ایک اور سازش

ممتاز میر

   آج کل اگنی پتھ نامی اسکیم کا بڑا چرچا ہے اور ہر میڈیا پر اس کو ہر طبقے کے لوگ نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ انداز ایسا ہے کہ جیسے ایک غلط اسکیم بڑے خلوص سے متعارف کرائی گئی ہے۔ یعنی حکومت کے دل میں تو باشندگان ملک کے تئیں خلوص ہے نیک نیتی ہے مگر ارباب حل وعقد سے یہ اسکیم صحیح طرح بن نہیں سکی۔ اور اسکیم جس طرح پیش کی گئی اس میں لوگوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ نظر آتا ہے۔ بہت ممکن ہے خاصی بھد اڑنے کے بعد اس میں ایسی تبدیلیاں کی جائیںجس سے سب خوش ہو جائیں سوائے مسلمانوں کے۔ ویسے بھی سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد بھی کس کو مسلمانوں کی تعلیم اور روزگار کی فکر ہے۔ یہ جو کچھ بھی میڈیا میں اور سول سوسائٹی میں مسلمانوں کے تعلق سے بیداری نظر آرہی ہے تو یہ صرف اور صرف سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ننگے پن کی وجہ سے ہے ورنہ سچر کمیٹی نے تو اپنی رپورٹ میں کانگریسیوں کے کارنامے بیان کئے ہیں۔ یہ کانگریس کی مہارت ہی تو تھی کہ اس نے سانپ کو بھی مارا اور اس کی لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ سول سوسائٹی آج بھی کانگریس کو مسلمانوں کی ان داتا سمجھتی ہے۔ اور سول سوسائٹی کو کیا الزام دینا، خود مسلمانوں کو آج تک دشمنوں کی پہچان نہ ہو سکی اور یہ اس لئے کہ فراست مومنانہ تو دور ہمیں تو کامن سینس تک حاصل نہیں۔

   ہمیں نہیں یقین کہ اس اسکیم کا مقصد وہ ہے جو ہمارے دانشور سمجھ رہے ہیں۔ اس اسکیم کے بین السطور میں بھی سنگھ پریوار کی مخصوص ذہنیت کام کر رہی ہے۔ ہمارے خیال سے اس اسکیم پر سب سے زیادہ با معنی تبصرہ پرینکا گاندھی کا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ بی جے پی حکومت فوج میں بھرتی کو اپنی تجربہ گاہ کیوں بنا رہی ہے ؟بالکل درست۔ ہمیں لگتا ہے کہ سنگھ اس اسکیم میں اپنے لوگوں کو ہی بھرتی کرے گا۔ وہ جو خالص اندھ بھکت ہوں گے۔ یہ اندھ بھکت ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں فوج میں جا کر ۴ سال میں ہر طرح کے اسلحے چلانے کی ٹریننگ حاصل کریں گے۔ کمانڈو ٹریننگ بھی حاصل کریں گے۔ اور ۴ سال بعد فوج سے باہر آکر یہ لوگ کیا بھجن گائیں گے ؟ یہ مسلمانوں کا صفایا کریں گے،ان کے گھر لوٹیں گے، آگ لگائیں گے۔ اس طرح بلڈوزر بدنامی سے بچ جائے گا۔ عدالتیں بدنامی سے بچ جائیں گی۔ اس طرح مسلمان نہ احتجاج کے قابل رہیں گے نہ مزاحمت کے۔ سچ یہ ہے کہ اس حکومت کا ایجنڈا مسلمانوں کو دیش سے نکال دینا ہے۔ کیونکہ مسلمان ہیں تو دستور ہے۔ مسلمان ہیں تو کچھ نہ کچھ مساوات کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے، مسلمان اور دستور کی وجہ سے ہی چھوت چھات سے انکار کرنا پڑتا ہے۔ دلتوں، دبی کچلی جاتیوں،ادیواسیوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی دکھاوے کے لئے ہی سہی ساتھ بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے۔ اگر مسلمان نہ رہے تو ان سارے ڈراموں اور ڈھونگ کی ضرورت نہ رہے گی۔ دستور کی جگہ منو سمرتی کو لے آئیں گے۔ پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ہمیں لگتا ہے یہ اگنی پتھ اسکیم اسی final settlement کی تیاری ہے۔

   حالانکہ روش کمار نے پرائم ٹائم میں اس اسکیم کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، مگر پورے ایپی سوڈ میں ان کا دھیان بھی اس طرف نہیں گیا کہ یہ اسکیم مسلمانوں کے ساتھ آخری معرکے کی تیاری بھی ہو سکتی ہے جبکہ ہمیں لگتا ہے کہ جگہ جگہ مسلمانوں کے احتجاج نے اور شر پسندوں سے لوہا لینے کی ادا نے حکومت کو شاید یہ اسکیم بنانے پر مجبور کردیا ہو۔ ویسے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہی کام کرنل پروہت مہاراشٹر میں کانگریس کی چھتر چھایا میں کر ہی رہا تھا۔ اب توجو ہوگا قانون کے تحت ہوگا۔ اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کرنے کے لئے ہی یہ اسکیم لائی گئی ہے۔ پھر جب ہر ایک کے پاس بندوق اور اس کا لائسنس ہوگا تو اپنے امریکی دوستوں کو مودی جی کہہ سکیں گے کہ دیکھئے ہم بھی آپ سے کم نہیں بلکہ جب مسلمانوں پر فائرنگ کے واقعات ہوں گے اور امریکی اعتراض کریں گے تو کہہ دیا جائے گا کہ کیا کریں۔ ہم تو آپ کی نقل کر رہے تھے۔ خیر!کہا جا رہا ہے کہ فوج سے نکالے جانے والے یہ ۷۵ فی صد اگنی ویرCISF,BSF,CRPF,ITBF,NSG,SSB اور دیگر حفاظتی دستوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ترجیحی بنیادوں پر جگہ پاتے رہیں گے۔ مگر ہمیں یہ سب بکواس لگتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ تو ملک میں نوکریوں کا کال ہی ہے۔ ہمیں روزانہ ہی بینک سے کام پڑتا ہے۔ کیش لیس سوسائٹی کی چاہت میںبینکوں کی ۵۰ فی صد نوکریاں ختم کی جا چکی ہیں۔ اور جو ہیں وہ بھی ٹھیکے پر دے کر کام چلا جا رہا ہے۔ ائر انڈیا جیسی کمپنی میں انجینئر ٹھیکے پر کام کر رہے ہیں۔ اور یہ ہر شعبے کا مسئلہ ہے۔ تو پھر ان ۷۵ فی صد بیکاروں کو نوکریاں کہاں سے دی جائیں گی۔ ہمیں تو بس یہی نظر آتا ہے کہ ان بیکاروں کا رخ مسلمانوں اور کمزور طبقات کی طرف موڑ دیا جائے گا کہ مارو اور لوٹو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔