ایک اور جمہوری تماشا: کانگریس جیت کر بھی ہار گئی!

ڈاکٹرعابد الرحمن

 بہار کے بعد ایک اور جمہوری تماشا ہوا ،یہ بھی بہار ہی کی طرح منتخب نمائندوں کے نمبرس کا کھیل تھا ،جس میں بظاہر کانگریس کے احمد پٹیل صاحب اپنی راجیہ سبھا سیٹ بچانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن کانگریس ہار گئی ۔گجرات سے راجیہ سبھا کی تین سیٹوں کے لئے چناؤ ہونا تھا اور ہوا یہ کہ جیسے ہی اس کا قانونی اعلان ہوا جمہوریت کا سیاسی تماشا شروع ہو گیا، سب سے پہلے گجرات اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن اور گجرات کانگریس کے صدر رہے شنکر سنگھ واگھیلا نے کانگریس چھوڑ نے کا اعلان کیا لیکن اسمبلی کی رکنیت نہیں چھوڑی، یعنی یہ اعلان کیا کہ راجیہ سبھا الیکشن میں وہ کانگریس کے احمد پٹیل کو ووٹ نہیں دیں گے ان کے بعد کانگریس کے چھ ممبران اسمبلی نے بھی کانگریس اور ساتھ ہی ساتھ اسمبلی سے بھی استعفیٰ دے دیا جن میں اسمبلی میں کانگریس کے چیف وہپ بھی شامل تھے انہوں نے بعد میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی اور چیف وہپ احمد پٹیل کے خلاف بی جے پی کے امیدوار بن گئے۔

 کانگریس اپنے 44 ممبران اسمبلی کو بنگلورو اڑا لے گئی اور انہیں کرناٹک کے ایک کانگریسی وزیر ڈی کے شیوا کمار کے ہوٹل میں الیکشن تک ’چھٹیاں منانے ‘ کے لئے ’ بند ‘ کردیا ۔اس کے بعد ’ سب کو معلوم ‘ وجہ کے تحت انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے ڈی کے شیوا کمار کے گھر اور مذکورہ ہوٹل پر ریڈ کی ۔احمد پٹیل کو جیتنے کے لئے 42 ووٹ درکار تھے جو انہوں نے حاصل کر لئے لیکن ان میں کانگریس کے صرف 40 ووٹس ہی تھے بقیہ دو میں این سی پی اور جے ڈی یو کا ایک ایک ووٹ تھا ۔ اس الیکشن میں بی جے پی کی سیٹنگ اتنی پختہ تھی کہ اسے جیت کا پورا یقین تھا اسی لئے بی جے پی کو ووٹ دینے والے کانگریسی ممبران نے بھی یہ اعلان کردیا کہ انہوں نے کسے ووٹ دیا ،کانگریس کے انہی میں سے دو ممبران نے اپنے ووٹ بی جے پی صدر کو بتائے اور سارا گیم فلاپ ہو گیا ،الیکشن کمیشن نے ان کے ووٹ  مسترد کردئے اور اسطرح احمد بھائی جیت گئے ۔لیکن اس کے باوجود گجرات میں پہلے سے پسپا کانگریس مزید بری طرح پسپا ہو گئی،احمد پٹیل جیتے ضرور لیکن کانگریس نے 17 ممبران اسمبلی کھوئے ہیں اور سب سے بری بات یہ کہ ان میں اس کے سب سے زیادہ بھروسہ مند، قائد حزب اختلاف اور چیف وہپ بھی شامل ہیں ۔ کانگریس کا یہ نقصان صرف ممبران اسمبلی کا نقصان ہی نہیں بلکہ اس سپورٹ بیس کا بھی نقصان ہے جو ان لیڈران کا مرہون منت تھا ۔

کانگریس چھوڑ نے والوں کے علاوہ جو ممبران اسمبلی کانگریس کے پاس ہیں وہ بھی کتنے قابل اعتماد ہیں اس کا اندازہ اس بات سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں اپنے ساتھ بنائے رکھنے کے لئے کانگریس کو انہیں بنگلورو لے جانا پڑا تھا اور اس سب کے باوجود بھی ان میں سے دو ممبران نے بی جے پی کو ہی ووٹ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی منتخب نمائندوں اور اتحادیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے مختلف سیاسی غیر سیاسی اخلاقی اور جذباتی بہانوں کے ذریعہ بہت تیز رفتاری سے کوشاں ہے ۔بہار میں وہ نتیش کمار کو اپنے ساتھ ملانے میں پوری طرح کامیاب ہو چکی ہے اور گجرات میں بھی احمد پٹیل سے ہارنے کے بعد بھی وہی کامیاب رہی ۔وہ تو احمد پٹیل صاحب کو ہرانے میں بھی کامیاب ہوجاتی لیکن الیکشن کمیشن کے ذریعہ کانگریس کے دو باغیوں کے ووٹس تکنیکی خامی کی وجہ سے مسترد کر نے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا اور یہ ایک خوش کن اور حوصلہ افزا بات ہے جمہوری ادارے بی جے پی کے تابع ہونے اور ان میں اس کی پسند کے سربراہان ہونے کے باوجود آزادانہ طور پر قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں۔

 اس معاملہ میں شنکر سنگھ واگھیلا کا کردار کانگریس کی منافقت کی زندہ مثال ہے۔شنکر سنگھ واگھیلا آر ایس ایس کے ممبر تھے اس کی سیاسی تنظیم جن سنگھ کے ممبر تھے اس کے بعد بی جے پی کے ممبر رہے انہوں نے بی جے پی چھوڑی تھی تو اس لئے نہیں کہ وہ سنگھ کے نظریات چھوڑ کر ’سیکولرازم ‘کے حامی ہو گئے تھے بلکہ اس لئے کہ بی جے پی نے انہیں گجرات کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا تھا ۔ انہوں نے الگ پارٹی بنائی اور پھر اسے کانگریس میں ضم کردیا لیکن وہ دراصل کانگریس میں بی جے پی کے آدمی تھے اگر اس وقت کانگریسان کی پارٹی کی حمایت نہ کرتی ، ان کیلئے اپنے دروازے نہ کھولتی اور انہیں صدر نہ بتاتی تو ان کا سیاسی کھیل بہت دن چلنے والا نہیں تھا ۔ لیکن اقتدار کے لئے آئیڈیا لوجی سے سمجھوتا کرنے والی کانگریس نے یہ سوچاہی نہیں اور اب جبکہ مودی گجرات چھوڑ چکے ہیں تو شنکر سنگھ کو بھی کانگریس چھوڑنا تھی سو انہوں نے چھوڑ دی۔ ہو سکتا ہے وہ سیاسی گھوڑ بازاری میں بک گئے ہوں ،ہوسکتا ہے وہ بی جے پی کی طرف سے گجرات کے اگلے وزیر اعلیٰ بن جائیں۔

کانگریس نے ہمیشہ سیکولر آئیڈیا لوجی اور اپنے آپ کے سب سے زیادہ سیکولر ہونے کا ڈنکا پیٹا لیکن اسی آئیڈیا لوجی کے بہانے بد ترین فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دیتی رہی ان کی غیر قانونی اور غیر سیکولر حرکات کا کبھی سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا بلکہ ان کی فرقہ پرستی کے تنور پر اپنی’ سیکولر سیاست‘کی روٹیاں سینکتی رہی ،اسی طرح اس نے فرقہ وارانہ سیاست کے معلوم کھلاڑیوں کے لئے بھی اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے یہی نہیں بلکہ انہیں اہم عہدوں پر بھی فائز کرتی رہی ۔کانگریس نے اپنے دور اقتدار میں نہ کبھی سیکولرازم بھنگ کر نے والے عناصر کی نکیل کھینچی اور نہ ہی سیکولر زم کی حفاظت کا کوئی کام کیا جس کی وجہ سے فرقہ پرستی طوفان کی شکل اختیار کر تی رہی اب مودی جی نے اس طوفان کو بدعنوانی اور بلیک منی کے خلاف جنگ،ترقی اور گڈ گورننس کا تڑ کا دے کر سونامی میں تبدیل کر دیا ہے جس نے قومی سیاست سے کانگریس کو تقریباً نابود کردیا ہے اور دھیرے دھیرے علاقائی اور ریاستی سیاست میں بھی یہی ہو رہا ہے۔

موجودہ کانگریس قیادت میں بی جے پی کی اس سونامی کو روکنے کا حوصلہ اور دم خم تو چھوڑئے اس کے خلاف موثر اور مضبوط اپوزیشن کی ذمہ داری نبھانے کی بھی سکت نہیں ہے۔ اب لگتا ہے کہ کانگریس مکت بھارت کا جو نعرہ نریندر مودی نے لگایا تھا کچھ سالوں میں وہ بھی حقیقت میں تبدیل ہو نے والا ہے اگر  کانگر یس زبردست تنظیمی پھیر بدل نہیں کرتی اور موثر مضبوط اور جارحانہ سیاسی حکمت عملی نہیں اپناتی اور اسے تابڑ توڑ طریقے سے عمل میں نہیں لاتی۔لیکن کانگریس قیادت اس ضمن میں بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ بہار میں نتیش کمار کے ڈرامے کے وقت کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے کہا تھا کہ وہ اس کے متعلق تین چار مہینے پہلے سے جانتے تھے، تو صاحب اسے روکنے کے لئے آپ نے کچھ کیا کیوں نہیں ؟اسی طرح ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ’ اگر میں بولوں گا تو زلزلہ آ جائے گا‘تو صاحب بولے کیوں نہیں ؟ آخر اس زلزلے میں کون مرنے والا تھا کہ نہ بول کر آپ نے اسے بچا لیا؟ان کی ساری باتیں امپریکٹیکل ہی نہیں بلکہ بچکانہ بھی ہیں ۔ایسی قیادت مودی کا مقابلہ بالکل نہیں کر سکتی جب تک دوسرے منجھے ہوئے سیاستدانوں کو آگے نہیں بڑھاتی ،نتیش کمار ان میں سے ایک ہو سکتے تھے جن کے اقدام کی پیشگی معلومات کے باوجود کانگریس نے انہیں گنوادیا۔

 اب ان حالات میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ بی جے پی کے طلسم اور کانگریس کے جعلی سیکولرازم سے باہر آئیں اور سخت بی جے پی مخالف اور کانگریس کے ارد گرد گھومنے والی روایتی سیاست کو چھوڑ کر کسی نئی سیا سی راہ کا تعین کریں اور کوئی ہمہ گیر سیاسی منصوبہ بندی کرتے ہوئے موثر لائحہء عمل تیار کریں اور من حیث القوم اس پر عمل کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔