بابری مسجد انصاف کی منتظر!

محمد وسیم

6 دسمبر 1992 کو اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے قریب فیض آباد کے علاقے ایودهیا میں مغلیہ طرز پر بنی شاندار بابری مسجد ہندو تنظیموں ، حکومتوں اور سیاسی لوگوں کی موجودگی میں بڑی بے دردی سے شہید کر دی گئی- بابری مسجد کی شہادت پر ہندوؤں نے جشن منایا ، مٹھائیاں تقسیم کیں ، بابری مسجد کی شہادت کی خبر جب روےء زمین پر بسنے والے تمام ممالک تک پہونچی تو ہندوستانی نظام کی چو طرفہ مذمت ہوئی ، اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کے دباؤ کے نتیجے میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نرسمہا راو نے اسی جگہ پر بابری مسجد کی از سر نو تعمیر کی یقین دہانی کرائی تهی مگر ابهی تک ایسا نہیں ہو سکا- بابری مسجد کا معاملہ مسلمانوں کے ایمان و عقیدے سے جڑا ہوا ہے- ہر ہندوستانی مسلمان اور دنیا کے تمام مسلمان بابری مسجد کی تعمیر کے منتظر ہیں، بابری مسجد کی از سر نو تعمیر میں ادنیٰ سی کوشش کو بهی مسلمان اپنے لئے عظیم اجر و ثواب کا باعث سمجھتے ہیں

مسجد مسلمانوں کے یہاں سب سے مقدس مقام ہے ، اسی وجہ سے مسلمان مسجد کو اپنی ذات سے بهی زیادہ اہمیت دیتے ہیں – اور اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، مسجد سے ایمانی محبت کی وجہ سے بابری مسجد کی شہادت پر مسلمانانِ ہند کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کے مسلمان بهی تڑپ اٹهے ، مسجد کی شہادت کے نتیجے میں ملک کے کئی حصوں میں فساد بھڑک اٹھے ، جس کی وجہ سے کافی جان و مال کا نقصان ہوا- سروے کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایودهیا کے مقامی مسلمانوں کے گھروں میں تقریباً 25 دن تک چولہے نہیں جلے- بابری مسجد کی شہادت ہندوستانی نظام پر انتہائی بد نما داغ ہے- اس داغ کو مٹانے کے لئے سپریم کورٹ کو تمام ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے بابری مسجد کے حق میں فیصلے کو یقینی بنانا ہوگا- ابهی حال ہی میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے دونوں فریقوں کے سامنے تجویز پیش کی ہے کہ دونوں فریق باہمی مشورے سے بابری مسجد کے معاملے کو حل کر لیں – لیکن مسلم مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے سپریم کورٹ کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ بابری مسجد کا معاملہ ثبوتوں کی بنیاد پر حل ہو- اس سے پہلے بهی 7 بار صلح کی کوشش کی گئی ہے مگر ناکام رہی

18 سالوں کے بعد جب الہ آباد ہائی کورٹ نے مسجد کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ رام للا کو دوسرا حصہ نرموہی اکھاڑا کو اور تیسرا حصہ سنی وقف بورڈ کا فیصلہ سنایا تو مسلمان اس فیصلے سے سخت ناراض ہوےء اور غور و فکر کرنے کے بعد بابری مسجد کے معاملے کو ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں لے کر چلے گئے- اب معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ غور ہے ، مگر بی جے پی کی قیادت سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی بیان بازی کر رہی ہے- بی جے پی سنسد سبرا منیم سوامی نے بابری مسجد سے متعلق ہمیشہ دھمکی آمیز لہجے میں بات کی ہے- سپریم کورٹ کی تجویز کے بعد ان کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان سریو ندی کے اس پار مسجد بنا لیں اور بابری مسجد کی جگہ سے دستبردار ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ 2018 میں خصوصی قانون پاس کر کے رام مندر کی تعمیر کرائی جائے گی اور کوئی کچھ نہیں کر سکے گا- جب سبرا منیم سوامی بابری مسجد کے حق میں سپریم کورٹ کے ذریعے دےء گئے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو سپریم کورٹ سے ان کو مزید کیا امید ہے ؟ ان کی مرکز اور صوبے میں سرکار ہے بڑے آرام سے رام مندر بنا لیں – کیوں کہ ہمت تو صرف انهیں کے پاس ہے- جن کی مسجد ہے وہ بغیر ہمت کے ہی 25 سالوں سے بابری مسجد کی تعمیرِ نو کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں

قارئینِ کرام ! جس شخص نے بابر رحمہ اللہ کی تاریخی بابری مسجد میں آخری بار نماز پڑھی وہ جناب ہاشم انصاری صاحب تھے – جو بیماری ، کمزوری اور نامساعد حالات کے باوجود بھی تقریباً 70 سالوں تک بابری مسجد کی بازیابی کے لئے کوششیں کرتے رہے ، اور بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی کرتے رہے ، وہ اپنی ہی زندگی میں بابری مسجد کی تعمیر کے منتظر تھے مگر ان کی خواہش پوری نہیں ہو سکی اور اس دنیا سے چلے گئے- البتہ ہمیں قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے مسلمانانِ ہند بابری مسجد کو از سرِنو تعمیر کر کے ہاشم انصاری کی آخری خواہش کو پوری کریں گے اور بابر رحمہ اللہ کی نشانی بابری مسجد کو ایودهیا میں اسی شان و شوکت کے ساتھ تعمیر کریں گے… ان شاء اللہ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔