بابری مسجد کے بارے میں میرا موقف

ڈاکٹر ظفر الاسلام  خان

محترمی!

مختلف اخبارات اور پورٹلز نے نیوز ۱۸ کے ساتھ  میرے انٹرویو  کو کسی نامعلوم ایجنسی کے حوالے سے غلط طریقے سے پیش کیا ہے۔ عدالت کے باہر تصفیے کی تایید کرتے ہوئے میں نے  پہلے سپریم کورٹ پھر مرکزی حکومت اور پھرتیسرے نمبر پرآر ایس ایس کو رکھا تھا جس کے ذریعے عدالت کے باہر کوئی تصفیہ ممکن  ہو سکتاہے کیونکہ ان تینوں کے پاس قوت نافذہ ہے۔ لیکن خبروں میں صرف آر ایس ایس  کا ذکر کیا گیا ہے۔

آر ایس ایس کو میں نے تیسرے درجے پر رکھا تھا کیونکہ رام مندر کے نام پر سیاست  اور دنگا کرنے والی تنظیموں پر اس کا  مکمل کنٹرول ہے۔ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس کھیھر نے خود  مارچ 2017 میں  اس تنازعے کو عدالت کے باہر حل کرنے کے لئے ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ میں نے مزید کہا تھا کہ  مذکورہ بالا تین  اتھاریٹیز کے پاس قوت نافذہ ہے جبکہ سری سری  کے پاس  کوئی قوت نافذہ نہیں  اور کچھ ہندو تنظیموں نے اس مسئلے میں ان کی دخل اندازی پر اعتراض  جتایا ہے۔

اس سلسلے میں دوسرا اہم پہلو یہ ہے  کہ عدالت کاحتمی فیصلہ ایک  فریق کے حق میں اور دوسرے فریق کے خلاف ہوگا جس کی وجہ سے تنازعہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کی جان و مال کے ساتھ کھیل بھی۔ اس کے بر عکس، فریقین کے درمیان  باہم رضامندی سے آنے والا  تصفیہ دونوں کو مطمئن کرے گا اور  مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔

میں نے یہ کبھی نہیں کہا ہے کہ موجودہ عدالت کا مقدمہ روک دیا جانا چاہئے۔عدالت سے باہر  تصفیے  کی کوششوں کے ساتھ ساتھ عدالت کی کارروائی بھی چلتی رہے اور اگر  کوئی  قابل اطمینان حل  مل جاتا ہے تو فریقین عدالت کو مطلع  کرکے اسے خارج کرنے کی درخواست کریں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔