتے ہیں جن کے تجربات امریکی عوام کے علم کے بغیر انہی پر کیے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے جہاں بھی ان کے استعمال کی ضرورت پیش آئی، امریکی حکومت اس سے نہیں ہچکچائے گی۔

سٹریکر یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کی ایک کھیپ تیار کی جا چکی ہے اور یہ استعمال بھی ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر اس کا مطلب انسانیت یا اس کے ایک حصے کی تباہی ہے اور یہ ایک بار پھر تیسری دنیا کے افراد کے قتل عام کا خدشہ پیدا کر رہے ہیں۔

اس بارے مین ایک ناخوشگوار بات یہ بھی ہے کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کے مستقبل میں استعمال کا تصور امریکی دفاعی منصوبہ سازوں کے دماغ میں موجود ہے۔ امریکی ایئر فورس کے لیفٹیننٹ کو لونل رابرٹ پی کیڈلک اپنے ایک مضمون :
Twenty first century germ warfare میں لکھتے ہیں۔

” وبائی یا قدرتی امراض کے پردے میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال حملہ آور کو خفیہ رکھتا ہے (کیونکہ حیاتیاتی ہتھیار سے پھیلنے والی بیماری کو لوگ قدرتی بیماری سمجھ کر اس میں کسی دشمن کے ملوث ہونے کے امکان کو رد کر دیتے ہیں)۔ اس مقصد کے لیے انسانوں، جانوروں او رپودوں کی تباہی کے لیے بیکٹریا، وائرس یا ان کے زہر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ”
ایڈز کے بارے میں کوئی آدمی کچھ بھی سوچے، مستقبل بہر حال تاریک نظر آتا ہے کیونکہ عوام کے علم میں لائے بغیر ان ہتھیاروں سے حیاتیاتی جنگیں لڑی جائیں گی( جن میں گولہ بارود، ایٹم بم میزائل یا راکٹوں کی بجائے برقی مقناطیسی شعاعیں اور حیاتیاتی جراثیم ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیے جائیں گے)۔

یاد رہے کہ تیسری دنیا میںQuinacrine کے نام سے سٹرلائزیشن کے لیے ایک دوائی کے تجربات کیے گئے حالانکہ میڈیکل سائنس اسے انسانوں کے لیے مضر قرار دے چکی تھی۔ ایک دوسری دوائی جو پیدائش کنٹرول ویکسین کے طور پر جلد کے نیچے امپلانٹ کی جاتی تھی اور جس کا نام norplant تھا، دنیا کے غریب ترین ممالک میں استعمال کی گئی جس کے شدید مضر اثرات ظاہر ہوئے۔ اس پر ایک طبی ورکر کہ اٹھا۔

” کیا یہ امریکہ کے لیے سستا ہے کہ وہ ادویات کے تجربوں کے لیے مغرب کی کسی لیبارٹری کے جانوروں کی بجائے تیسری دنیا کی عورتوں کو استعمال کرے۔”

گیری نل، جو 1993ء میں نیو یارک کے مقبول ریڈیو سٹیشن ڈبلیو بی اے ون ایف ایم پر حیاتیاتی ہتھیاروں پر ایک مہمان کے طور پر مدعو تھے، نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت سے فنڈ لینے والی ایک تنظیم وسٹر انسٹیٹوٹ نے باؤلے کتے کے کاٹنے کی ایک نئی ویکسین کے ارجنٹائن میں خفیہ تجربات کیے۔ اس کے لیے ارجنٹائن کی حکومت سے اجازت لینے کی رحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اس کے لیے انہوں نے یہ ویکسین وہاں کے مویشیوں میں داخل کی جس سے فارم میں کارم کرنے والے سترہ افراد انفیکشن کا شکار ہو گئے۔ اس بارے میں جب امریکی حکومت سے بات کی گئی تو اس کا جواب تھا کہ وہ تنظیم کو فنڈ تو دیتی ہے لیکن اس نے اسے ارجنٹائن کے دورے کے لیے کوئی رقم فراہم نہیں کی۔

لیجئے جناب! یہ ہے خفیہ تیاریوں کا حال اور یہ ایک طرف ہماری بے حسی۔ ایک دوسرے کو بدعملی کے طعنے تو دیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ ہر آدمی اسے دوسروں کا فرض سمجھ کر اپنی عیاشی میں مبتلا رہتا ہے او رساتھ ہی اچھے مستقبل کی فضول امیدیں بھی وابستہ رکھتا ہے۔ جب تک ہم یورپ پر سائنسی انحصار چھوڑ کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری حاصل نہیں کریں گے۔ اس وقت تک ہمارے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔ اپنے حصے کا ہاتھ تو بٹایئے۔ جو لوگ اس کے لیے سرگرم ہوں انکی حوصلہ افزائی اور ان سے تعاون تو کیجئے۔ خدارا ان کی ٹانگیں مت کھینچے۔ سوچے اور کچھ کیجئے۔ مبادا وہ وقت آجائے کہ نہ سو چنے کی ہمت ہو نہ کچھ کرنے کا موقع۔

تبصرے بند ہیں۔