بابری مسجد: انصاف کی بے بسی، ثالثی کی رفوگری

سید منصورآغا

زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو
دوستو! اپنا لطفِ خاص یاد دلا دیا کرو
شہر کرے طلب اگر تم سے علاج تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو

گزشتہ جمعرات، 7مارچ کو سپریم کی ایک پانچ رکنی آئینی بنچ نے، جو بابری مسجد آراضی ملکیت کیس کی سماعت کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی، سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ایف ایم خلیف اللہ کی صدارت میں ایک تین رکنی ’’ثالثی ‘ ‘ کمیٹی مقررکردی جس کے ایک رکن سری سری روی شنگر بھی ہیں۔ وہ حالیہ برسوں میں اپنے طور پر’ ثالثی‘ کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس دوران انہوں دو بار یہ انتباہ دیا کہ اگر جلد ہی یہ مسئلہ پرامن طور پر حل نہیں ہوا توہمارے ملک میں شام کی طرح خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔

روی روی کا بیان:

ٹھیک ایک سال قبل مارچ 2018میں جب ان کے یہ بیان آئے، سنگھ کے خیمے میں 2019کے چناؤ کے پیش نظر اس مئلہ کو گرمانے کی تیاری چل رہی تھی۔ اس بات کا اندیشہ بھی تھا کہ چناؤجیتنے کے لیے فرقہ ورانہ آگ بھی لگائی جاسکتی ہے۔ اس لیے سری سری روی کا یہ انتباہ وزن رکھتا تھا۔ وہ ایک باخبرانسان ہیں اورعین ممکن ہے کہ ان کو ایسی کوئی بھنک مل گئی ہو، جس کو انہوں نے آشکار کردیا۔ یہ اندیشہ تو اب بھی موجود ہے۔ میڈیا میں باربار ذکر آیا کہ چناؤ سے قبل وسیع پیمانے پر تشدد برپا کیا جاسکتاہے۔روی روی کے ان بیانات کو ہم نے اسی پس منظرمیں لیا اوراندیشوں کی تصدیق جانا۔

خیرمقدم :

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اورآر ایس ایس، دنوں نے اپنے اپنے طور پر ثالثی کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ اگلے ہیں 8مارچ کو بورڈ کی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے میڈیا کو بتادیا تھا کہ بورڑ اس کمیٹی کے ساتھ تعاون کریگا، لیکن جو کچھ کہنا ہے، کمیٹی کے روبروہی کہے گا۔اخبار ہماراسماج( پٹنہ 12 مارچ) میں بورڈ کے جنرل سیکریٹری کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں سپریم کورٹ کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا گیا ہے اورامید ظاہر کی گئی ہے کہ بات چیت کے ذریعہ کوئی حل نکل آئے گا۔ خبرمیں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ بورڈ کا موقف پہلے سے ہی واضح ہے کہ یہ جگہ وقف کی ہے جس پر مسجد تھی اور شرعاً آج بھی مسجد کے حکم میں ہے۔ اگربات چیت سے حل نکل آئے تواس سے بہتربات کیا ہوسکتی، لیکن بات چیت پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کی بنیاد پر نہ ہو۔‘‘پرامن حل کے لیے بورڈ کی اس فکرمندی کا خیرمقدم ہے، لیکن کیا بورڈ پہلے سے طے شدہ موقف کہ ’یہ جگہ مسجد کے حکم میں ہے، عرش سے فرش تک اورتاابد مسجد ہے ‘ کو ترک کردینے کی پوزیشن میں ہے؟ خاص طورسے اس صورت میں اس بیان کا کیا مطلب لیا جائے کہ اسی دن آرایس ایس کے جنرل سیکریٹری بھیا جی جوشی نے گوالیار میں آرایس ایس کے کل ہند اجلاس نمائندگان (پرتی ندھی سبھا ) میں کہا آرایس کا موقف طویل عرصہ سے بالکل واضح ہے کہ رام مندراسی پلان اوراسی نقشہ کے مطابق اسی جگہ تعمیر ہوجو رام جنم بھومی تحریک کے آغاز میں ہی طے ہوگیا تھا۔ ‘‘ ہم یاد دلادیں کہ اس نقشہ کے مطابق مندر کا گربھ گرہ ( وہ مقام جہاں مورتیاں نصب ہوتی ہیں) عین اس جگہ ہوگا جہاں امام کا مصلیٰ اورممبر تھا۔

سابقہ کوششیں:

باہمی بات چیت کے ذریعہ اس مئلہ کے حل کی کوششیں پہلے بھی ہوئیں۔ وی پی سنگھ کے دورمیں بات چیت کے کئی دورچلے۔ جناب چندرشیکھرکے دورمیں معاملہ تقریبا طے ہوچکا تھا مگراس میں رخنہ ڈال دیا گیا۔ نرسمہاراؤ نے کچھ کیا تھا۔ ایک ہی سال ہوا ہے جب بورڈ نے روی روی سے رابطہ کی پاداش میں مولانا سلمان ندوی کو بورڈ سے نکال دیا۔ اب صورت حال میں ایسی کیا جوہری تبدیلی آگئی جس سے بورڈ کے موقف میں لچک آگئی؟اوراس کا نمائندہ سری سری سے بات کرسکتا ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو ہم تازہ موقف کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مصالحت کی بات چیت تو مخالفوں کے درمیان ہی ہوا کرتی ہے اس لئے سامنے کوئی بھی ہو، گریز کیوں کریں؟
مطمح نظر کیا ہو:لیکن ہم حیران ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا کوئی حل کیسے نکل آئے گا کہ مسجد کی اصل حیثیت بھی بحال ہوجائے اورمندرچاہنے والوں کی تشفی بھی ہوجائے؟ اگرثالثی کے ذریعہ حل کی امید کی جاسکتی ہے تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب جسٹس جے ایس کیہر (سابق چیف جسٹس آف انڈیا) نے یہ تجویزرکھی تھی اورخود ثالثی کو تیارتھے، توقبول کیوں نہیں کیاتھا؟ ردکیوں کردیا تھا؟ بہرحال دیرآید درست آید۔

اب کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مسئلہ اس طرح حل ہوکہ دونوں میں سے کوئی بھی فریق خود کو ٹھگا ہوا محسوس نہ کرے۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے بابری مسجد حکمرانوں کی بددیانتی، سیاست کی شاطری اورعدالتوں کی غیرمنصفی کی بدولت گزشتہ سترسال کے دوران رفتہ رفتہ ہمارے ہاتھ سے نکلتی گئی۔ہربارایک غلط کام ہوا۔ اس پر’ موجودہ حیثیت برقرار‘ رکھنے کا حکم جاری ہوتارہا۔ اورجب اس کی خلاف ورزی ہوئی تو تلافی کے بجائے نئی صورت کی برقراری کا حکم صادر ہوگیا۔ہوتے ہوتے مسجد کا وجود ختم ہوگیا۔ عملًا اس جگہ مندر بن گیا۔ اورہم کہتے رہے، ’عدالت پر ہمارا بھروسہ ہے‘۔ اللہ جو چاہے کردے، لیکن بظاہر مسجد کی بحالی کے آثارنہیں۔

ہاں اس آراضی پر ہمارا حق ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ قبضہ واپس ملے اورمسجد کی اسی جگہ تعمیر نو ہو۔لیکن ایسی صورت میں جب کہ سپریم کورٹ بھی ملکیت کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرپارہا ہے، اس کی کیا توقع کریں؟ 6دسمبر1992کو مسجد کے انہدام سے دوسال قبل باجپئی جی نے ٹھیک ہی کہا تھا، ’’ کوئی بھی عدالت اس معاملہ میں دوٹوک فیصلہ نہیں دے سکتی اوراگردے بھی دیا تو کوئی حکومت اس کو نافذ نہیں کرسکتی۔‘‘

شنکراچاریہ کی تجویز:

انہی باجپئی جی کے دورحکومت میں اس مسئلہ کو بیرون عدالت حل کرنے ایک کوشش ہوئی تھی لیکن اس وقت اس کی پذیرائی نہیں ہوئی۔ اب جب کہ مسلم فریق مصالحت کے لیے آمادگی ظاہر کررہا ہے، اورسپریم کورٹ سے بھی مدد کی امید کی جاسکتی ہے تو کوئی حرج نہیں کہ اس تجویز کا اعادہ کیا جائے۔ اگرفریق مخالف آمادہ ہوگیا تو سبحان اللہ۔ اگرنہیں ہوا تو ہمارا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ یہ تین نکاتی تجویز جون 2003 میں کانچی کے شنکرآچاریہ سری جیندر سرسوتی کی طرف سے آئی تھی جس میں پیش کش کی گئی تھی کہ اجودھیا کی آراضی مندر کے لیے دیدی جائے تومرکزی حکومت محکمہ آثار قدیمہ کے تحت بند ایک ہزار سے زیادہ مسجدوں کو نماز کے لیے کھو ل دے گی۔اسی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کوسرکاری ملازمتوں میں9؍ فیصد ریزرویشن دیدیا جائے گا۔ کاشی اور متھرا کی عبادت گاہوں پر سے مطالبہ ہٹا لیا جائیگا۔‘

اگربات آگے بڑھتی توآثار قدیمہ کے تحت بند مساجد کو کھولنا باجپئی سرکار کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ یہ پابندی ایک جی ا و کے تحت عائد ہے، جس کوکسی بھی وقت واپس لیا جاسکتا ہے۔ اس وقت یہ یقین کرنے کی وجوہات موجود تھی کہ اس پیش کش کوباجپئی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔دو صفحات پر مشتمل یہ تجاویز 21؍جون کو مسلم پرسنل بورڈ کو ملی تھیں،لیکن ان کونہ تو مسلم فریق نے قبول کیا اور نہ وی ایچ پی نے۔ ( ہندستان ٹائمز22؍ جون2003)

تجویز کی تائید :

اس تجویز کی تائید میں روزنامہ’ قومی آواز‘ (28-27جون ) میں ایک دوقسطی مضمون شائع ہوا تھا۔ اس میں عرض کیا تھا: اگر مسلم فریق شنکرآچاریہ کی تجویز کو اس شرط کے ساتھ قبول کرلے کہ مندر کی تعمیر اور انتظام حکومت اپنے ہاتھ میں لے اور وی ایچ پی کو اس سے بے دخل کیا جائے، تو وی ایچ پی کو بے نقا ب کرنے اورفرقہ پرستی کے ناگ کو کچلنے میں مدد مل سکتی ہے۔ وی ایچ پی اگر اس کے باوجود خودمندرتعمیر کرنے کے اصرار پر قائم رہتی ہے توعوام کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہُ اس کا مقصد رام مندر نہیں، کچھ اور ہے۔ اگرچہ خیال یہ ہے کہ کسی سمجھوتے کیلئے تمام فریقوں کا رضامند ہونا ضروری ہے، مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اصل فریق کوئی تنظیم نہیں بلکہ ہندوقوم ہے۔ ہمارے موقف کو چاہے وی ایچ پی مسترد کردے مگر ان اعتدال پسندہندوؤں کے دل میں اتر جانی چاہئے جن کوورغلا کر فرقہ پرست عناصر طاقت حاصل کرتے ہیں۔ عوام کو شری رام سے عقیدت اوران کے نام پر ایک مندر کی تعمیر میں دلچسپی ہے۔ اس بات سے ہر گزدلچسپی نہیں کہ مندر وی ایچ پی ہی تعمیر کرے۔جس طرح ہزاروں مساجد پر قبضہ مخالفانہ انگیز ہے، اسی طرح اس ایک اور مسجد پر بھی کر لیا جائے جو عملا مندر بن چکی ہے، تو ملک کی فرقہ ورانہ فضا کو بدلنے میں بڑی مدد ملے گی۔‘‘لیکن افسوس یہ صداسنی نہیں گئی۔ ‘غورکیجئے کہ اگرآثارقدیمہ کے تحت بندہماری ایک ہزارمساجد کھل جائیں، توکیا یہ گھاٹے کا سودا ہوگا۔ نہیں آج بھی نہیں۔ ایک ہزارمساجد سے اذان کی آواز کاپھر آنا اوران میں تلاوت قرآن اوراقامت صلوٰۃ یقیناًہمارے اس گناہ کو دھودیگا جو بابری مسجد کے ملبہ کی دستبرداری کے عائد ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ طریقہ کار:

ثالثی کے لیے سپریم کورٹ کے طریقہء کار میں ہمارے دولائق ماہرین نے قانونی نقائص کی نشاندہی کی ہے۔ مسٹڑاے جی نورانی نے اس کو ’بنیادی طورسے غلط‘inherently flawed) ( قراردیا ہے۔ انہوں نے آئینی بنچ کے رکن جج جسٹس ایس اے بوبڈے کے اس مشاہدے کا حوالہ دیا ہے کہ کیس حق ملکیت طے کرنے کے لیے نہیں۔ مسٹرنورانی نے بجا طور پریاد دلایا ہے کہ مقدمہ شروع ہی ملکیت پر تنازعہ سے ہوا ہے۔(ہندستان ٹائمز 10مارچ)

پروفیسر فیضان مصطفی نے اس ثالثی کمیٹی کے تشکیل میں ہی چھ قانونی نقائص کی نشاندہی کردی ہے اوراس بات پر زوردیا ہے اورکہا ہے، ہماری آئینی عدالت ایک قانونی نظام ہے جس کوایک فرقہ کی عددی برتری کے مقابلہ میں اپنا منصفانہ رول اداکرنا چاہئے۔ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ چاہے ایک ہی شخص کا معاملہ ہو، اس کے حق کی حفاظت کرے۔اس لیے عوامی جذبات بے محل ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا ہے، ’قانونی مسئلہ حق ملکیت کے تنازعہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے یہ جو کہا ہے کہ اس معاملے سے لاکھوں ہندستانیوں کے جذبات وابستہ ہیں، درست کہا ہے۔ ہندوؤں کے لیے ’’عقیدہ‘‘ کا مسئلہ ہے کہ یہ رام جنم بھومی ہے (جس کا کوئی قانونی، تاریخی یا دستاویزی ثبوت نہیں) جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ آئین اورملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے غیرجانبدارانہ انصاف پر ’’عقیدہ‘‘ کا معاملہ ہے۔جن لوگوں نے ایک قدیم مسجد ہی نہیں بلکہ شرقی طرز تعمیر کی واحد یادگار کو مسمار کردیا ان کو گزشتہ 27سال میں سزانہیں دی جاسکی۔ سپریم کورٹ نے اس حالیہ آرڈیننس کو بھی نہیں روکا جو خود اس کے حکم کے خلاف ہے اورجس کے ذریعہ متنازعہ آراضی (جو عدالت میں زیرغور ہے) ایک فریق کو دیدی۔ ‘‘ (انڈین ایکسپریس10مارچ)

یہ اقتباسات اس لیے نقل کردیے گیے کہ ہم کسی مفروضہ کے بجائے حقیقت آشکار بن کر اگلے اقدام کا فیصلہ کریں۔ ان تمام ترنقائص کے باوجود ہم بورڈ کے اس موقف سے ہمدردی کا اظہارکرتے ہیں کہ اچھا ہو، یہ تنازعہ پرامن طورپر حل ہوجائے۔ ہاں اس کے لیے ضروری کے کہ صرف ملی اورقومی مفاد کو پیش نظررکھا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Syyed Mansoor Agha کہتے ہیں

    السلام علیکم۔ میرے مضامین کی اشاعت کے لیے ممنون ہوں۔
    سید منصور آغا۔
    +918077982485

تبصرے بند ہیں۔