اے نام محمدؐ صلِّ علٰی

تحریر: حافظ محمد ادریس۔ ترتیب: عبدالعزیز

دنیا میں ہر سو اندھیرا چھا چکا تھا۔ ظلم و ستم کا دور دورہ تھا، کفر کی تاریک گھٹاؤں نے انسانیت پر گھٹا ٹوپ اندھیرے مسلط کر رکھے تھے۔ ظلم کے ہاتھوں ہر مظلوم کراہ رہا تھا۔ کہیں سے امید کی کرن نظر آرہی تھی، نہ کوئی نجات دہندہ ہی موجود تھا۔ اخلاق اور کردار قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا چلن عام تھا۔ ایسے میں رحمت خدا وندی جوش میں آئی۔ مدتوں سے پیاسی زمین پر ابر رحمت کے نزول کا وقت آگیا۔ مظلوموں کی داد رسی اور ظلم کے خاتمے کا فیصلہ ہوگیا۔ انسانی تاریخ کا دھارا موڑنا طے پاگیا اور متعفن ماحول کو جاں فزا ہواؤں کے ذریعے بدل کر حیات نو بخشنے کا لمحہ آگیا۔ عرب کی پسماندہ دھرتی پر باری تعالیٰ کی نظر کرم مرتکز ہوئی اور انسانیت کا نجات دہندہ دعائے ابراہیم اور نویدِ مسیحا، چاند بن کر آمنہ کی گود میں اتر آیا۔ ماہر القادریؒ نے اس منظر کو یوں پیش کیا ہے:

کچھ کفر نے فتنے پھیلائے، کچھ ظلم نے شعلے بھڑکائے … سینوں میں عداوت جاگ اٹھی، انساں سے انساں ٹکرائے

پامال کیا، برباد کیا، کمزور کو طاقت والوں نے  … جب ظلم و ستم حد سے گزرے، تشریف محمدؐ لے آئے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ تاریک ماحول تھا۔ آپؐ کی دنیا میں آمد سے کچھ عرصہ قبل یمن کے حکمران ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ خانہ کعبہ پر چڑھائی کی تھی۔ خانہ کعبہ کے متولی قریش اس فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ قریش کے جہاں دیدہ سردار عبدالمطلب نے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر اللہ سے دعائیں مانگیں کہ وہ خود اپنے گھر کی حفاظت کرے۔ رئیس قریش نے بت پرستی اور شرک کے عاید سے توبہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایک اکیلا اللہ ہی معبود حقیقی ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی الٰہ ہے۔ تمام قریش نے اس کلمہ حق اور عاجزانہ دعا پہ آمین کہا۔ محمد کریمؐ اس وقت رحم مادر میں تھے۔ گویا آپؐ کی آمد سے کچھ عرصہ قبل اللہ نے معجزانہ طور پر قریش کو بت پرستی سے ہٹاکر توحید پر مجتمع کر دیا۔

یہ بھی ختمی مرتبتؐ کا معجزہ تھا کہ ہاتھیوں کا لشکر ابابیلوں کے ذریعے ملیامیٹ کر دیا گیا اور شرک کی تاریکی کچھ مدت کیلئے ہی سہی، مگر بہر حال کافور کردی گئی۔ قریش دس سال تک اپنے اس عہد پر قائم رہے، اس کے بعد پھر اپنی پرانی ڈگر پر چلے گئے۔ گویا اب مشیت ایزدی کا تقاضا یہ تھا کہ ایک وقتی حادثے کے تحت قریش نے جو بت پرستی سے توبہ کی، اب اسے مستقل طور پر توحید کے محکم درس میں ڈھال دیا جائے۔ اب تو حید کا قیام کسی وقتی حادثے اور اچانک رونما ہونے والے معجزے کے ذریعے نہیں ہوتا تھا، بلکہ طویل اور کٹھن جدوجہد اور جاں گسل محنت کے ذریعے آمنہ کے دُرِّ یتیمؐ کو یہ کام سر انجام دینا تھا۔ لڑکپن اور جوانی جس ماحول میں گزری وہ بت پرستی اور شرک کی آلودگی سے متعفن تھا مگر آپؐ کا دامن ہر آلایش سے بالکل محفوظ رہا۔ چالیس سال کی عمر میں تاجِ نبوت عطا ہوا، تیرہ سال مکے میں اسی جدوجہد میں گزرے اور دس سال مدینہ منورہ میں اللہ کے کلمے کی سربلندی میں صرف ہوئے۔ تیئس سال کے مختصر عرصے میں اس سر زمین سے ہمیشہ کیلئے شرک اور بت پرستی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ انسانیت نے چین کا سانس لیا۔ شیطان تلملاتا رہا مگر حق کا پرچم چہار سو لہرانے لگا۔ ؎

توحید کا دھارا رک نہ سکا، اسلام کا پرچم جھک نہ سکا … کفار بہت کچھ جھنجلائے، شیطان نے ہزاروں بل کھائے

یا دورِ سعید اللہ کی نصرت مگر اہل ایمان کی والہانہ قربانیوں کا مرہونِ منت ہے۔ اللہ تو اس بات پر بھی قادر تھا کہ وہ سبھی لوگوں کو ہدایت پر ہی پیدا کرتا اور اسی پر زندگی بھر مجتمع رکھا مگر اس کا مقصد تخلیق انسانوں کا امتحان ہے۔ اس کارگاہِ حیات میں شیطان اور رحمن کے بندوں میں کشمکش ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اور تا قیام قیامت یہ جاری رہے گی۔ موت و حیات کی تخلیق کا مقصد ہی یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ انسانوں کو آزمانا چاہتا ہے کہ کون اچھے اعمال کا اہتمام کرکے مستحق جنت بنتا ہے اور کس کا مقدر جہنم ٹھہرتی ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے:

عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی … یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے، نہ ناری ہے

حق و باطل کی اس کشمکش میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کی تربیت کی۔ یہ تربیت ہمہ پہلو اور جامع ہے۔ اس میں دین اور دنیا کی دوئی ختم کر دی گئی ہے۔ ہر کام میں نیکی کا تصور اور عبادت کا اجر ثابت ہے۔ یہ حقیقی انقلابی پیغام ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بقول ماہر القادری مرحوم:

اللہ سے رشتے کو جوڑا، باطل کے طلسموں کوتوڑا …خود وقت کے دھارے میں طوفان میں سفینے تیرائے

تلوار بھی دی، قرآں بھی دیا، دنیا بھی عطا کی، عقبیٰ بھی … مرنے کو شہادت فرمایا، جینے کے طریقے سمجھائے

ریگزار عرب کے باسی جو تہذیب سے نابلد ہوچکے تھے، ان کو زمانے کا امام اور رہبر بنا دیا۔ خس و خاشاک کو مقتدر بنادیا، مٹی کے ذرّوں کو رشکِ ثریا کر دیا۔ اونٹوں کے چرواہے دنیا کے معلم و مزکّی بھی بنے اور طاغوت کا تختہ الٹنے کے شرف سے بھی نوازے گئے۔ بزعم خویش انسانوں کے خدا بنے ہوئے کج کلاہوں کے تخت الٹ دیئے گئے اور تاج اچھال دیئے گئے۔ اب دنیا کی قسمت کے فیصلے ان صحرا نشینوں کے ذریعے ہونے لگے مگر ان کی ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق نہیں بلکہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں ! یہ پیغمبر اسلامؐ کا زندہ معجزہ تھا۔ ماہر القادری مرحوم اس کی منظر کشی یوں کرتے ہیں :

تہذیب کی شمعیں روشن کیں ، اونٹوں کے چرانے والوں میں … کانٹوں کو گلوں کی قسمت دی، ذروں کے مقدر چمکائے

عورت کو معاشرے نے بے وقعت بنا کر رکھ دیا تھا۔ بیٹی عار سمجھی جاتی تھی۔ بے چاری عورت ذات کو محض ذریعہ تعیش و شہوت رانی گرداناجاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ اور عزت و احترام دے کر سر بلند کر دیا۔ اسے ماں ، بیٹی، بہن، بیوی ہر حیثیت میں محترم قرار دیا۔ عورت کی عزت محض اسلامی نظام اور شریعتِ مطہرہ ہی میں محفوظ و مامون ہوسکتی ہے۔ مشرق و مغرب کی ہر خدا بیزار و لادین ثقافت عورت کا ہمیشہ استحصال کرتی رہی ہے۔ آج مسلمان عورت کو جدید و قدیم ہر جاہلیت سے اظہار برأت کرنا چاہئے :

عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا … شیشوں میں نزاکت پیدا کی، کردار کے جوہر چمکائے

محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے جانثاروں سے جو عقیدت اور محبت ملی وہ بے مثال و لازوال ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے آپؐ سے سوال پوچھا: ’’یا رسول اللہ؛ قیامت کب آئے گی؟‘‘ آپؐ نے جواب دیا: ’’قیامت تو جب آئے گی سو آئے گی مگر تونے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے‘‘۔ پروانے نے صرف اتنا عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ؛ کوئی خاص تیاری تو نہیں کی البتہ اللہ اور ا س کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں ‘‘۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’پھر تجھے مبارک ہو۔ ہر شخص قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی۔ ’’المرء مع من احبہ‘‘۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کلی محبت حقیقی محبت تھی۔ اس میں نہ تصنع تھا اور نہ عہد شکنی۔ اس محبت کے ساتھ اطاعت لازمی جزو تھا۔ ماہر القادری نے کیا خوب فرمایا:

اے نام محمد صلِّ علیٰ، ماہرؔ کے لئے تو سب کچھ ہے … ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا، آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے

یہ شعر اسی حدیث کی روشنی میں دیکھنا چاہئے جو اوپر مذکور ہوئی ہے۔جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مخلص اور سچا امتی اپنی محبت، عقیدت، تعلق اور اطاعت کو یاد کرتا ہے تو ہونٹوں پہ تبسم آجاتا ہے کہ تعلق انؐ سے ہے جن کا ساتھ کامیابی کی یقینی کلید ہے مگر کمی کوتاہی ہوجاتی ہے اس پر نظر ڈالیں تو آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں کہ نسبت کتنی اعلیٰ ہے اور دامن کتنا داغ دار ہے۔ پس اپنا محاسبہ کرتے رہنے کی ضرورت ہے اور اللہ کی رحمت کو اپنی امید اور سہارا بنا لینے میں بچت ہے۔ نبی مہربانؐ نے ارشاد فرمایا: ’’عمل کرتے رہو اور سخت کوشش کرو مگر اپنے عمل سے زیادہ اللہ کی رحمت پہ بھروسہ رکھو کیونکہ کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرسکے گا‘‘۔ پوچھا گیا: ’’یا رسول اللہ ؛ آپؐ کا عمل بھی؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں میرا بھی، اِلّا یہ کہ اللہ کی رحمت مجھے ڈھانپ لے‘‘ ۔ (صحیح مسلم)

اللہ کی رحمت پہ توکل بلا عمل، تعلیماتِ اسلامی کی نفی ہے۔ عمل ہو تو اس میں بھی اخلاص نیت اور اتباع رسولؐ لازمی قرار دی گئی ہے۔ حقوق اللہ اور حقو العباد کے درمیان توازن برقرار رکھنا از حد ضروری ہے۔ حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد کی باز پرس ہوگی۔ ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کی دادرسی، سنت رسول اور اللہ کو مطلوب ہے نیز کامیابی کیلئے لازمی شرط ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کر دکھایا تھا۔

مظلوموں کی فریاد سنی، مجبوروں کی غمخواری کی … زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے

آج پھر انسانیت اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ۔ دنیا بھر میں نبی رحمتؐ کی امت خاک و خون میں لوٹائی جارہی ہے۔ امت کی عفت مآب بیٹیوں کی عزت و عفت ظالم درندوں کے ہاتھوں تار تار ہورہی ہے۔ ساری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے اور کہیں سے ضمیر کی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ جو لوگ ان مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں ، انھیں بنیاد پرست، انتہا پسند حتیٰ کہ دہشت گرد تک قرار دے دیا جاتا ہے۔ ظلم کا یہ نظام یقینا ختم ہوگا۔ مسلمان ممالک پر شیطانی قوتوں کی یلغار ہے۔ عراق کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ مغرب میں مسلمان عورت کے نقاب پہننے کو قانونی جرم قرار دیا جارہا ہے۔ عالم اسلام میں ظالم حکمرانوں نے اپنی رعایا کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ تیونس، مصر ، لیبیا اور یمن میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں نے سروں سے کفن باندھ کر ظلم کا مقابلہ کیا اور اللہ کی نصرت و تائید سے ظالموں کے قلعے مسمار کردیئے۔ شام میں ہنوز بے گناہ شہریوں اور معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ ایک درندہ اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ عوام کو ان کے حقوق دیئے جائیں ۔ مسجدوں سے آباد اس دیار میں بدبخت نُصَیری فوجیوں کے ہاتھوں مسجدوں کے نمازی ہی نہیں ، خود مسجدیں بھی خطرے میں ہیں ۔ حُمص کی تاریخی مسجد خالد بن ولید کی دیواروں اور میناروں پر توپوں اور بندوقوں سے گولیاں برسائی گئیں اور اس کے بہت سے حصوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان حالات میں اندھیروں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ امام مالکؒ کے قول کے مطابق اسلاف کی جانب لوٹنا ہے۔ اس قوم کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہوسکتی ہے جب تک اس کی فکر و نظر میں اپنے اولین دور کی جھلک نظر نہ آئے۔

ظلم کے نظام کا خاتمہ سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے۔ یہ کام منتشر اور بکھرے ہوئے لوگوں سے کبھی ہوسکا ہے، نہ ہوسکے گا۔ اس کیلئے منظم جد و جہد کی ضرورت ہے۔ یہ سنت نبویؐ ہے، آئیں مل کر اس کا احیا کریں تاکہ کل روزِ حشر آقاؐ کے قدموں میں جگہ مل سکے۔ یہ سوال کہ بھانت بھانت کی بولیوں میں کس کا ساتھ دیں ، قرآن عظیم الشان سے پوچھئے۔ قرآن مجید کا جواب ہے: ’’یَاَ ایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا للّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰٰدِقِیْنَ o‘‘ (التوبہ:119:9)۔ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘ ۔

تبصرے بند ہیں۔